اسپتالوں میں مائوں سے محروم اور کمزور بچوں کیلئے دائی کا انتظام سنت طریقہ ہے،پیما کے تحت ہیومن ملک کے مسائل پر سیمینار

97

مشہور ہے کہ ’’صحت مند ماں ہی صحت مند معاشرہ تشکیل دیتی ہے‘‘۔ جیسے ماں کی گود بچے کے لیے پہلی درس گاہ کہلاتی ہے، اسی طرح بچے کی پہلی سانس بھی ماں کی ہی مرہونِ منت ہے۔ شیر خوار کے لیے ماں کا دودھ اہم غذائی جزو نہیں بلکہ زندگی ہے اور یہی دوا کا کام بھی کرتا ہے۔ پاکستان میں ہزاروں بچے بہت سی وجوہات کی بنا پر ابتدائی غذائی ضروریات سے محروم رہ جاتے ہیں، نتیجتاً زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ انہی مسائل کے پیش نظر حکومتِ سندھ کی جانب سے گزشتہ دنوں پہلا ’’ہیومن بینک‘‘ قائم کیا گیا تھا تاکہ ماں کے دودھ سے محروم کمزور نوزائیدہ بچوں کے لیے دودھ کے عطیات جمع کیے جاسکیں، مگر طبی اور مذہبی حلقوں کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات نے اسے متنازع بنا دیا اور نکتہ اٹھایا گیا کہ ناگزیر صورتِ حال کی بنا پر جہاں ماں کی صحت کے مسائل کا سامنا ہو یا کسی اور وجہ سے ماں کا دودھ میسر نہ ہو تودوسری خاتون کا دودھ پلایا جاسکتا ہے، اور اس پہ رضاعت کے قوانین بھی لاگو ہوں گے، مگر مِلک بینک کا قیام ان قوانین سے میل نہیں کھاتا۔ ان اعتراضات کے تحت تاسپردِ قرطاس علمائے کرام نے اسے ناجائز کا فتویٰ دے کر معطل کررکھا ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رہنمائی تک یہ منصوبہ معطل ہی رکھا جائے گا۔

اس ضمن میں پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) خواتین کی جانب سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف اسپتالوں سے منسلک اس شعبے کی ماہر خواتین ڈاکٹروں اور طبی عملے سمیت مفتیانِ کرام نے بھی شرکت کی۔

’’ہیومن مِلک کے مسائل‘‘ سیمینار کا عنوان تھا، جس کا بنیادی مقصد ملک بینک سے جڑی پیچیدگیوں اور اس کی ضرورت کو اجاگر کرنا تھا۔ سیمینار میں طبی، شرعی اور معاشرتی پہلو بھی زیر غور لائے گئے۔

سیمینار کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ نظامت کے فرائض الخدمت اسپتال سے وابستہ ماہر امراضِ نسواں ڈاکٹر شازیہ ناز ادا کررہی تھیں۔ پروگرام کے پہلے حصے کی جانب بڑھتے ہوئے انہوں نے دعوتِ گفتگو ڈاکٹر رفعت جلیل کو دی جو کہ سول اسپتال میں بطور ماہر امراضِ نسواں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ ڈبے کے دودھ کا رجحان خاصی حد تک بڑھ چکا ہے، اس پہ بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ رضاعت کرنے والی مائیں طویل عمر پاتی ہیں، رضاعت محض بچے کے لیے نہیں، بلکہ زچہ کی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ دل کے امراض، چھاتی کا کینسر، بلند فشارِ خون، مٹاپے سمیت بہت سی دیگر بیماریوں سے رضاعت کرنے والی خواتین محفوظ رہتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ معاشرے میں رضاعت کے حوالے سے رائج غلط فہمیوں اور سوچ کو دور کرنا ہوگا، اسی میں ماں اور بچے کی صحت مضمر ہے۔

