آخر شب کے ہم سفر

90

پادری نے بے یقینی سے اقرار میں سر ہلایا۔ نواب نے نیچے اُتر کر بیوک کا دروازہ کھولا۔ پادری اور ڈاکٹر پیچھے بیٹھ گئے۔ ڈرائیور لپک کر آیا۔ موٹر میں بیٹھ کر اسے اسٹارٹ کیا۔ موٹر آگے بڑھ گئی۔

رات کو ارجمند منزل میں نواب کی پہلوٹھی کے پوتے منور الزماں کے عقیقے کے سلسلے میں بڑا بھاری ڈنر تھا۔ آٹھ بجے مہمان آنے شروع ہوجائیں گے۔

…بابر بہ عیش کوش…؟
نواب برساتی سے نکل کر پائیں باغ کی سمت چلے گئے۔
ہم تینوں۔ میں، سرکار اور بنرجی۔ ہم تین بنگالی، تین مختلف راستوں پر کھڑے ہیں۔ میں اور بنرجی دو ایسے کھمبے ہیں جن کو گُھن لگ چکا ہے۔ مگر پال میتھیو بنرجی بے چارہ یہ بات سمجھ نہیں سکتا، اور سمجھ کر بھی کیا کرلے گا۔

پچھلے لان پر پہنچ کر ان کو بارلو کی میم کا خیال آیا۔ پادری نے بتایا تھا کہ سنائونی سن کر بارلو نے بڑی بہادری اور ضبط سے کام لیا۔ خالص اسٹِف اپر لپ۔ بھئی اگر ایسی ہمتیں نہ ہوتیں تو ساری دنیا پر حکومت کیسے کرتے۔ نواب لان پر ٹہلنے لگے۔ کل سارے عمائدین شہر تعزیت کے لیے جائیں گے۔ مجھے بھی جانا ہوگا۔ وائلٹ بارلو بنگال کی یوروپین سوسائٹی میں کافی دل پھینک مشہور تھی۔ خاصی آوارہ۔ مچھلی کی طرح پیتی تھی۔ بے حد حسین۔ مرگئی غریب۔ بارلو اس کی وجہ سے بہت دکھی رہتا تھا۔ اب روزی کے لیے کیا کیا جائے… کچھ نہیں ہوسکتا… روزی کی ماں پندرہ سالہ گری بالا اسی تالاب کے کنارے بیٹھ کر برتن مانجھا کرتی تھی۔ اور میں اس درخت کے پیچھے چھپ چھپ کر اسے طرح طرح سے چھیڑنے کی کوشش کرتا تھا۔ وقت کس طرح گزرتا ہے، کس طرح بدلتا ہے، اللہ غنی۔

’’نواب صاحب…‘‘ ایک کلرک نما نوجوان باغ کی سڑک پر پہنچ کر سائیکل سے اُترا، اور ان کے نزدیک آکر سلام کیا۔ ’’کل شام آفس میں یہ فون آیا تھا۔ یہ پیغام ہے‘‘۔ اس نے جیب سے ایک کاغذ نکال کر پیش کیا۔ ’’میں نے آپ سے ملاقات کا وقت آج ساڑھے پانچ کا دے دیا ہے کیونکہ آپ کو اسی وقت…‘‘

’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے…‘‘ نواب کا رنگ پرچہ پر لکھا نام پڑھ کر پیلا پڑ چکا تھا۔
’’تم جائو۔ اندر جائو۔ متعلقہ کاغذات میز پر لگادو…‘‘ انہوں نے خالی خالی آواز میں کہا۔
’’بہت اچھا‘‘۔ نوجوان سائیکل سنبھال کر کتب خانہ کی طرف بڑھ گیا۔

نواب چند لمحوں تک گھاس پر ٹھٹھکے کھڑے رہے۔ پھر نظریں اُٹھا کر اُوپر کی منزل کو دیکھا، جہاں آراء کے کمرے کی نیلے شیشوں والی کھڑکی ہوا کے جھونکے نے کھٹ سے بند کردی۔ وہ اس کھڑکی کو چند لحظوں تک مبہوت تکتے رہے۔ پھر اپنی رسٹ واچ پر نظر ڈالی۔ اور سر جھکائے آہستہ آہستہ کتب خانے کی سمت روانہ ہوگئے۔
(26)
ریحان الدین احمد
اس صبح جس وقت چارلس بارلو چھوٹا حاضری کے بعد اپنی اسٹڈی میں جا کر ’’نغماتِ ہند‘‘ کے مطالعے میں مصروف تھا۔ ڈی ایمز ہائوس سے کچھ فاصلے پر ووڈ لینڈز میں کریم خاں نے بریکفاسٹ پر مکھن لگاتے لگاتے اخبار کی سرخیوں پر نظر ڈالی۔ ورق اُلٹے۔ اندر کے صفحے پر ایک سرخی نے ان کو متوجہ کیا، انہوں نے گھبرا کر آواز دی۔ ’’ریحان… جلدی آئو‘‘۔

