ہوش مند اور باشعور مسلمان جو اپنے دین کے احکام کو اچھی طرح سمجھتا ہے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بہترین معاملہ کرتا ہے۔ ان کے ساتھ سب سے زیادہ نیک برتائو اور اچھا سلوک کرتا ہے اور مہر بانی اور رحم وکرم کے ساتھ پیش آتا ہے۔ پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک کے سلسلے میں وہ اسلامی تعلیمات کو پیش نظر رکھتا ہے۔اس لیے وہ پڑوسی کے بارے میں اسلام کی بیش قیمت تعلیمات اور بے بہا وصیتوں کو اپنے ذہن میں ملحوظ رکھتا ہے اور باہمی تعلقات کا مرتبہ جو اسلام نے عطا کیا ہے اسے پیش نظر رکھتاہے۔ اسلام نے پڑوسی کو اتنا بلند مقام اور عالی مرتبہ عطا کیا ہے جتنا نہ اس سے پہلے کسی شریعت نے دیا، اورنہ اس کے بعد کوئی نظام ہی اس کی ہمسری کر سکا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے پڑوسی کے ساتھ اچھا برتائو کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۙ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْــتَالًا فَخُــوْرَۨا۳۶ (النساء ۴:۳۶)اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آئو، اور پڑوسی رشتہ دار سے ، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے، اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمھارے قبضے میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو۔ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے۔
پڑوسی رشتہ دار سے مراد وہ شخص ہے جس کے ساتھ پڑوس کا تعلق ہونے کے ساتھ ساتھ نسب یا دین کا بھی رشتہ ہو، اور اجنبی ہمسایہ سے مراد وہ شخص ہے جس کے ساتھ نسب یا دین کا رشتہ نہ ہو، اور پہلو کے ساتھی سے مراد ہر وہ شخص ہے جو کسی اچھے کام میں شریک اور ہمراہ ہو۔
پڑوسی کا مقام: معلوم ہوا کہ جو شخص بھی تمھارے پڑوس میں ہے تم پر اس کا حقِ جوار ہے، خواہ تمھارے اور اس کے درمیان نہ کوئی نسب کا تعلق ہو اور نہ دین کا رشتہ ۔ اس میں پڑوسی کی تکریم اور اس کا احترام شامل ہے۔غور کرنے کا مقام ہے کہ اسلام کی تابناک شریعت نے پڑوسی کی کتنی عزّت افزائی کی ہے۔
اسی طرح بہت سی احادیث رسولؐ میں بھی بلا کسی تخصیص کے پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے، خواہ اس سے قرابت اور دین کا کوئی تعلق ہو یا نہ ہو، اور ان میں اسلام کے نزدیک پڑوسی کے تعلق کی اہمیت پرزور دیا گیا ہے۔ مثلاً: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مجھے جبریلؑ برابر پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک کا معاملہ کرنے کی وصیت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ میں یہ گمان کرنے لگا کہ وہ اسے وراثت کا مستحق قرار دے دیں گے۔(بخاری)
حضرت جبریل علیہ السلام کی وصیت کے بالمقابل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پڑوسی کے ساتھ اکرام واحترام کا معاملہ کرنے اور حُسنِ سلوک کا برتائو کرنے کی ترغیب دی ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے حجۃ الوداع میں اپنے تاریخی خطبے میں (جس میں کہ ان تمام چیزوں کا خلاصہ پیش کر دیا تھا جن سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا تھا) پڑوسی کے بارے میں بھی وصیت فرمائی ، اور اس کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے پر زور دیا۔ آپؐ نے اس جانب اپنے صحابی حضرت ابو امامہؓ کو متوجہ کیا۔ یہاں تک کہ وہ بھی یہ سمجھنے لگے کہ آپؐ اسے وراثت کا حق دار قرار دے دیں گے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔ اس حالت میں مَیں نے آپؐ کو فرماتے ہوئے سنا:
’’(لوگو!) میں تمھیں پڑوسیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کی وصیت کرتا ہوں‘‘۔آپؐ نے یہ اتنی بار فرمایا اور اتنا زو ر دے کر فرمایا کہ میں سمجھنے لگا کہ آپؐ اسے وراثت میںحق دار قرار دے دیں گے۔ (بخاری ، مسلم)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آنے اور اچھا برتائو کرنے کو اتنی اہمیت دی ہے کہ اس کے ساتھ اچھا برتائو کرنے اور اسے تکلیف نہ پہنچانے کو اللہ اور آخرت پر ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت اور اس کے بہترین نتائج میں سے ایک حتمی اور لازمی نتیجہ قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
