پاکستان میں دماغی امراض کی نمائندہ تنظیم ’پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی ‘ (PSN) ملک بھر میں طب کے شعبے سے وابستہ افراد کے ساتھ ساتھ عوام الناس کے لیے بھی آگاہی پر مبنی سرگرمیوں کا انعقاد کرتی ہے۔ ان سرگرمیوں میں پریس کانفرنسیں، سوشل میڈیا آگاہی پیغامات، ڈاکٹرز کے لیے ورکشاپس کا انعقاد شامل ہے۔ اس ضمن میں نیورولوجی اویئرنس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن (NARF) گزشتہ 17 سالوں سے دستیاب وسائل میں ہمہ جہتی آگاہی کی سرگرمیوں کو منظم کررہی ہے۔
(ڈاکٹر عبدالمالک نیورولوجی کے پروفیسر ہیں اور لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسٹری کراچی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، نیز پاکستان اسٹروک سوسائٹی کے اس وقت مرکزی صدر ہیں۔)
ہر سال ستمبر کے مہینے میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’عالمی یوم یادداشت‘ منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کا بنیادی مقصد الزائمر (ڈیمینشیا) کے مرض کے ساتھ وابستہ مسائل، عوامل و بچاؤ کے حوالے سے آگاہی اجاگر کرنا ہے۔
امسال ’عالمی یومِ یادداشت‘ کا مرکزی خیال ’’یادداشت کے مرض ڈیمینشیا کے حوالے سے بچاؤ عوامل پر عمل کرنے کا وقت، الزائمر پر عمل کرنے کا وقت‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
یہ عالمی سطح پر منائی جانے والی ’’بیداری کی مہم‘‘ دراصل الزائمر کے مرض کے حوالے سے امتیازی سلوک کے ازالے اور مرض کے لیے رویوں میں تبدیلی کے گرد گھومتی ہے۔
یہ مہم ’’ڈیمینشیا‘‘ سے ’’دوستانہ معاشرہ‘‘ تیار کرنے کے لیے کیے جانے والے مثبت اقدامات کی حمایت کے ساتھ ساتھ ان پر عملی تبدیلی کا تقاضا کرتی ہے۔
الزائمر انٹرنیشنل کی جاری کردہ بین الاقوامی الزائمر رپورٹ کے مطابق ڈیمینشیا مریضوں سے متعلق رویوں کے حوالے سے شعبہ طب سے وابستہ 62 فیصد افراد اس مرض کو ڈھلتی عمر یعنی بڑھاپے کا حصہ سمجھتے ہیں، 35 فیصد افراد دیکھ بھال کرنے والوں (جن کی اکثریت اہل خانہ پر ہی مشتمل ہوا کرتی ہے) کو ڈیمینشیا کی تشخیص کا بتانا ہی نہیں چاہتے، اسے چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ اس رپورٹ کے عالمی اعداد و شمار اپنی جگہ، مگر پاکستان کے تناظر میں اس مرض کے مریضوں کی حقیقی معنوں میں تعداد معلوم ہی نہیں، دوسرا یہ کہ ہمارے خاندانی نظام میں ایسے مریض معالج سے رجوع ہی نہیں کرتے اور فقط ڈھلتی عمر کے تناظر کا شکار ہوجاتے ہیں۔
عالمی یوم یادداشت دراصل ڈیمینشیا یعنی بھولنے کی بیماری کے عوامل، وجوہات اور اس کے ہونے کے خطرات کے ساتھ ساتھ بچاؤ کے اقدامات پر بھی توجہ مرکوز کرتا ہے تاکہ اس بیماری کے وقوع پذیر ہونے اور اس کی دیگر اقسام کے ہونے میں تاخیر یا ممکنہ طور پر روکنے کے لیے مناسب وقت پر کردار ادا کیا جاسکے۔
عالمی ادارہ صحت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 65 ملین انسانوں کو ڈیمینشیا کا مرض لاحق ہے۔ ان مریضوں میں سے 60 فیصد کا تعلق کم یا درمیانے درجے کی آمدن رکھنے والے ممالک سے ہے۔ ہر سال کم و بیش اس تعداد میں ایک کروڑ نئے مریضوں کا اضافہ ہورہا ہے۔