بریکفاسٹ کی میز ووڈ لینڈز کے پہلو کے برآمدے میں لگی تھی۔ گیسٹ روم کا دروازہ برآمدے کے سرے پر کھلتا تھا۔ شیو کے صابن کا جھاگ تولیہ سے صاف کرتا ریحان الدین احمد کمرے سے نمودار ہوا۔

’’کیا ہوا…؟‘‘
’’یہ دیکھو… سنسنی خیز گرفتاری‘‘۔ اُدما دیبی نے سر اُٹھا کر اخبار اس کی طرف سَرکا دیا۔ ان کی کرسی کے قریب جھک کر اس نے اچٹتی نظروں سے پورے کالم کا جائزہ لیا۔
’’کماری روزی بنرجی، کماری سندھیا گھوش اور…‘‘ وہ تیوری پر بل ڈال کر بیٹھا اور خبر کو دوبارہ غور سے پڑھنا شروع کیا۔

بیرہ چائے دانی لے کر حاضر ہوا۔ اُدما نے ریحان کے لیے چائے بنائی۔

’’لو چائے تو پی لو‘‘۔
’’پی لوں گا… غضب ہوگیا۔ ادما۔ محمود الحق اور جیوتی دونوں شہید ہوگئے۔ روزی جانے کتنی بُری طرح زخمی ہوئی ہوگی۔ اِس خبر کا کیا، کیا بھروسہ ہے‘‘۔
’’پُور گرل‘‘۔
’’محمود اور جیوتی دونوں…‘‘ ریحان نے اخبار پرے سرکا کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اور چند منٹ تک چپ چاپ بیٹھا رہا۔
’’اوہ ریحان… پلیز…‘‘ ادما نے اس کے بازو پر نرمی سے ہاتھ رکھا۔

’’سوشلسٹ فرنٹ! ابھی جانے اور کتنے مارے جائیں گے‘‘… اوہ گاڈ… ابھی اس روز جیوتی نے کس جوش و خروش سے مجھ سے بحث کی تھی۔ اُرونادی، جے پی، لوہیا انڈر گرائونڈ میں جان پر کھیل کر جن اندولن کو ڈائرکٹ کررہے ہیں، اور آپ ریحان دا۔ انگریزوں کے پٹھو بن گئے‘‘۔ اوہ رونو…نو…نو…نوٹ جیوتی… نوٹ…‘‘

’’اتنا غم نہ کرو ریحان۔ اندولن میں اسی طرح جانیں جاتی ہیں۔ سال بھر پہلے تم بھی کسی وقت مارے جاسکتے تھے… لو چائے ٹھنڈی ہورہی ہے…‘‘۔
’’اُدما…‘‘ ریحان نے غصہ سے کہا۔

’’سوری اولڈ چیپ… تم ہمیشہ یوں ہی مارے پھرتے ہو۔ نہ کھانے کی فکر، نہ ڈھنگ کی چائے ملتی ہوگی۔ چند روز کے لیے میرے یہاں ہو تو اپنی صحت کا خیال رکھو‘‘۔
’’اوہ۔ سوری ادما۔ لائو۔ میں بہت UPSET ہوں‘‘۔
’’میں کیا UPSET نہیں ہوں۔ تم آملیٹ کھائو گے نا…؟‘‘
’’ہاں۔ دے دو‘‘۔

’’اب کچھ دیر کے لیے یہ تکلیف دہ حالات بھول جائو۔ آرام سے ناشتہ کرو۔ آج پھر تم کو دن بھر دوڑ دھوپ کرنی ہے۔ آتے ہی فرید پور بھاگ گئے‘‘۔ انہوں نے ٹوسٹ دو حصوں میں کاٹ کر ریحان کے سامنے رکھا۔ آملیٹ پر کالی مرچ نمک چھڑکا۔ اور بچوں کی طرح چھری کانٹا اُٹھا کر اس کے ہاتھ میں پکڑوایا۔ وہ مسکرایا۔