جو شخص اللہ اور روز آخرپر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک کرے، جو شخص اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے، جو شخص اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ خیر کے کلمات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔ (بخاری ، مسلم)
’’جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے‘‘۔(بخاری)
پڑوسی کے ساتھ نرمی کا برتاؤ: اس میں کوئی تعجب نہیں کہ سچا مسلمان جو اس دین کی تعلیمات سے اپنے دل اور عقل کو روشن کرتا ہے، اپنے پڑوسی کے ساتھ نرم خو اور خوش خلق ہوتا ہے۔ رہن سہن میں بھلائی کے ساتھ پیش آتا اور معاملات میں نرمی برتتا ہے۔ اس کے پڑوسی کو اگر اس کے گھر سے کوئی فائدہ پہنچ رہا ہو تو اسے روکتا نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی پڑوسی اپنے پڑوسی کو دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے منع نہ کرے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
پسند و ناپسند کی بنیاد:روشن بصیرت رکھنے والا اور اپنے دین کے نور سے رہنمائی حاصل کرنے والا مسلمان نرم دل ، بیدار مغز، خوش اخلاق اور ذکی الحس ہوتا ہے۔ اپنے پڑوسی کے احساسات میں شریک رہتا ہے۔ اس کی خوشی کو اپنی خوشی اور اس کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتا ہے۔ جو چیز اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اس کے لیے پسند کرتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو اپنے لیے مشعل راہ بناتا ہے:’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔
جب بھی اس کے گھر سے کسی چیز کے پکنے یا بھننے کی خوشبو آتی ہے تو وہ اپنے غریب پڑوسیوں کو فراموش نہیں کرتا بلکہ ان کا بھی خیال رکھتا ہے۔ اس پر شاق گزرتا ہے کہ اس کی ہانڈی کی خوشبو سے یا کسی چیز کے بھننے کی خوشبو سے اس کے تنگ دست پڑوسیوں کو تکلیف ہو کہ ان میں بھی لذیذ کھانے کی خواہش پیدا ہو اور وہ اپنی مفلسی اور تنگ دستی کی بنا پر اس کے حصول پر قادر نہ ہوں، جب کہ بسا اوقات ان میں ناسمجھ بچے، مفلس ، یتیم، مسکین، بیوہ اور بے بس بوڑھے ہوتے ہیں۔ چنانچہ سچا مسلمان ہمیشہ اجتماعی تکافل وتعاون کی اس روح کو بیدار رکھتا ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے نفس میں جاگزیں کیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:’’اے ابو ذر !جب تم شور بے والی کوئی چیز پکائو تو اس میں شور با زیادہ کر دو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو‘‘۔(مسلم)
حضرت جابرؓ سے مروی ہے:’’اپنے پڑوسی کو اپنی ہانڈی کی خوشبو سے تکلیف نہ پہنچائو‘‘۔
سچے مسلمان کا وجدان یہ برداشت نہیں کرسکتا اور اس کی حس یہ گوارا نہیں کر سکتی کہ اس کا پڑوسی تو تنگی ، فاقہ اور تنگ دستی میں ہو اور وہ فراخی ، خوش حالی اور عیش وآرام سے زندگی گزارے ۔ آخر وہ اپنے اور اپنے پڑوسی کے درمیان اس دوری کو کیسے گوارا کر سکتا ہے، جب کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سنتا ہے:’’وہ شخص مجھ پر ایمان نہیں لایا جو آسودہ ہو کر سوئے اور اس کی بغل میں اس کا پڑوسی بھوکا ہو اور اسے معلوم بھی ہو‘‘۔(طبرانی، بزار)
انسانیت کی بدبختی کا سبب:آج انسانیت جس شقاوت اور بدبختی میں گھری ہوئی ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ سچا مسلمان زندگی کے میدان سے غائب ہے۔ اسلام کے عدل پر ور اصول ومبادی، خودساختہ اور پسماندہ اصولوں کے ڈھیر تلے چھپ گئے ہیں، جس سے انسانیت کو اس فضائی دور اور راکٹوں اور مصنوعی سیاروں کے عہد میں سوائے فقر وفاقہ، تنگ دستی وبدحالی، استحصال ، بھوک اور ننگے پن کے سوا کچھ نہ مل سکا، جب کہ انسان نے چاند پر بھی اپنی کمندیں ڈال دی ہیں۔