جس تناسب سے ڈیمینشیا یعنی بھولنے کی بیماری بڑھ رہی ہے، اندازہ ہے کہ 2050ء میں یہ تعداد 139ملین سے تجاوز کرسکتی ہے۔
پاکستان میں اس مرض کے اعداد و شمار پر بات کریں تو تشخیص شدہ مریضوں کی محتاط ترین تعداد10 لاکھ سے زائد ہے، جبکہ پاکستان میں 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کی تعداد (عالمی ادارہ صحت کے مطابق) 4.84 فیصد کے قریب ہے۔
دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستانی معاشرے کے خاندانی نظام کے تناظر میں بالخصوص بھولنے کی بیماری کی تشخیص بروقت نہیں ہو پاتی، جس کی بناء پر بروقت علاج کی ابتدا میں تاخیر ہوتی ہے، نتیجتاً مریض اور اہلِ خانہ کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
الزائمر، جو ڈیمینشیا (بھولنے کی بیماری) ہی کی سب سے عام قسم ہے، ایسا دماغی عارضہ ہے جس میں دماغ کے یادداشت کے نظام کے خلیے بتدریج ختم ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ نتیجتاً دماغ کا وہ حصہ جو یادداشت کے نظام کا ذمہ دار ہوتا ہے، متاثر ہونا شروع ہوجاتا ہے، جس کے باعث اس انسان کی شخصیت، رویّے، مزاج اور بحیثیتِ مجموعی حافظے کا مکمل نظام متاثر ہوجاتا ہے۔
ڈیمینشیا ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں مگر یہ فقط بڑھتی عمر کی وجہ سے نہیں ہوا کرتا۔
قرآن میں بھی اس کیفیت جسے عرف عام میں نسیان کا مرض اور طب کی دنیا میں ڈیمینشیا کہتے ہیں، کی طرف اشارہ موجود ہے۔
مردوں کے مقابلے میں خواتین میں ڈیمینشیا کی بیماری پیدا ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ خواتین کی اوسط عمر مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے جس کی وجوہات واضح نہیں ہیں۔ مجموعی طور پر الزائمر کے مرض میں مبتلا ہونے کی حتمی وجہ تاحال تحقیق کے مراحل ہی سے گزر رہی ہے۔ تاہم اب تک کی دستیاب معلومات کے مطابق مختلف جین جس میں APOE جین سب نمایاں ہے، کے علاوہ وٹامن بی 12کی کمی، ذیابیطس، بلند فشارِ خون، فالج، نیند کی مسلسل کمی، مٹاپا، نیند آور، بے چینی و سردرد کی ادویہ کا بے دریغ استعمال اور صحت مند دماغی و جسمانی سرگرمیوں کا فقدان جیسی وجوہات بھی بھولنے کی بیماری کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تساہل پسندی، دیر سے سونا و جاگنا، تمباکو نوشی اور غیر متوازن غذا کا استعمال بھی حافظے کی کمزوری کا سبب بن سکتا ہے۔
واضح رہے کہ جو افراد مستقل بنیادوں پر ذہنی و جسمانی معمولات کو اپناکر رکھتے ہیں، ان کے بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات کم ترین ہوجاتے ہیں۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ گزشتہ سالوں کی مختلف تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ فضائی آلودگی بھی ڈیمینشیا کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔ نیز سر/ دماغی چوٹ کے نتیجے میں یادداشت کا مسئلہ لاحق ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ہمارے پالیسی ساز اداروں کو ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔
معاشرے میں اس ضمن میں بڑے پیمانے پر آگاہی و شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی ساتھ حکومتی اداروں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے متوجہ کرنا بھی ازحد ضروری ہے تاکہ حادثات کے نتیجے میں سرکی چوٹوں کو کم سے کم کیا جا سکے۔
ڈیمینشیا(الزائمر) کے مرض کی تشخیص کیسے ہوتی ہے؟
ڈیمینشیا کی علامات کو جاننے اور اس کے مطابق علاج و تشخیص کے لیے کوئی ایک ٹیسٹ نہیں ہے، تاہم ماہر امراضِِ دماغ و اعصاب (نیورولوجسٹ) بطور معالج معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے، جو مکمل معائنے کے بعد متعلقہ دماغی و خون کے ٹیسٹ کرنے پر اس بیماری کی تشخیص کرتا ہے۔
ڈیمینشیا (الزائمر ) کی ابتدائی علامات میں یادداشت میں کمی، روزمرہ کے کاموں کو ادا کرنے میں مشکلات، وقت اور جگہ کا یاد نہ رہنا، قوتِ فیصلہ میں کمی، بات کرنے میں دشواری، روزمرہ کاموں میں عدم توجہ اور دلچسپی کا فقدان، چیزوں کو رکھ کر بھول جانا، رویّے میں تبدیلی، باریک بینی میں مشکلات کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر شخصیت کا تبدیل ہوجانا شامل ہیں۔
الزائمر کی علامات
1- موجودہ یادداشت میں کمی: عام طور پر متاثرہ انسان تھوڑی ہی دیر پہلے کی باتوں کو یاد نہیں رکھ پاتا۔
2-روزہ مرہ کاموں میں مشکلات:
مریضوں کو روزمرہ معمولاتِ زندگی سرانجام دینے میں مشکلات پیش آتی ہیں، یہ وہ عمومی امور ہوتے ہیں جنہیں متعلقہ انسان پوری زندگی آسانی اور احسن طریقے سے سرانجام دیتا رہا تھا۔
3-بات کرنے میں دشواری:
یادداشت کی بیماری میں نہ صرف آسان الفاظ بلکہ روزمرہ استعمال ہونے والے الفاظ کی ادائیگی تک دشوار ہوجایا کرتی ہے۔
4-وقت اور جگہ کا یاد نہ رہنا: یادداشت کی کمی میں مبتلا ہونے والے انسان کو اپنی روزانہ کی آمد و رفت کے راستوں کی پہچان میں دشواری ہوتی ہے، یہاں تک کہ وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ وہ کہاں، کس جگہ اور کس وقت پرموجود ہے۔
5-قوتِ فیصلہ میں کمی: یادداشت میں کمی کے مریضوں کی قوتِ فیصلہ میں شدید کمی واقع ہوجاتی ہے، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت بالکل ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اکثر لین دین کے معاملات میں غلطیاں کرتے ہیں۔
6-باریک بینی یا پیچیدہ سوچ کا فقدان: یادداشت کے مرض میں مبتلا انسان میں سوچنے، سمجھنے کے معاملات کی باریک بینی کے حوالے سے کمی واقع ہوجاتی ہے۔
یادداشت میں کمی(ڈیمینشیا) ہونے کے عوامل:
سائنسی جریدے LANCET کے مطابق درج ذیل ایسے عوامل ہیں جن کے مؤثر کنٹرول، اپنانے/ بچانے و تبدیل کرنے سے ڈیمینشیا کی علامات کو روکا جاسکتا ہے:
1- جسمانی غیر فعالیت ،2- سر/ دماغی چوٹ ،3- تمباکو و شراب نوشی ، 4- نشہ آور اشیاء کا استعمال ,5- بلڈ پریشر کا مسلسل بڑھے رہنا،6- ذیابیطس کا مسلسل قابو میں نہ رہنا، 7- مٹاپا ، 8- سماجی تنہائی ،9- یاسیت و مایوسی، 10- فضائی آلودگی ,11- سماعت میں کمزوری ،12- ناخواندگی۔
ڈیمینشیا کے آغاز اور اس میں مبتلا انسان کے معمولاتِ زندگی، مزاج اور رویّے میں ابتدا میں معمولی اثرات مرتب ہوتے ہیں، اگر ان پر بروقت توجہ نہ دی جائے تو ان اثرات میں نہ صرف اضافہ ہوجاتا ہے بلکہ یہ بالآخر الزائمر کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔
اس لیے ڈیمینشیا کی ابتدائی علامات ہونے کی صورت میں ماہر امراضِ دماغ یعنی نیورولوجسٹ سے فوری رجوع کرنا نہایت ضروری و مفید ہے۔
ڈیمینشیا سے مکمل چھٹکارا ناممکن ہے مگر بروقت تشخیص و علاج اس مرض کی پیچیدگیوں اور مرض کو تیزی سے بڑھنے سے روکنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اس مرض کی تشخیص کے لیے ضروری لیبارٹری ٹیسٹ اور دماغ کا بڑا ایکسرے (ایم آر آئی) اور مریض و اہل خانہ سے مکمل معلومات و طبی (نیورولوجی) معائنہ درست تشخیص کے لیے ضروری ہے۔ مرض کی تشخیص کے بعد ادویہ کا استعمال بالعموم روزمرہ معمولات میں آسانی کا باعث بن جاتا ہے۔ تاہم ایسے تمام مریض اپنے معالج کی ہدایات کے عین مطابق ادویہ کا استعمال کریں۔
تمام تشخیص شدہ مریضوں میں جہاں ادویہ کا استعمال اہم ہے، وہیں سماجی سرگرمیاں بھی مریضوں کے لیے نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ حافظے کی بیماری مریض میں یاسیت، مایوسی اور اضطراب کے مسائل نہ صرف پیدا کرتی ہے بلکہ ان کے بڑھنے کا بھی سبب بن جاتی ہے، لہٰذا نفسیاتی و ذہنی مسائل کو بروقت تشخیص، ادویہ کے استعمال اور طرزِ زندگی میں تبدیلی سے روکا جاسکتا ہے۔
حافظے کی بیماری میں مبتلا مریضوں کے لیے جہاں علاج اور طرزِ زندگی کی تبدیلی ایک اہم جز ہے، وہیں ان مریضوں کے اہلِ خانہ بالخصوص وہ افراد جو باقاعدہ مریض کی تیمارداری و نگہداشت پرمامور ہیں، اُن کے لیے حکمت، صبر و تدبرکے ساتھ تمام معاملات کو لے کر چلنا مریض کی بہتری کے لیے ناگزیر ہے۔
ڈیمینشیا کے مریض مرض کی علامات بڑھنے کی صورت میں ایسی ایسی حرکتیں کردیتے ہیں جن کو اہلِ خانہ نہ صرف حیرانی کی نظر سے دیکھتے ہیں بلکہ ناقابلِ یقین صورتِ حال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا ایسے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے اہلِ خانہ کا خصوصی کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ان مریضوں کو ادویہ کے ساتھ ساتھ تازہ آب و ہوا اور ماحول کی تبدیلی سے لطف اندوز ہونے کے مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔
مرض سے محفوظ رہنے کے لیے متوازن غذا بالخصوص موسم کی سبزیوں اور پھلوں کا استعمال، جسمانی ورزش و چہل قدمی، ہر قسم کی تمباکو نوشی و نشے سے مکمل دور رہنے کے ساتھ ساتھ سماجی تعلقات، دماغی نشوونما کے لیے مطالعہ بہت خوش گوار اثرات ڈالتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسی مثبت سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا نہایت مفید ہے جس سے ذہن متحرک رہے۔
ڈیمینشیا ایک طویل مدتی بیماری ہے۔ اس مرض میں مبتلا مریضوں کی نگہداشت جہاں اہلِ خانہ و عزیز رشتہ داروں کی ذمہ داری ہے، وہیں معاشرے کے اہلِ خیر افراد، نجی تنظیموں اور حکومتی اداروں کو اس ضمن میں اپنا کردار عملی طور پر ادا کرنا ضروری ہے۔ ان مریضوں کی بہتر نگہداشت، نیز اس مرض کے متعلق معاشرے میں آگاہی بنیادی کلید ہے، تاکہ ہم اپنے بزرگوں کی بہتر خدمت کے ساتھ ساتھ ان کے بڑھاپے میں معیارِ زندگی بہتر بنانے میں بحیثیت معاشرہ درست کردار ادا کریں، یہی صحت مند معاشرے کے قیام کا تقاضا اور ہمارے دین اسلام کا حکم ہے۔