’’نائو بی اے گڈ بوائے، اینڈ ایٹ‘‘۔
’’وہ سر جھکا کر کھانے میں مشغول ہوگیا۔ اُدما اس کو دیکھتی رہیں‘‘۔
’’تمہارے ابا کیسے تھے، خیریت سے تھے؟‘‘
’’کون…؟‘‘ اس نے چونک کر پوچھا۔
’’تم اپنے گائوں گئے تھے نا۔ شونا پور۔ مجھ سے تو یہی کہہ گئے تھے‘‘۔
’’اوہ… ہاں۔ نہیں۔ ہاں بالکل اچھے ہیں۔ تھینک یُو‘‘۔ اس نے ایک لقمہ نگل کر پھر اخبار کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ ادما نے جھپٹ کر اخبار اُٹھالیا۔
’’نہیں ملے گا۔ فنش یور بریکفاسٹ فرسٹ‘‘۔
’’وہ پھر پلیٹ پر جھک گیا۔

’’رات تم بہت دیر سے آئے۔ کیا پارٹی… میں اتنی دیر لگ گئی؟‘‘
’’رات… اوہ… ہاں… نہیں۔ رات میں دیپالی کے ہاں چلا گیا تھا۔ دیپالی…؟‘‘

’’ہاں۔ کیا بھول گئیں اُسے؟ دیپالی سرکار‘‘۔
’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ ’’نورالرحمن میاں‘‘ کے زمانے کے بعد بھی تمہاری اس سے جان پہچان ہے‘‘۔

’’ایسی کوئی بات نہیں تھی جس کا تم سے ذکر کرتا۔ دراصل وہ بھی کل ہی فریدپور سے لوٹی ہے۔ اسٹیمر پر اس سے اتفاقیہ ملاقات ہوگئی‘‘۔
’’اوہ۔ آئی سی…‘‘ ادما نے زور سے چھری کانٹا پلیٹ پر پٹخا اور غصہ سے بیرے کو آواز دی… ’’کریم خاں…‘‘
بیرہ سرعت سے نمودار ہوا۔

’’کریم خاں۔ روز منع کرتی ہوں کہ انڈا ہاف بائل مت کرو‘‘۔ غصے سے ایک دم ان کا چہرہ سُرخ ہو چکا تھا۔
’’اوہ اُدما۔ دوسرا انڈا بنوالو۔ ایسی بھی کیا قیامت آگئی‘‘۔

’’نہیں۔ تم جانتے نہیں۔ ممی گھر پر نہ ہوں تو یہ لوگ بالکل بیگار ٹالتے ہیں… ڈیم…‘‘
بیرہ غائب ہوچکا تھا۔
’’کم آن…ادما…‘‘ ریحان نے ہنس کر کہا۔ ’’کوئی کانگریس سوشلسٹ سنے گا تو کہے گا کمیونسٹ لیڈر اس طرح اپنے نوکروں کو ڈانٹتے ہیں!‘‘

’’اوہ شٹ اَپ‘‘۔
’’اُدما۔ تمہارے غصہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے‘‘۔ وہ آملیٹ ختم کرنے میں مصروف ہوگیا۔
سیزر سیڑھیاں پھلانگتا برآمدے میں آیا اور اپنی مالکن کے قدموں کے پاس ڈھیر ہوگیا۔ اُدما نے ناگواری سے اس پر نظر ڈالی۔

بیرے نے دوسرا انڈا لا کر ادما کے سامنے رکھا۔ ریحان نے نظر بچا کر شرارت سے کریم خاں کو آنکھ ماری۔ بوڑھا بیرہ خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ ہونٹ پچکا کر پیچھے ہٹا اور جا کر میز سے کچھ فاصلے پر اپنی ڈیوٹی پر کھڑا ہوگیا۔

چند لحظوں کے بعد یہ جان کر کہ ادما دیبی کا غصہ اب ٹھنڈا ہوگیا ہوگا، ریحان نے کہا… ’’اُدما میں تم کو ایک ضروری بات بتانا چاہتا تھا…‘‘