غور کرنے کا مقام ہے! کتنا زبردست فرق ہے اسلامی تہذیب میں (جس نے انسان کے لیے یہ تک پسند نہیں کیا کہ اس کی ہانڈی کی خوشبو سے اس کے پڑوسی میں لذیذ کھانے کی خواہش بھڑکے اور اسے تکلیف ہو) اور مغرب کی مادی تہذیب میں جس کی بدولت لاکھوں کروڑوں انسان بھوکوں مر رہے ہیں۔ مادی نظاموں کے پیچھے چل کر پریشان حال انسانیت کتنی بد بختی میں مبتلا ہو گئی ہے۔ مشرق و مغرب، ہر طرف انسانیت کس بے بسی کے عالم میں دم توڑ رہی ہے اور جاہلیت کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں بھٹک رہی ہے۔
ایسے میں مسلمان پر کتنی عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اُس نور کی مشعل کا حامل ہے جو نہ شر قی ہے نہ غربی ، کیونکہ اس سے جاہلیت کی تاریکیاں چھٹ سکتی ہیں اور صرف اسی کی روشنی سے دل و دماغ منور ہو سکتے ہیں اور انسانیت رشد وہدایت اور امن وسلامتی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔
پڑوسی کے ساتھ حتی الامکان نیک سلوک: دین حنیف کی تعلیمات کو سمجھنے والا مسلمان حتی الامکان اپنے پڑوسی کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی طرف سبقت کرتا ہے اور اپنے پڑوسی کو معمولی چیز ہدیہ کرنے کو بھی حقیر نہیں سمجھتا۔ جیسا کہ بعض ناسمجھ سمجھتے ہیں اور اسے حقیر سمجھ کر اپنے پڑوسی کو دینے سے گریز کرتے ہیں۔ چنانچہ خود بھی اجر سے محروم رہتے ہیں اور اپنے پڑوسی کو بھی خیر سے محروم رکھتے ہیں۔ اسی چیز کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر عورتوں کو متنبہ کیا ہے کیوںکہ بیشتر اوقات وہی اپنی پڑوسنوں کو کوئی معمولی ہدیہ دینے سے شرماتی ہیں۔ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:’’اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کو کوئی معمولی شے دینے میں حقارت نہ محسوس کرے خواہ بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو‘‘۔(متفق علیہ)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗ۷ۭ (الزلزال۹۹:۷) ’’پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جہنم کی آگ سے بچو، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے‘‘ ۔(بخاری)
مذکورہ بالا حدیث کا سیاق عام ہونے کی وجہ سے اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ معمولی چیز کو حقیر سمجھنے سے اس پڑوسن کو روکا جا رہا ہے، جس کو وہ چیز دی جائے۔ اس وقت اس حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ کوئی پڑوسن اس چیز کو حقیر نہ سمجھے جو اس کی پڑوسن نے اسے ہدیہ میں دی ہو خواہ وہ چیز قلیل اور معمولی ہی کیوں نہ ہو جیسے بکری کا کھر، بلکہ اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ اس کا شکریہ ادا کرے۔ کیوںکہ ہدیہ پر شکر یہ ادا کرنے سے پڑوسیوں کے درمیان اُلفت بڑھتی ہے، اور ان کی زندگی میں باہمی تعاون اور باہمی ہمدردی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہدیہ پر شکریہ ادا کرنا اسلامی اخلاق میں سے ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تاکید فرمائی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:’’جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا شکر بھی نہیں کرتا‘‘۔(الادب المفرد)
حُسنِ سلوک میں مسلم اور غیرمسلم کی تفریق نہیں: باشعور مسلمان حُسنِ سلوک کو صرف قریبی یا مسلمان پڑوسیوں تک محدود نہیں رکھتا بلکہ اس سے تجاوز کر کے وہ غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ بھی حُسنِ سلوک کا معاملہ کرتا ہے۔ اس لیے کہ اسلام کی سماحت وفیاضی ، ادیان اور فرقوں کے اختلاف سے بالا ہو کرتمام انسانوں کے لیے عام ہے اور ان سب تک وسیع ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر وؓ کے یہاں جب بکری ذبح ہوتی ہے تو وہ اپنے غلام سے پوچھتے ہیں:کیا ہمارے یہودی پڑوسی کو ہدیہ کر دیا ہے؟کیوںکہ میں نے رسولؐ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:’’جبریلؑ مجھے پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک کی برابر وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں گمان کرنے لگا کہ وہ اسے وراثت کا حق دار قرار دے دیںگے‘‘۔(احمد، ابوداؤد، ترمذی)
