بزمِ یارانِ سخن کراچی کے زیر اہتمام جشن آزادی مشاعرہ منعقد کیا گیا جس کی مجلسِ صدارت میں رفیع الدین راز اور فیروز ناطق خسرو شامل تھے۔ محمود احمد خان مہمان خصوصی تھے۔ ڈاکٹر افتخار ملک ایڈووکیٹ اور ڈاکٹر عابد شیروانی ایڈووکیٹ مہمان اعزازی تھے۔ آئرین فرحت نے نظامت کے فرائض انجام دیے‘ تلاوتِ کلام مجید اور نعت رسولؐ کی سعادت نعمان طاہر نے حاصل کی۔ ریفرین صابر نے حمدیہ اشعار پیش کیے۔ راقم الحروف ڈاکٹر نثار نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ آزادی ایک بڑی نعمت ہے جو لوگ پابندِ سلاسل ہوتے ہیں ان کی زندگی نہایت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ برصغیر ہند و پاک پر مسمانوں نے طویل عرصے تک حکومت کی لیکن مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد پورے ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم ہو گئی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر مسلمانانِ ہند نے آزادی کا مطالبہ کیا جس کی پاداش میں انگریزوں نے ہندستانی مسلمانوں پر بے انتہا ظلم و ستم ڈھائی لیکن قیام پاکستان کی تحریک جاری رہی اور 14 اگست 1947ء کو ہم نے قائد اعظم کی سربراہی میں پاکستان قائم کر لیا۔ پاکستان بنانے کی تحریک میں شعرائے کرام نے بھی اپنا حصہ شامل کیا۔
ڈاکٹر عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ پاکستان ہمارا ملک ہے‘ ہم اس کی حفاظت کرتے ہیں‘ ہمارا پڑوسی ملک بھارت نہیں چاہتا کہ پاکستان ترقی کرے‘ اس نے ہم سے متعدد جنگیں لڑی ہیں‘ ہم نے پاکستان کے لیے اپنی جانیں قربان کیں‘ اگر پاکستان آزاد ہے تو ہماری زندگی ہے‘ غلامی کی زندگی سے موت بہتر ہے۔ شعرائے کرام ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں ان کے قومی نغمے ہمارا خون گرماتے رہتے ہیں۔ بزمِ یارانِ سخن کے صدر سلطان صدیقی بوجوہ مشاعرے میں نہیں آسکے تاہم انہوں نے آن لائن کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ بزمِ یارانِ سخن کا جشن آزادی مشاعرہ ترتیب دینے کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ ہم شاعری سے ذہنی سکون حاصل کریں اور آزادی کی اہمیت سے بھی آگاہ ہوں‘ کوئی بھی غلام قوم اپنے معاشرتی‘ سیاسی اور مذہبی اقدار کو ادا نہیں کرسکتی‘ غلام قوموں کی زندگی اجیرن ہوتی ہے ہم نے انگریزوں کی غلامی میں تکالیف اور ظلم برداشت کیے ہیں وہ تاریخ میں رقم ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اب ہم آزاد قوم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر پاکستانی چاہتا ہے کہ اس کو تمام سہولیاتِ زندگی میسر ہوں‘ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم ایک صف میں کھڑے ہو کر پاکستان کی ترقی کے لیے کام کریں‘ اللہ ہمارای مدد فرمائے گا۔ ڈاکٹر افتخار ملک ایڈووکیٹ نے اپنی غزل سنانے سے قبل کہا کہ پاکستان کی ترقی میں شعرائے کرام شامل ہیں‘ ہم اپنی قوم کو جگاتے رہتے ہیں اپنے اشعار کے ذریعے ہم آنے والے مسائل سے آگاہ کرتے رہتے ہیں‘ ہم ظلم و تشدد کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں‘ شاعری کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ ہم معاشرے میں بہتری پیدا کریں۔