’’کریم خاں… دھوبی سے پوچھو میری ساریاں استری کردیں‘‘۔

کریم خاں اشارہ سمجھ کر غائب ہوگیا۔
’’ہاں بتائو کیا بات ہے‘‘۔
’’میں دیپالی سے شادی کررہا ہوں‘‘۔
انڈے کا چمچہ سنبھالے اُدما دیبی کا ہاتھ ہوا میں معلق ہو کر رہ گیا۔
’’اس کے بغیر اگر میں جیتے جی مر گیا تو مُوومنٹ کا نقصان ہوگا‘‘۔ ریحان نے مصنوعی سنجیدگی سے وضاحت کی۔
اُدما اب عینک اُتار کر بھونچکی سی اسے دیکھ رہی تھیں۔
’’کیوں اُدما؟‘‘

’’تم… تم ریحان۔ جب سے ہم کالج میں داخل ہوئے۔ لندن میں رہے ایک ساتھ سیاسی کام کیا۔ تم نے آج تک مجھ سے اپنا کوئی راز نہیں چھپایا تھا۔ پھر اتنی بڑی بات مجھ سے کیوں پوشیدہ رکھی…؟‘‘

ریحان ذرا سُرخ ہوگیا۔ عورتیں۔ ’’اُدما…‘‘ اس نے متانت سے کہا۔ ’’مانتا ہوں تو میری دوست، فلسفی اور گائیڈ ہو۔ مگر یہ میرا بہت ہی… بہت ہی ذاتی معاملہ تھا۔ اور میرا خیال تھا کہ ایک عورت دوسری عورت کے سلسلے میں کبھی غیر جانبدارانہ رائے نہیں دے سکتی‘‘۔

’’یہ تم میرے لیے کہہ رہے ہو؟ میں جو تم کو اپنا… اپنا…‘‘
’’اوہ… کم آن اُدما… مجھے افسوس ہے کہ تم کو میری اس راز داری سے دُکھ پہنچا‘‘۔

’’کیوں…‘‘ اُدما نے کرسی پر پہلو بدلا‘‘۔ اگر مجھے پہلے ہی معلوم ہوجاتا کہ تم اسے پسند کرتے ہو تو میں پہلے سے دو گنا اس کا خیال کرتی۔ مجھے خود وہ لڑکی پسند ہے‘‘۔
’’تمہیں بھی پسند ہے اُدما؟‘‘ ریحان کا چہرہ خوشی سے کھل گیا‘‘۔ل ونڈر فُل۔ تو تم میرے انتخاب کو مانتی ہو؟‘‘

’’مجھے بہت پسند ہے۔ میں ہی اسے مُوومنٹ میں لائی ہوں۔ تم بھولتے ہو کہ ایک لحاظ سے میری ہی وساطت سے اس سے تمہاری ملاقات ہوئی‘‘۔

’’یہ تو غلط ہے اُدما۔ اس پر تو میں بہت پہلے زہر کھا چکا تھا۔ لَو ایٹ فرسٹ سائیٹ وغیرہ۔ وغیرہ‘‘۔

’’تم جذباتی طور پر ابھی تک بے حد اممیچور ہو‘‘۔

’’ابھی تو تم میرے انتخاب کی تعریف کررہی تھیں، پھر میں اممیچور کیسے ہوا؟ اُدما اپنا ہارڈ بوائلڈ انڈا تو دکھائو۔ تم کو اس اطلاع سے ایسا… ایسی حیرت ہوئی ہے کہ بے چارے محمود اور جیوتی کی شہادت کا بھی ایسا ری ایکشن نہیں ہوا تھا… کمال ہے‘‘۔

’’ادما چہرہ سخت کرکے چاندی کے ننھے چمچے سے انڈے پر کھٹ کھٹ کرنے میں مصروف ہوگئیں۔

ریحان کہنیاں میز پر رکھے انہیں دیکھتا رہا۔ یہ شاید میری زیادتی ہے۔ ایسی مخلص دوست کے ساتھ میں ایسی سخت باتیں کررہا ہوں۔ ’’سوری اُدما… واقعی مجھے بہت پہلے تم کو اپنا ہم راز بنانا چاہئے تھا۔ مگر حالات بھی تو کیسے ابنارمَل تھے۔ مستلق انڈر گرائونڈ، مسلسل احتیاط، اور پھر وہ احمق بھی نہ جانے کیوں مجھ سے خفا ہوگئی تھی۔ نہایت محنت سے اب جا کر اسے ذرا راہ راست پر لایا ہوں… افوہ یہ عشق کرنا بھی خاصی مشقت ہے۔ تم تو کبھی اس چکر میں پڑی نہیں، تمہیں کیا معلوم‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