اسی لیے مسلمانوں کے پڑوس میں اہل کتاب امن وسکون اور اطمینان کے ساتھ زندگی گزارتے تھے۔انھیں اپنی جان ومال ،عزت وآبرو اور اعتقادات کے بارے میں کسی طرح کا خوف نہیں ہوتا تھا اور وہ حسن جوار،خوش معاملگی اور آزادیِ عقیدہ سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْہِمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۸ (الممتحنہ۶۰:۸) اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
قریب ترین پڑوسی کو مقدم رکھنا: اسلام نے پڑوسیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان ترتیب وتنظیم کا لحاظ رکھا ہے۔ چنانچہ اس نے پڑوسیوں کے درمیان اُلفت ومحبت اور اتحاد واتفاق برقرار رکھنے کے لیے دو قریبی اورملے ہوئے پڑوسیوں سے تعلق کی نوعیت کی رعایت کرتے ہوئے قریب ترین پڑوسی کو حُسنِ سلوک میں مقدم رکھنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! میرے دو پڑوسی ہیں، میں ان میں سے کس کو ہدیہ کروں؟ فرمایا: دونوں میں جس کا دروازہ قریب ہو‘‘۔(بخاری)
صحابہ کرامؓ نے پڑوسیوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں اس بلند نبویؐ ارشاد کو ذہن میں رکھا۔ چنانچہ وہ اپنے حُسنِ سلوک اور احسان واکرام میں دور کے پڑوسی کو قریب کے پڑوسی پر مقدم نہیں کرتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں:آدمی حُسنِ سلوک میں دور کے پڑوسی کو قریب کے پڑوسی پر مقدم نہ کرے بلکہ قریب کے پڑوس کو دُور کے پڑوسی پر مقدم رکھے (الادب المفرد)۔
پڑوسیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کا معاملہ کرنے میں اس ترتیب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو پڑوسی مسلمان کے گھر سے دُور رہتے ہیں ان سے گردن موڑ لے اور صرفِ نظر کر لے، کیونکہ جو بھی اس کے گھر کے حلقے میں رہتا ہے وہ پڑوس کے رشتے میں داخل ہے اور حقِ جوار رکھتا ہے ۔ قریبی پڑوسی کو مقدم کرنے کی ترتیب محض تنظیمی ترتیب ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریبی پڑوسی کی نفسیات کی رعایت کی ہے۔ کیونکہ ان کے درمیان عام طور پر روابط، معاملات اور مستقل تعلقات رہتے ہیں۔ ورنہ پڑوس کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ !میں بنی فلاح کے محلے میں رہنے لگا ہوں۔وہاں جس کا گھر میرے گھر سے سب سے زیادہ قریب ہے وہی مجھے سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر ، عمر اور علی رضی اللہ عنہم کو بھیجا۔ وہ لوگ مسجد نبویؐ آئے۔پھر اس کے دروازے پر کھڑے ہو کر زور سے اعلان کیا:
لوگو! جان لو کہ چالیس گھر تک پڑوس ہوتا ہے اور وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ اور مامون نہ ہو۔(طبرانی)
سچا مسلمان بہترین پڑوسی: پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک سچے مسلمان کی وجدان کی گہرائیوں میں پایا جانے والا ایک احساس ہے اور ایسا وصف ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں بھی فائق کرتا ہے اور لوگوں کے درمیان بھی امتیازی شان عطا کرتا ہے ، کیوںکہ سچا اور باشعور مسلمان جس نے اسلام کے شفاف سر چشمے سے سیرابی اور آسودگی حاصل کی ہو اور اس کی روشن تعلیمات اس کے دل میں جاگزیں ہو گئی ہوں، ساتھیوں میں بہترین ساتھی اور پڑوسیوں میں بہترین پڑوسی ہوتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مصداق ہوتا ہے:’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے ساتھی کے لیے بہتر ہو اور پڑوسیوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہو‘‘۔(ترمذی)
اسلام نے نیک پڑوسی کو مسلمان کے لیے سعادت قرار دیا ہے۔ اس کا پڑوس ، پڑوسی کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتا ہے اور سعادت وخوش بختی ، راحت، امن وسکون اور اطمینان کا باعث ہوتا ہے۔ نیک پڑوسی کی عزت وتکریم اور عظمت ورفعت کے لیے یہی کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسلمان کی زندگی میں سعادت کا ایک رکن قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’مسلمان کی خوش بختی اور سعادت ان چیزوں میں ہے کہ اس کے پاس وسیع مکان ہو، نیک پڑوسی ہو اور آرام دہ سواری ہو‘‘۔(احمد ، حاکم)