بعد ازاں الخدمت اسپتال سے وابستہ ماہر امراضِ اطفال محترمہ ڈاکٹر نوید بٹ گفتگو کے لیے تشریف لائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بچے کی اپنی کوئی زیادہ ابتدائی غذائی ضروریات نہیں ہوتیں، تھوڑے بہت سے کام چل جاتا ہے۔ بچہ جہاں اتنے مہینے پلتا اور جس ماحول سے آتا ہے وہاں جراثیم کا نام و نشان نہیں ہوتا۔ جیسے ہی بچہ پہلا سانس لیتا ہے، پہلے جیسا پاک صاف ماحول میسر نہیں پاتا بلکہ ہر طرح کے جراثیم چاروں جانب موجود ہوتے ہیں۔ یہ جراثیم سانس لینے یا دودھ پینے کے ذریعے اندر جاتے ہیں۔ خالق بچے کی سب سے بڑی ضرورت کا علم رکھتا ہے توپہلا دودھ ہی اس نے اہم رکھا، جو ان تمام جراثیم کے لیے قوتِ مدافعت کا کام کرتا ہے۔ جو رضاعت کرتا ہے اور جو چاہتا ہے کہ وہ بہتری کرے، بہتری لے آتا ہے۔ہمارا اور آپ کا کام رضاعت کے عمل کو جاری و ساری کروانا ہے ۔ ذہن سازی کریں تاکہ وہ اپنی اپنی اگلی نسل تک بھی یہ بات پہنچا سکیں۔

ملک بینک کی عملی دشواریوں پر ڈاکٹر شاہد رفیق نے پُرمغز گفتگو کی۔ ڈاکٹر شاہد رفیق امریکا کی اسلامی تنظیم ’’اکنا‘‘ کے نائب صدر اور ماہر امراضِ اطفال کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک بینک کا آغاز مغربی ممالک سے ہوا۔ اس کا خیال اور ضرورت سب سے پہلے مغربی ممالک میں پیش آئی۔ مغرب تحقیق کے مطابق اپنے آئندہ پچاس برس کی پالیسی مرتب کرتا ہے، جب تحقیق سے انہیں معلوم ہوا کہ ماں کا دودھ ڈبے کے دودھ کے مقابلے میں زیادہ فوائد اور مثبت اثرات کا حامل ہے تو انہیں ملک بینک ہی حل دکھائی دیا۔ عطیات جمع کرنا، بچے تک اصلی اور محفوظ حالت میں دودھ کی فراہمی اور بہت سے طبی چیلنج درپیش تھے، اس کے لیے انہیں فنڈنگ میسر آگئی، بالآخر نظام ترتیب دے دیا گیا، اس طرح ان کے ماحول کے مطابق ملک بینک کا قیام سازگار اور کارآمد رہا۔ دوسری جانب پاکستان بطور اسلامی ریاست بہت سی حدود رکھتا ہے، مغربی طرز کے نظام کو من و عن قبول کرنا ناقابل عمل ہے۔ پاکستان میں اس کا قیام حساس نوعیت رکھتا ہے۔ ضرورت اور افادیت کے باوجود ہمیں اس کی بنیاد ڈالنے کے لیے درمیانی راستہ اختیار کرنا ہوگا، یہ محض فقہی نہیں معاشرتی و تہذیبی مسئلہ بھی ہے۔ کرپشن، غربت، تعلیم اور ذرائع کا فقدان ایسے عوامل ہیں جنہیں قطعی طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں یقینی بنانا ہوگا کہ ملک بینک کے ذریعے کاروبار کا قبیح فعل نہ شروع ہوجائے۔ ملک بینک کے متبادل پر نظر ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ واضح اور مربوط پالیسی مرتب کرنی ہوں گی، اسپتالوں میں دائی کا نیا نظام قابلِ عمل تجویز ہے، اس سے تازہ دودھ کی فراہمی بھی ممکن ہوسکے گی۔ اسلام نے رضاعت کا بہت واضح قانون دیا ہے، اسلام دونوں خاندانوں کی باہمی رضامندی کو اہم قرار دیتا ہے۔ یہ طویل المدتی معاہدہ ذمہ داری اور رضامندی کا متقاضی ہوتا ہے۔ رضاعت محض دودھ پلانے کا نام نہیں بلکہ بچے اور رضاعی خاتون کے درمیان انسیت اور تعلق کی علامت ہے، بچہ ہر کسی سے تعلق محسوس نہیں کرسکتا۔ انہوں نے اس ضمن میں کہا کہ علما کو دورِ حاضر کے مسائل کا حل علمی اور تحقیقی طور پر نکالنے کی ضرورت ہے۔