فیروز ناطق خسرو نے کہا کہ ان کا تعلق پاکستان ائر فورس سے رہا ہے‘ ہم نے انڈیا کے خلاف پوری توانائی سے جنگ کیں اور بہت سے مقامات پر ہم نے قابل ستائش کامیابی حاصل کی۔ ہماری افواج کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام بھی ہندوستان کے خلاف نبرد آزما رہے۔رفیع الدین راز نے کہا کہ بزمِ یارانِ سخن کراچی ایک اہم ادارہ ہے جو کہ تواتر کے ساتھ ادبی پروگرام کرتی ہے‘ آج کے جشن آزادی مشاعرہ میں بہت عمد قومی نغمات پیش کیے گئے‘ جشن آزادی کی تقریبات پورے ملک میں ہوتی ہیں لیکن بارشوںنے کراچی کو متاثر کیا ہے‘ جس کے باعث یہ مشاعرہ 14 اگست کو نہیں ہو سکا اور آج ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جشن آزادی منانے کا اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ہم نئی نسل کو ان حالات سے آگاہ کر سکیں کہ جن سے گزر کر ہم نے پاکستان بنایا تھا اور انہیں اس بات پر تیار کیا جاسکے کہ اب پاکستان کی حفاظت ان کے ذمے ہے‘ ہم سب کو چاہیے کہ ہم پاکستان کی ترویج و اشاعت کے لیے اپنا کام خوش اسلوبی اور ایمان داری سے کریں۔
اس گفتگو کے بعد رفیع الدین راز نے اپنا کلام بھی پیش کیا۔ ان کے بعد فیروز ناطق خسرو‘ افتخر ملک ایڈووکیٹ‘ اختر سعیدی‘ حجاب عباسی‘ سلیم فوز‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ مقبول زیدی‘ شوکت علی چیمہ ایڈووکیٹ‘ پروفیسر شائستہ سحر‘ مرزا عاصی اختر‘ ناہید عزمی‘ صفدر علی انشا‘ افسر علی افسر‘ سلمان عزمی‘ فخر اللہ شد‘ یاسر سعید صدیقی‘ کامران صدیقی‘ شجاع الزماں شاد‘ سلمیٰ رضا سلمیٰ‘ کشور عروج‘ سرور چوہان‘ حنا سجاول ایڈووکیٹ‘ نادیہ خان اور آئرین فرحت نے اپنا کلام پیش کیا جب کہ سلمان صدیقی اور ڈاکٹر رانا خالد محمود نے آن لائن کلام پیش کیا۔
گل دستہ سخن اور ریڈیو پاکستان کراچی کا
یوم دفاع مشاعرہ
5 ستمبر کو کراچی کی ایک ادبی تنظیم گل دستۂ سخن کے زیر اہتمام ریڈیو پاکستان کراچی کے تعاون سے سوک سینٹر کراچی میں یوم دفاع پاکستان مشاعرہ منعقد ہوا۔ مشاعرے میں ڈاکٹر شاداب احسانی‘ اختر سعیدی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ عارف پرویز نقیب‘ تنویر سخن‘ عادل کراچی والا‘ سلیم شہزاد‘ ذوالفقار حیدر پرواز‘ مظہر مہدی اور نظر فاطمی نے کلام پیش کیا۔ نظر فاطمی نے نظامت کے فرائض بھی انجام دیے اور تلاوت کلام مجید کے ساتھ ساتھ نعت رسولؐ بھی پیش کی۔ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ پاکستان آزاد ملک ہے لیکن بدقسمتی سے ہم انگریز کے تسلط سے آج تک آزاد نہیں ہو سکے‘ ہمارا کوئی بھی قومی بیانیہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 6 ستمبر 1965ء کو ہمارے ملک پر ہندوستان نے اچانک حملہ کیا‘ لاہور کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا‘ 17 روز جاری رہنے والی اس جنگ میں پاکستان کو برتری حاصل رہی‘ ہم نے ہندوستان کو شکست دی اور ہر سال ہم اس جنگ کو یاد کرتے ہیں‘ ہم نے 6 ستمبر کو ’’یوِدفاع پاکستان‘‘ کا نام دیا ہے۔ بھارت نے ہمیں شدید نقصان پہنچایا تاہم پاکستان نے ہندوستان کو سبق سکھایا۔ اس جنگ میں ایم ایم عالم نے عالمی ریکارڈ قائم کیا کہ انہوں نے ہندوستان کے کئی طیاروں کو بیک وقت تباہ کیا۔ اس جنگ میں ہم صرف اس وجہ سے فتح یاب ہوئے کہ ہم نے اپنی فوجوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کا دفاع کیا۔ اس موقع پر ہر صوبے سے بے شمار لوگ قومی رضا کار فورس میں شامل ہوئے اور پاکستان کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا۔