نیک پڑوسی کا اسلاف کے نزدیک اس قدر عظیم مقام تھا کہ اس کے جوار کو وہ عظیم نعمت سمجھتے تھے جس کی قیمت نہیں لگائی جا سکتی ، اور اسے ایسی دولت سمجھتے تھے جس کے برابر دنیا کا کوئی سازو سامان نہیں ہو سکتا۔ حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کے پڑوسی نے ایک لاکھ درہم میں اپنے گھر کا بھائو تائو کیا پھر خریدار سے کہا کہ یہ تو گھر کی قیمت ہے اور سعید کا پڑوس کتنے میں خریدو گے؟ جب حضرت سعید کو یہ معلوم ہوا تو انھوں نے اسے قیمت بھیج دی اور اسے وہیں باقی رکھا۔
یہ ہے اسلام میں پڑوسی کا مقام !اور یہ ہے نیک اور مسلمان پڑوسی کا روشن کردار! اب بداخلاق اوربدکردار پڑوسی سے متعلق احادیث بھی ملاحظہ کرتے چلیے۔
بُرا پڑوسی ایمان کی نعمت سے بے بہرہ: بُرا پڑوسی ایمان کی نعمت سے عاری اور محروم ہوتا ہے۔ ایمان مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے اور اس زندگی میں تمام فضائل کی اصل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’اللہ کی قسم ! وہ شخص مومن نہیں ، اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں ، اللہ کی قسم!وہ شخص مومن نہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کون؟ فرمایا: جس کا پڑوسی اس کے شرور (حدیث میں بوائق کا لفظ آیا ہے جس کے معنی ہیں دھوکے بازیاں اور شرارتیں) سے محفوظ نہ ہو‘‘۔(بخاری ، مسلم)
مسلم کی ایک روایت میں ہے:’’وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کا پڑوسی اس کے شر ور سے محفوظ نہ ہو‘‘۔
کتنا سنگین جرم ہے جس کا ارتکاب برا پڑوسی اپنے پڑوسی کے حق میں کرتا ہے۔ چنانچہ یہ جرم اسے ایمان کی نعمت سے عاری کر دیتا ہے اور دخولِ جنت سے محروم کر دیتا ہے۔
سچا، باشعور اور ہوشمند مسلمان ان نصوص کو کھلے دل اور بیدار ذہن کے ساتھ سنتا ہے۔ چنانچہ اس کے دل میں یہ خیال تک نہیں کھٹکتا کہ وہ کبھی اپنے کسی پڑوسی کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرے، بغُض وعداوت رکھے اور مکروفریب سے کام لے، کیونکہ ایسا کرنے سے ایمان ضائع ہو جاتا ہے اور آخرت میں ہلاکت مقدر ہو جاتی ہے۔ پھر کیا ایمان وآخرت کے خسارے سے بڑھ کر بھی کوئی خسارہ ہو سکتا ہے!یہ خیال آتے ہی متقی مسلمان کا دل لرزنے لگتا ہے۔
اعمال کا ضائع ہو جانا: پھر کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اس کے بعد نصوص میں صراحت ہو کہ بُرے پڑوسی کے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ اپنے پڑوسی کو اذیت وتکلیف پہنچانے کی صورت میں اس کی کوئی طاعت و بندگی اسے فائدہ نہیں پہنچاتی۔ اس کے نیک اعمال شرف قبولیت سے نہیں نوازے جاتے۔ کیوںکہ اسلام میں عمل صالح ہمیشہ ایمان کی بنیاد پر معتبر اور قابل قبول ہوتے ہیں اور گذشتہ حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ بُرے پڑوسی کا ایمان معتبر نہیں۔ چنانچہ خواہ وہ کتنے ہی اعمال کر ڈالے مگر وہ قابل قبول نہیں ہوں گے بلکہ اللہ تعالیٰ انھیں ضائع کر دے گا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں نے بتلایا کہ اے اللہ کے رسولؐ! فلاں عورت رات میں نمازیں پڑھتی ہے اور دن میں روزہ رکھتی ہے۔ نیک اعمال کرتی ہے اور خوب صدقہ کرتی ہے مگر اپنی زبان درازی سے اپنے پڑوسیوں کو اذیت پہنچاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس میں کوئی خیر نہیں، وہ اہل جہنم میں سے ہے‘‘۔
پھر لوگوں نے بتلایا کہ فلاں عورت صرف فرائض ادا کرتی ہے۔ پنیر(اس کے لیے حدیث میں اتوار کا لفظ آیا ہے) صدقہ کرتی ہے لیکن کسی کو اذیت نہیں پہنچاتی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’وہ جنتیوں میں سے ہے‘‘۔ اسے امام بخاری نے الادب المفرد میں روایت کیا ہے۔