اس موقع پر جامعۃ دارالعلوم سے فارغ التحصیل اور اسلامک میڈیکل لرنر ایسوسی ایشن کے بانی رکن مفتی واسع فصیح نے ملک بینک کے اخلاقی اور مذہبی پہلو پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے گفتگو کا آغاز اس نکتے سے کیا کہ فتویٰ کسی کے بھی قول کو لینے کا نام نہیں بلکہ فتویٰ یہ ہے کہ کس کا قول زیادہ مدلل اور اکثریت نے اسے قبول کیا ہے۔ ہمارے بارے میں عمومی رائے رکھی جاتی ہے کہ مفتی صاحبان ہر بات کو حرام قرار دے دیتے ہیں۔ لوگوں کا اعتراض ہے کہ ان نومولود کمزور بچوں کا کیا ہوگا جنہیں بوجوہ ماں کا دودھ میسر نہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ فتویٰ کے لیے فقہی مہارت درکار ہوتی ہے، کوئی بھی ٹیکنالوجی یا وضع کردہ نظام اپنے ساتھ پوری معاشرت لے کر آتا ہے، اس لیے جب بھی کچھ مغرب سے لیں تو پہلے قرآن و سنت کی آنکھ سے پرکھیں۔ بغیر چھانے ہمارے معاشرے میں من و عن عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مغرب کے پاس خدائی پابندی نہیں۔ اس لیے یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ مفتی صاحبان ہر چیز کو حرام قرار دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر قرآن و سنت کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک بینک پہ کام کریں تو اجازت کیوں نہیں ہوگی! انہوں نے ملک بینک میں خواتین کا دودھ یکجا کرکے محفوظ کرنے کے عمل کو بھی اخلاقی اور مذہبی طور پر غیر مناسب قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک سے زائد خواتین کا دودھ مکس کرنے کا مطلب ہے کہ ان تمام خواتین سے رضاعت کی حرمت قائم ہوجائے گی اور پھر ان خواتین کی نسبت سے نہ جانے کتنے ہی بچوں کے درمیان بہن بھائی کی حرمت بھی قائم ہوجائے گی، ایسے میں عملی طور پر تمام رشتوں کو پرکھنا اور خونیں رشتوں جیسی حرمت قائم رکھنا مشکل اور ناممکنات میں سے ہے۔ یہ اچھا موقع ہے کہ سنت کو زندہ کیا جائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ بی بی حلیمہؓ آپؐ کی رضاعی والدہ تھیں۔ ہمارے معاشرے میں اب بھی خاندانی نظام موجود ہے۔ رشتوں کی شکل میں خالائیں، پھوپھیاں موجود ہوتی ہیں، ایسے میں ملک بینک کی ضرورت نظر نہیں آتی۔ رضاعت کے حوالے سے عمومی الجھن کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جس دودھ سے ہڈیوں اور جسم کی بڑھوتری ہوگئی، اسی سے رضاعت قائم ہوگئی۔ ایسا ہرگز نہیں کہ رضاعت کے لیے بچے کا چھاتی سے لگنا اہم ہے۔ اس لحاظ سے ملک بینک کا مغربی طرز پہ قیام ہمارے لیے مذہبی، معاشرتی اور اخلاقی طور پر تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ خاندانی نظام اور خاندانی زندگی پر زد لگانے کا نقطہ آغاز ہوسکتا ہے۔

