جانسن گاؤں کا رہنے والا ایک سیدھا سادا انسان تھا۔ قدرتِ خداوندی اسے بیوی بہت خوبصورت ملی جسے وہ دل و جان سے زیادہ پیار کرتا تھا۔ اس کی محبّت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کم آمدنی ہونے کے باوجود بھی اس نے اپنی شادی کی پہلی سالگرہ پر اپنی شریکِ حیات مارگریٹ کو ہیرے کی ایک قیمتی ترین انگوٹھی تحفے میں دی۔ مارگریٹ کو وہ انگوٹھی بہت عزیز تھی انگوٹھی اس کی جان تھی وہ کسی وقت بھی اسے اپنے سے جدا نہ کرتی تھی ۔خدا نے اسے پھول جیسے دو بچّے بھی دیے ۔چار افراد پر مشتمل یہ خاندان ایک خوشحال زندگی بسرکررہا تھا ہر طرح کے آسایشیں انہیں میسّر تھیں مگر مشیت ِخداوندی کے آگے انسان مجبور ہے ۔جانسن کی زندگی ایک ایسے سانحہء عظیم سے دوچار ہوئی جس نے جانسن کو ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیا۔
اور وہ سانحہ تھا مارگریٹ کی اچانک موت …جانسن کے لیے یہ صدمہ ناقابلِ برداشت تھا۔ موت بر حق ہے سب کو آنی ہے، کسی کو جلدی تو کسی کو دیر سے۔ مگر کچھ اموات ایسی ہوتی ہیں جو میّت کے متعلقین کے لیے ایک گہرا زخم ہوتا ہے۔ مارگریٹ کی اچانک موت جانسن کے لیے ایک نا مندمل ہونے والا زخم تھا۔ مکان کے صحن میں تابوت رکھا ہوا تھا اہلِ محلہ عزیز و اقارب دوست احباب سبھی اس کے ارد گرد مارگریٹ کے آخری دیدار کے لیے اکٹھّا تھے۔ مارگریٹ سفید کفن لپیٹے چہرہ کھلا ہوا اس طرح لیٹی تھی جیسے کوئی حسینہ محو ِخواب ہو۔ جانسن کے اشک تھے جو تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔ اسے یقین تھا کہ مارگریٹ ابھی بیدار ہوگی اور وہ اسے پیار سے گلے لگا لے گا ۔جانسن کا قریبی دوست جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھا اسے مستقل دلاسا دے رہا تھا اور اسے یقین دلانے کی پوری کوشش کر رہا تھا کہ مارگریٹ مر چکی ہے اب وہ زندہ نہیں ہو سکتی اب اس کی ملاقات جنّت ہی میں ہوگی ۔
اچانک اس ڈاکٹر دوست کے ذہن میں ایک خیال آیا اس نے جانسن کے قریب ا ٓکر رازدارانہ انداز میں کہا ’’دیکھو جانسن تمہاری مارگریٹ اب مر چکی ہے ،کچھ دیر بعد یہ قبر میں لٹا دی جائے گی اور اس کا جسد ِخاکی خاک میں مل جائے گا لہٰذا تم اس کے ہاتھ سے وہ قیمتی ہیرے کی انگوٹھی اتار لو کیونکہ قبر میں اس انگوٹھی کو ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں یہ ضائع ہو جائے گی‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی غیر ارادی طور پر جانسن نے کفن سے انگوٹھی والا ہاتھ باہر نکالا اور انگوٹھی اتارنے کی کوشش کی مگر بے سود …انگلی میں اتنی سوجن آ چکی تھی کہ انگوٹھی نہ اتر سکی۔ تابوت کے ارد گرد تمام افراد نے یہ غیر معمولی منظر دیکھا ۔مارگریٹ ہیرے کی انگوٹھی کے ساتھ قبر میں دفن کر دی گئی۔
٭…٭…٭