بُرے پڑوسی کے بارے میں وعید سناتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین آدمیوں کے اعمال ضائع ہیں۔ ایک وہ امام جس کے ساتھ احسان کا برتائو کرو تو شکریہ نہیں ادا کرتا اور کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو معاف نہیں کرتا۔ دوسرا وہ پڑوسی جو اپنے پڑوسی میں کوئی خیر دیکھے تو خاموش رہے اور کوئی بُرائی دیکھے تو اس کا لوگوں میں چرچا کرے۔اور وہ بیوی جو شوہر کی موجودگی میں اسے تکلیف پہنچائے اور اس کی عدم موجودگی میں خیانت کرے۔(طبرانی)
اس طرح متقی اور باشعور مسلمان کے خیال میں بُرے پڑوسی کی گھنائو نی تصویر نقش ہو جاتی ہے۔ چنانچہ وہ اس سے دُور رہتا ہے۔
پڑوسی کے ساتھ گناہ سے بچنا:سچا مسلمان خاص طور پر اپنے پڑوسی کے ساتھ کسی گناہ یا خطا کا ارتکاب کرنے سے بچتا ہے۔ کیونکہ پڑوسی کے ساتھ کسی گناہ میں ملوث ہونا، دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بھیانک اور سنگین جرم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ آپؐ نے صحابہؓ سے زنا کے بارے میں سوال کیا۔صحابہؓ نے عرض کیا: حرام ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:’’پڑوسی کی بیوی سے زنا دس عورتوں کے ساتھ زنا کے برابر ہے۔پھر آپؐ نے ان سے چوری کے بارے میں دریافت فرمایا:انھوں نے عرض کیا حرام ہے۔ اللہ عزوجل اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے۔ فرمایا:’’آدمی دس گھروں سے چوری کرے، یہ آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ اپنے پڑوسی کے گھر سے چوری کرے‘‘۔(مسند احمد)
اسلام میں پڑوسی کی عزت وآبرو محفوظ ہوتی ہے، جب کہ دیگر قوانین اخلاق اور انسانی شریعتوں میں اس کا کوئی تصور ہی نہیں، بلکہ وہ خود ساختہ قوانین وشرائع سے پڑوسی کی عزت وآبرو سے کھیل کرنے کو آراستہ اور خوش نما بنا کر پیش کرتے ہیں کیوںکہ عموماً پڑوسی کی آبرو وعزت سے کھیلنا آسان اور سہل الحصول ہوتا ہے۔ اس میں زیادہ دِقّت اور دشواری نہیں ہوتی اور دوسروں کی آبرو سے کھیلنے کے مقابلے میں اس کے مواقع زیادہ ملتے ہیں۔ اس کا تصور جاہلیت کے زمانے میں بھی نہیں تھا، چہ جائیکہ اسلام میں۔ جاہلیت کا ایک عظیم اور غیرت مند شاعر کہتا ہے:
وَاَغُضُّ طَرفٰی مَا بَدَتْ لِیْ جَارَتِیْ
حَتّٰی یُوَارِیَ جَارِتِیْ مَا وَاھَا
( دیوان عنترہ)
[جب مجھے میرے پڑوسی کی بیوی دکھائی دیتی ہے تو میں اپنی نگاہیں جھکا لیتا ہوںاور اس وقت تک جھکائے رکھتا ہوں جب تک وہ اپنے گھر میں نہ پہنچ جائے۔]
اسلام نے اس پاکیزہ انسانی خصلت کو ہم میں پروان چڑھایا ہے۔ اس نے پڑوسی کا خیال رکھنے ، اس کی آبرو کی حفاظت کرنے، اس کے شرف کو محفوظ رکھنے، اس کے عیوب کو چھپانے ، اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے، اس کے محارم سے نگاہیں نیچی رکھنے اور اسے شک میں مبتلا کرنے والی اور ناگوار چیزوں سے دُور رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس لیے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ برحق اور سچا مسلمان انسانی معاشروں میں بہترین پڑوسی کی حیثیت سے زندگی گزارتا ہے۔ بیدار ذہن اور روشن بصیرت رکھنے والے ذکی الحس اور پڑوسیوں کے بارے میں دین کے اخلاق اوراس کی بلند معاشرتی تعلیمات وارشادات کو یاد رکھنے والے مسلمان اور اس کے پڑوسیوں کے درمیان اگر کبھی لڑائی جھگڑے کی نوبت آ جاتی ہے تو وہ اس کا ہزار بار حساب لگاتا ہے۔ کیوں کہ پڑوسیوں کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہ برابر اس کے کانوں میں گونجتی رہتی ہے:’’قیامت کے روز سب سے پہلے جو دو جھگڑا کرنے والے پیش کیے جائیں گے، وہ دونوں پڑوسی ہوں گے‘‘۔(احمد، طبرانی)
خیر کا معاملہ کرنے میں کوتاہی نہ کرنا: راسخ الایمان مسلمان اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان اور خیر کا معاملہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا۔ وہ اس کے لیے حفاظت ورعایت، محبت ومودت اور عزّت افزائی کے دروازے کھلے رکھتا ہے۔ وہ اپنی ذمہ داریاں سرانجام دینے میں کوتاہی نہیں کرتا اور ڈرتا ہے کہ کہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان اس پر صادق نہ آ جائے جو آپؐ نے ناشکرے ، بخیل اور خیرو احسان کا معاملہ نہ کرنے والے پڑوسی کے بارے میں فرمایا ہے۔