بعدازاں مذاکرے کا آغاز کیا گیا جس کی نظامت ماہر امراضِ نسواں ڈاکٹر عذرا جمیل نے کی۔ انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عموماً دودھ کا آنا، نہ آنا محض خدا کی مرضی سے جوڑ دیا گیا ہے، خواتین چاہتی بھی ہیں کہ وہ خود بچوں کو دودھ پلائیں مگر درست رہنمائی نہ ہونے کی صورت میں بچہ ڈبے کے دودھ کا عادی ہوجاتا ہے۔ ماں کی صحت کی پیچیدگی کی صورت میں دودھ نہ آنا ممکن ہے، یا قبل از وقت پیدائش کی صورت میں جب دودھ پلایا نہ جاسکے۔ بصورتِ دیگر یہ وجہ نہیں ہوتی۔ اگر کسی بچے کو چھ ماہ بھی دودھ نہ پلایا ہو تب بھی کوشش، محنت اور مستقل مزاجی سے لگے رہنا چاہیے، یہ مسئلہ اَزخود حل ہوجاتا ہے۔ انسان بنیادی طور پر آسانی پسند ہے، بچے کو بھی بوتل کا نپل لینا زیادہ آسان لگتا ہے، محنت نہیں کرنی پڑتی، لہٰذا چھڑوانا آسان نہیں۔

اس موقع پر صدرِ مذاکرہ اور ماہر امراضِ نسواں ڈاکٹر شاہین ظفر نے ملک بینک کے قیام کے حوالے سے تکنیکی پہلو اجاگر کیے اور کہا کہ اس ملک میں کون سی معلومات اور کاغذات قائم رہتے ہیں چاہے وہ کسٹم ہاؤس ہو یا نادرا؟ کون سے کاغذات میں ہیرا پھیری ممکن نہیں یا غلط معلومات فراہم نہیں کی جاتیں؟ جب ہم سب اندر سے بے ایمانی کرنے کو تیار ہیں ایسے میں ایمان داری کون کرے گا؟ ملک بینک کا قیام ہوجائے اور خواتین کا دودھ مکس کرکے آپ نے بچوں کو پلایا ہو، قبل از وقت پیدا ہونے والے بچے عموماً ہفتوں نرسری میں رہتے ہیں اور انہیں دودھ کی ضرورت بھی پڑتی ہے، تو کیا ہر دفعہ مختلف ماؤں کا دودھ پلایا جائے گا؟ کتنی ہی دفعہ پلایا جائے گا اور کتنی خواتین سے رضاعت قائم ہوگی۔ ان حالات میں ہر خاتون کی معلومات فراہم کرنا، کاغذی کارروائی برقرار رکھنا اتنا سہل نہیں۔

مذاکرے میں موجود محترمہ سمیحہ راحیل قاضی نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس موضوع پر کھل کر بات کرنے کی اشد ضرورت ہے، ایسے سیمینار منعقد کیے جائیں اور سازگار ماحول بنایا جائے جہاں سیر حاصل گفتگو کی جا سکے۔ اس ضمن میں علمائے کرام اپنا کردار نبھائیں۔ ماحول اور مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی حدود کے تحت فیصلے کرنے چاہئیں تاکہ آسانی فراہم ہوسکے۔

آخر میں پیما کی جانب سے سفارشات بھی پیش کی گئیں۔ دورانِ زچگی خواتین کی صحت، خوراک، جسمانی و ذہنی صحت اور دیگر معاشرتی ضروریات کا خیال رکھنے کی آگہی دی جائے۔ طبی ماہرین بھی اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور نرسنگ کے حوالے سے ان کے مسائل و تکالیف کو سنیں۔ جہاں تک ممکن ہو خاطرخواہ حل اور رہنمائی دیں۔ خاص طور پر قبل از وقت پیدائش میں زچہ و بچہ کی جلد صحت یابی میں طبی ماہرین کے کلیدی کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ علاوہ ازیں کسی بھی پیچیدگی یا وفات کی صورت میں قریبی رشتے داروں کو بچے یا ماں کی ذمہ داری لینی چاہیے۔ اسپتالوں میں دائی کی سہولیات متعارف کروائی جائیں۔ اس سلسلے میں شفاف نظام اور مفتیانِ کرام کی رائے کو ترجیح دینا ہوگی۔ کسی بھی طبی معاملے میں مغرب کی تقلید سے احتراز اور اسلامی اصولوں کے تحت صحت کے شعبے میں کام بہت سے مسائل کا حل ہوسکتا ہے۔

حصہ