اسرائیلی اخبار Haaretz کا اداریہ

102

اداریے کا عنوان ہے: ’’فلسطینی اپنے وطن کے دفاع میں زمین پر بہترین لوگ ہیں‘‘

کیا آپ کو معلوم ہے کہ آج کے سب سے بڑے اسرائیلی اخبار کا اداریہ فلسطینیوں کے بارے میں کیا سچ بتاتا ہے، یہ کہ وہ زمین کی ان بہترین قوموں میں سے ایک ہیں جو پچھتر سال کے بعد اپنے حقوق کے دفاع کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں،گویا وہ ایک مرد ہیں۔

مصنف کہتا ہے:
’’غزہ پر جنگ کے دوران ہم نے اُن پر میزائل داغے، اور ہر تین دن میں ہمیں طیاروں کی چھان بین، پیٹریاٹ میزائلوں کی قیمت، ایندھن بھرنے والی گاڑیوں اور گولہ بارود اور ہر قسم کے میزائلوں کی کھپت میں 912 ملین ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔

تجارتی سرگرمیوں میں خلل، اسٹاک مارکیٹ کا زوال، بیشتر اداروں اور تعمیراتی کاموں کا بند ہونا، زراعت کے تمام شعبوں کا مکمل طور پر مفلوج ہونا، دسیوں ملین ڈالر مالیت کے فارموں میں ہر قسم کی مرغیوں کی موت، کچھ ہوائی اڈوں، کچھ ٹرین لائنوں، اور کھانا کھلانے کی لاگت میں خلل… ہمیں ایک ایسی جنگ کا سامنا ہے جس کی آگ کو ہم نے خود بھڑکایا اور ایندھن دیا۔ لیکن ہم اسے چلانے والے نہیں ہیں۔ یقینا ہم اسے ختم کرنے والے ہی ہیں۔ اور اس کا انجام ہمارے مفاد میں نہیں ہے، خاص طور پر اسرائیل کے مفاد میں تو بالکل ہی نہیں۔

ہمارے خلاف اس بڑے انقلاب نے سب کو حیران کردیا، جب کہ ہم نے سوچا تھا کہ وہ اپنا فلسطینی کمپاس کھو چکے ہیں۔ یہ اس ملک کے لیے برا شگون ہے جس کے سیاست دانوں کو یقین تھا کہ ان کے تمام حسابات غلط ہیں اور یہ کہ ان کی پالیسیوں کو افق تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔

ایک یہودی کے طور پر، میں پوری ریاست اسرائیل کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اس الحاق کو حاصل کرے۔ اگر ہمارے لوگ فلسطین کی حمایت پر قائم رہتے تو ہوائی اڈوں پر اتنی بڑی تعداد میں یہودیوں کی ہجرت کا جو منظر ہم نے دیکھا وہ نہ دیکھ پاتے جو جنگ کے آغاز سے ہی ہجرت کے لیے دوڑ رہے ہیں۔ جب ہم نے قتل و غارت کے ذریعے فلسطینیوں کو قید کرنے، محاصرے اور علیحدگی کا کام کیا اور ہم نے انہیں منشیات میں غرق کرنے اور ان کے نظریات پر حملہ کرنے کی کوشش کی جو انہیں ان کے مذہب سے دور کرسکتی تھی، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان میں سے ایک بھی ہمارے نشے کا عادی نہیں بن سکا، بلکہ وہ اپنی سر زمین کے دفاع میں اٹھنے لگے اور ’’اللہ اکبر‘‘(خدا عظیم ہے)کا نعرہ لگانے لگے۔ انہوں نے مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کے لیے جانے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔

دنیا کے بیشتر پوری طرح سے لیس ممالک کی فوجوں میں وہ کچھ کرنے کی ہمت نہیں، جو فلسطینی مزاحمت نے چند دنوں میں کرکے دکھا دیا۔ ناقابلِ تسخیر اسرائیلی سپاہی کا نقاب اتر گیا اور وہ قتل اور اغوا ہونے لگے۔ اب تل ابیب نے مزاحمتی میزائلوں کا مزا چکھ لیا ہے، بہتر ہے کہ گریٹر اسرائیل اپنے جھوٹے خواب کو ترک کردے۔‘‘

حصہ