قیامت میں بہت سے پڑوسی ایسے ہوں گے جو اپنے پڑوسی کو پکڑیں گے اور کہیں گے: اے رب!اس نے میرے لیے دروازہ بند رکھا اور خیرواحسان کا معاملہ کرنے سے باز رہا (الادب المفرد)۔ غور کیجیے کہ قیامت میں بخیل اور احسان نہ کرنے والے پڑوسی کا کیسی شرمندگی کا مقام ہوگا۔
اسلام کی نظر میں مسلمان ایک بلند وبالا، پرشکوہ اور مضبوط عمارت کی طرح ہیں۔ اس امت کے افراد اس کی اینٹیں ہیں۔ ضروری ہے کہ اس کی ہر اینٹ مضبوط اور پیوستہ ہو اور دوسری اینٹوں سے مضبوطی کے ساتھ جڑی ہوئی ہو تا کہ عمارت مستحکم ، راسخ اور مضبوط ہو، ورنہ عمارت میں دراڑیں پڑ جائیں گی۔ وہ کمزور ہو جائے گی اور جلد ہی منہدم ہو جائے گی۔
اسلام نے اپنی اینٹوں کو مضبوط اور مستحکم تعلق سے پیوستہ رکھا ہے جس سے اینٹوں میں استحکام، مضبوطی اور پائیداری باقی رہتی ہے اور مسلمانوں کی عمارت انتہائی مستحکم اور مضبوط رہتی ہے، نہ وقتاً فوقتاًپیش آنے والے واقعات اسے متزلزل کر سکتے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں مسلمانوںکے باہم اتحاد واتفاق، تعاون اور مواخات کی کتنی دل کش اور حسین تمثیل ہے:’’ایک مومن دوسرے مومن کے لیے مضبوط عمارت کی طرح ہے کہ بعض کو بعض سے مضبوطی اور استحکام حاصل ہوتا ہے‘‘۔ (بخاری)
دوسری جگہ ارشاد ہے:’’باہمی محبت ومودت ، لطف وکرم اور رحم وہمدردی میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ جب اس کے کسی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا بدن بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے اور نیند اُچاٹ ہو جاتی ہے‘‘۔ (بخاری)
جو دین امت کے افراد کو اس حیرت انگیز حد تک باہم دگر متحد اور ایک دوسرے سے پیوستہ رکھتا ہے، اس کے لیے بدیہی ہے کہ وہ پڑوسیوں کے مابین بھی تعلقات کو مستحکم رکھے اور انھیں مودت ومحبت ، بِرّواحسان ، تکافل وتعاون اور خوش معاملگی کی مضبوط اور راسخ بنیادوں پر قائم کرے۔
لغزشوں اور اذیتوں پر صبر کرنا:ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے دین کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرنے والا مسلمان اپنے پڑوسی کی نازیبا حرکتوں اور تکلیفوں پر صبر سے کام لیتا ہے۔ اگر اس سے کوئی کمزوری سر زد ہو تی ہے تو بھڑک نہیں اٹھتا ۔ اسی طرح اگر اس سے کوئی لغزش ہو جاتی ہے یا وہ کسی تقصیر میںمبتلا ہو جاتا ہے تو اس پر اس کی گرفت نہیں کرتا بلکہ عفوودرگزر سے کام لیتا ہے اور معاف کر دیتا ہے۔ اس طرح وہ اللہ کی بار گاہ میں ثواب کی امید رکھتا ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کا عفو اور معافی اللہ کے یہاں ضائع نہیں ہوں گے بلکہ ان کے ذریعے اللہ کی محبت اور خوشنودی حاصل ہو گی۔
اس کی تصدیق حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث سے ہوتی ہے کہ جب ان سے حضرت مطرف بن عبداللہ کی ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا: اے ابوذرؓ!مجھے آپ کی یہ حدیث معلوم ہوئی تھی اور میں آپ سے ملنا چاہتا تھا۔ فرمایا: لوملاقات تو ہو گئی ۔ انھوں نے عرض کیا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ سے یہ فرمایا ہے کہ اللہ تین لوگوں سے محبت کرتا ہے اور تین لوگوں سے نفرت کرتا ہے۔ حضرت ابو ذرؓ نے فرمایا: میں نہیں سمجھتا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھ رہا ہوں۔حضرت مطرف فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: وہ تین لوگ کون ہیں جن سے اللہ عزوجل محبت کرتا ہے؟ فرمایا: ایک وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں صبر کرتے ہوئے اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے جہاد کرے اور لڑتے لڑتے شہید ہو جائے۔ یہ چیز تو کتاب اللہ سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ (پھر یہ آیت تلاوت فرمائی): اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِہٖ صَفًّا كَاَنَّہُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ۴ (الصف۶۱:۴)’’اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔ میں نے عرض کیا اور کون؟ فرمایا: دوسرا وہ شخص جس کا پڑوسی بداخلاق ہو اور اسے اذیتیں پہنچاتا رہتا ہو مگر وہ اس کی اذیتوں پر صبر کرے۔یہاں تک کہ اسے موت آ جائے….الخ( احمد ، طبرانی )