رات کا تیسرا پہر تھا۔جانسن بستر پر دراز تھا مگر غم سے نڈھال اس شخص سے اس کی نیند کوسوں دور تھی ۔اس کے دل و دماغ پر صرف اور صرف اس کی چہیتی بیوی سوار تھی شادی شدہ زندگی کے پانچ سال کی یادیں اس کے ذہن پر چھائی ہوئی تھیں۔ انہی سوچوں میں غرق تھا کہ دروازے پر کُنڈی کھڑکنے کی آواز آئی۔ اس نے اپنے آپ سے کہا کہ کُنڈی کھڑکانے کا انداز بالکل ویساہی ہے جیسے مارگریٹ کنڈی کھڑکایا کرتی تھی …پھر اس نے خود ہی اپنے آپ کو جواب دیا کہ یہ اس کا وہم ہے اور دروازے کی جانب یہ سوچتے ہوئے بڑھا کہ بھلا تین بجے رات کو کون آ سکتا ہے۔ جانسن نے دروازہ کھولا تو سامنے مارگریٹ کھڑی تھی۔ کفن لپیٹے …کفن کا بیشتر حصّہ خون آ لود …چہرہ ہونّق، گرد آلود… بال بکھرے ہوئے ۔ایسی خوفناک صورت جس کا جانسن کبھی تصوّر بھی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ عورت جسے وہ کل دوپہر میں اپنے ہاتھوں سے قبر میں لٹا کر آیا تھا کیا ایسا ممکن ہے کہ وہ زندہ ہو کر دوبارہ واپس آ جائے؟ وہ اسی شش و پنج میں مبتلاتھا کہ یہ خواب ہے یا حقیقت اور جب اسے یقین ہو گیا کہ یہ حقیقت ہے تو وہ اس حقیقت کی تاب نہ لا سکا اور بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا ۔
٭…٭…٭
ہوش آنے کے بعد جانسن کی نظر مارگریٹ کی کٹی ہوئی انگلی پر پڑی جہاں سے اب بھی خون رس رہا تھا انگلی غائب تھی یہ وہی انگلی تھی جس میں مارگریٹ نے ہیرے کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی مارگریٹ نے اسے بتایا کہ جب وہ ہوش میں آئی اور اس کے حواس مجتمع ہوئے تو اسے محسوس ہوا کہ ایک شخص اس کے اوپر گر پڑا شاید وہ مر چکا تھا مارگریٹ کی انگلی سے خون کی ایک تیز دھار بہہ رہی تھی مارگریٹ ایک مضبوط اعصاب کی مالک تھی وہ کسی طرح قبر سے باہر آگئی اس نے کفن کے ایک حصّے سے بہتے ہوئے خون کو دبا دیا تاکہ خون رک جائے چاندنی رات تھی کیونکہ اس کا گھر قبرستان کے قریب تھا اور اسے راستے کا علم تھا وہ کسی طرح اپنے گھر پہنچ گئی۔
جانسن حقیقت جاننے کے لیے بے چین تھا اسے تجسّس تھا لہٰذا علی الصّباح اس کا رخ قبرستان کی طرف تھا ۔مارگریٹ کی قبر پر پہنچ کر وہ کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص قبر کے اندر مرا ہوا اوندھا پڑا ہے۔ جانسن قبر میں اترتا ہے اسے تابوت میں ایک چاقو نظر آتا ہے، اور وہیں پر کٹی ہوئی انگلی پڑی ہوتی ہے۔ جانسن انگلی سے انگوٹھی الگ کر لیتا ہے۔ جانسن کی سمجھ میں ساری باتیں ا ٓجاتی ہیں کہ یہ مرا ہوا شخص دراصل ایک چور ہے جس نے قبر کھودی پھر مارگریٹ کا ہاتھ کفن سے باہر نکال کر انگلی کاٹ دی تاکہ ہیرے کی انگوٹھی حاصل کر سکے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا چونکہ مارگریٹ سکتے کے عالم میں تھی خون کی تیز دھار بہنے سے جسم کا خون رواں ہو گیا اور مارگریٹ کی زندگی لوٹ آئی قبر کے اندر کا خوفناک ماحول ایک مردہ عورت کفن لپیٹے سامنے پڑی ہو اور اچانک زندہ ہو کر بیٹھ جائے تو کیا کوئی شخص چاہے وہ کتنے ہی مضبوط دل کا مالک ہو کیا ایسی ہیبت ناک صورتحال کا مقابلہ کر سکتا ہے… ناممکن …چور مارگریٹ کو زندہ دیکھ کر یہ حیرت انگیز معجزہ برداشت نہ کر سکا اور وہیں اس کا ہارٹ فیل ہو گیا ہے۔
اب جانسن مرے ہوئے اس شخص کی شکل دیکھنا چاہتا تھا ، جو حقیقت میں تو چور تھا مگر جانسن کے لیے مسیحا۔کیونکہ اس کی وجہ سے اسے اپنی چہیتی بیوی مرنے کے بعد دوبارہ مل گئی تھی اور جب جانسن نے اس مرے ہوئے شخص کا چہرہ اٹھایا تو حیرت میں پڑ گیا کیونکہ وہ کوئی غیر نہ تھا بلکہ اس کا اپنا ڈاکٹر دوست تھا۔
اور ہیرے کی وہ بیش قیمت انگوٹھی پھر سے مارگریٹ کے ہاتھوں کی زینت بن گئی۔