بُرائی کا جواب بُرائی سے نہ دینا:اس دین کی تعلیمات میں یہ بھی ہے کہ کوئی شخص پڑوسی کی برائی کا جواب برائی سے نہ دے، بلکہ اس کی اذیتوں پر جس حد تک صبر کر سکتا ہو کرے، یہاں تک کہ وہ اس سے باز آجائے اور تکلیفیں پہنچانا بند کردے۔ وہ جب اپنے پڑوسی کو دیکھے تو اس کی بُرائی کا جواب اس کے مثل برائی سے نہ دے، بلکہ صبر کرے، حلم وبردباری سے کام لے اور خوش معاملگی سے پیش آئے ، اور خدا کی قسم! یہ بلند ترین اخلاق اور پاکیزہ سیرت ہے اور نفوس سے برائی کی بیخ کنی کرنے کے لیے تربیت کا بہترین نفسیاتی اسلوب ہے۔
حضرت محمد بن عبداللہ بن سلامؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:مجھے میرے پڑوسی نے تکلیف پہنچائی ہے۔ فرمایا:صبر کرو۔وہ دوبارہ حاضر ہوئے اور عرض کیا: مجھے میرے پڑوسی نے تکلیف پہنچائی ہے تو آپؐ نے فرمایا:اپنا سامان لے جاکر راستے میں ڈال دو اور جب کوئی شخص وہاں سے گزرے تو اس سے کہو کہ میرے پڑوسی نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے۔ اس طرح تمھارے پڑوسی پر لوگوںکی لعنت پڑے گی۔ جو شخص بھی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کا اکرام کرے۔(حیاۃ الصحابہ، ج ۴،ص۵۰)
پڑوسی کے حقوق پہچاننا:سچا مسلمان ہر لمحے اپنے پڑوسی کے حقوق پہچانتا ہے ، مصائب ومشکلات میں اس کی مدد کرتا ہے، اس کی خوش حالی میں خوشی ومسرت کا اظہار کرتا ہے ۔ اس کے رنج وغم اور خوشی وسرور میں شریک ہوتا ہے۔ اگر اس کا پڑوسی ضرورت مند اور محتاج ہوتا ہے تو اس کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتا ہے اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ۔ اگر اسے کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تو اس کی عیادت کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا اظہار کرتا ہے اور بوقت ِضرورت اس کے کام آتا ہے ۔ اگر اس کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کے جنازے میںشریک ہوتا ہے۔ اس کے گھر والوں کو دلاسہ دیتا ہے اور اپنے خاندان کے احساسات کا لحاظ رکھتا ہے اور ان چیزوں سے احتراز کرتا ہے جن سے یہ احساس مجروح ہو یا کسی بھی حیثیت سے اسے ٹھیس لگے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ سے مروی ہے کہ کسی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا:مجھ پر میرے پڑوسی کے کیا حقوق ہیں؟ فرمایا:
اگر بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو
اگر اس کا انتقال ہو جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو۔
جب تم سے قرض مانگے تو اسے قرض دو اور جب کسی چیز کا ضرورت مند ہو تو اس کی ضرورت پوری کرو۔
جب اسے کوئی خیر حاصل ہو تو اسے تہنیت پیش کرو۔
جب اس پر کوئی مصیبت نازل ہو تو اس کی تعزیت کرو،
بغیر اس کی اجازت کے اپنی عمارت کو اُونچی نہ کرو کہ اس کی ہوا رُک جائے۔ lاپنی ہانڈی کی خوشبو سے اسے تکلیف نہ پہنچائو اِلا یہ کہ اس میں سے اسے بھی کچھ دے دو۔
اگر کبھی پھل خریدو تو اسے بھی ہدیہ کرو۔ اگر ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو گھر میں خاموشی سے لے جائو اور احتیاط کرو کہ تمھارا بچہ اسے لے کر باہر نہ نکلے کہ اس کے بچے بھی اس کی ضد کرنے لگیں۔(طبرانی )
یہ ہے پڑوسی کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر!اور یہ ہیں اس کے بارے میں اسلام کی روشن اور عظیم تعلیمات !جن پر عمل کرنے کا اسلام ہر اس مسلمان سے مطالبہ کرتا ہے جو اسلام کی حقیقت کو سمجھتا ہو، اس سے پوری رہنمائی حاصل کرتا ہو، اور اس کے احکام وتعلیمات کو اپنے اُوپر اور اپنے خاندان پر منطبق کرنا چاہتا ہو۔
پھر کیا اس کے بعد بھی اس میں تعجب ہو سکتا ہے کہ بہترین مسلمان سچاپڑوسی ہو۔ ایسا پڑوسی جس کا کردار انسانی معاشروں میں سے سے افضل ، سب سے اعلیٰ اور سب سے نمایاں ہو!