قدرت نے موجودہ سمندروں سے زیادہ پانی 400 میل کی گہرائی میں ذخیرہ کر رکھا ہے
پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ پانی کے بغیر زندگی کا تسلسل ممکن ہی نہیں۔ ہمیں قدم قدم پر پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ کھانے پینے کے ساتھ ساتھ بہت سی چیزوں کی تیاری کے لیے بھی ہمیں بڑے پیمانے پر پانی درکار ہوتا ہے۔ کھیتی باڑی پانی کے بغیر ممکن نہیں۔ مویشیوں کو پالنا اور اُن کے لیے چارے کی تیاری بھی پانی کے بغیر ممکن نہیں۔ بہت سی صنعتوں کے لیے پانی بہت بڑے پیمانے پر درکار ہوتا ہے۔
اور بات صرف پانی کی دستیابی پر ختم نہیں ہوتی۔ پانی کا معیاری ہونا بھی لازم ہے۔ پست درجے کا پانی انسان کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ میٹھا پانی ہماری بنیادی ضرورت ہے۔ سمندر کے پانی کو بھی میٹھا بنایا جاتا ہے مگر اُس میں وہ بات نہیں ہوتی جو قدرتی طور پر پائے جانے والے غیر نمکین یا میٹھے پانی میں ہوتی ہے۔
دنیا کی آبادی بڑھتی جارہی ہے اور پانی کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ بعض ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کے معاملے میں تنازعات پائے جاتے ہیں۔ بھارت اور بنگلادیش کے علاوہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بھی پانی کی تقسیم کے حوالے سے تنازعات سر اٹھاتے رہے ہیں۔ پہلے مطلع کیے بغیر پاکستانی دریاؤں میں پانی چھوڑ کر سیلاب لانے کے الزام کا بھی بھارت کو سامنا رہا ہے۔
صدیوں کے صنعتی عمل اور آلودگی سے ماحول کو پہنچنے والے نقصان کے نتیجے میں بارشوں کا نظام بھی تلپٹ ہوگیا ہے۔ جہاں کبھی شدید خشک سالی ہوا کرتی تھی وہاں پانی جم کر برس رہا ہے، اور جہاں پانی ہی پانی ہوا کرتا تھا وہاں اب لوگ بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ یہ بے ہنگم صورتِ حال پانی کے بحران کو شدید تر کیے دیتی ہے۔
بہت سے ملکوں میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے۔ اچانک بہت زیادہ بارش ہوتی ہے جس سے دریا چھلک پڑتے ہیں اور شہری علاقے بھی سیلابی ریلوں کی زد میں آجاتے ہیں۔ بعض مقامات پر صورتِ حال انتہائی خطرناک ہوچکی ہے۔ جہاں دریا شہر کے وسط سے گزرتا ہے وہاں لوگ طغیانی کے ہاتھوں چند اضافی مشکلات سے بھی دوچار ہوتے ہیں۔ مثلاً بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بڑودا میں حالیہ بارشوں کے دوران جب شہر کے وسط سے گزرنے والے دریائے وِشوا مِتری میں طغیانی آئی تو سیکڑوں مگرمچھ نکل کر بستیوں میں آگئے اور شہر کے مکین شدید خوف و ہراس میں مبتلا ہوئے۔
ہم پانی کے بغیر جی نہیں سکتے تو پھر پانی کے معاملے میں اب تک ہمارے عمومی رویوں میں اس قدر بے اعتنائی اور لاپروائی کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ لوگ پانی کے حوالے سے حقیقی معنوں میں سنجیدہ ہونے کا نام نہیں لیتے؟ یہ کیوں تصور کرلیا گیا ہے کہ سمندر بھرے ہوئے ہیں تو ہمیں پانی کے استعمال کے سلسلے میں کچھ سوچنے کی ضرورت ہی نہیں ہے؟ دنیا بھر میں حکومتیں لوگوں سے کہہ رہی ہیں کہ پانی کے استعمال کے معاملے میں احتیاط برتیں اور ایسے کاموں سے گریز کریں جن سے ماحول کو خطرہ لاحق ہوتا ہو۔ پانی اور دیگر نعمتوں کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ پورے کرۂ ارض کے ماحول کو شدید نوعیت کی آلودگی سے بچایا جائے۔
ذرا سوچیے کہ زمین کی سطح پر پایا جانے والا پانی ختم ہوجائے تو کیا ہوگا۔ ختم ہوجانا تو دور کا معاملہ رہا، اگر پانی ہماری ضرورت سے خاصا کم بھی ہوجائے تو ہم شدید پریشانی کا شکار رہیں گے۔ روئے ارض پر زندگی کی ساری آب و تاب پانی سے ہے۔ پانی کی شدید قلت معاشروں کو تباہ کررہی ہے۔ اگر سمندروں کا پانی بھاپ بن کر اُڑ جائے اور دوبارہ اِن میں شامل نہ ہوپائے تو؟ یہ ہوگی انتہائی نوعیت کی کیفیت۔ ماہرین آلودگی کا گراف نیچے لانے پر اِس لیے زور دے رہے ہیں کہ آلودگی کے ہاتھوں پانی کے ذخائر ڈانواں ڈول ہورہے ہیں۔ اِسی کے نتیجے میں کہیں بارشیں زیادہ ہورہی ہیں اور کہیں خشک سالی کا گراف بہت بلند ہوچکا ہے۔
ہم پر اللہ کی نعمتیں برستی ہی رہتی ہیں۔ جو کچھ ہمارے سامنے ہے اُس سے کہیں زیادہ وہ ہے جو ہم دیکھ نہیں پارہے، مگر وہ ہے۔ مثلاً اِسی بات کو لیجیے کہ قدرت نے ہمارے لیے موجودہ مجموعی سمندری پانی سے بھی زیادہ پانی ذخیرہ کررکھا ہے۔ مستقبل کے انسان کے لیے ذخیرہ کیا جانے والا یہ پانی کہاں ہے؟ کم و بیش 250 میل کی گہرائی میں۔ جی ہاں، ہم جہاں بھی کھڑے ہیں وہاں 250 تا 400 میل کی گہرائی میں سطحِ آب پر موجود پانی سے کہیں زیادہ پانی اللہ نے محفوظ کررکھا ہے۔ یہ پانی یقیناً بہت بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے ہے۔ اِس وقت روئے ارض پر جتنا پانی موجود ہے وہ انسانوں کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ سوال مقدار کا نہیں بلکہ تقسیم کا ہے۔ میٹھا پانی بھی ہماری ضرورت سے کہیں زیادہ ہے مگر ہم اول تو اُس کی تقسیم میں توازن برقرار نہیں رکھتے، اور دوسرے یہ کہ پانی کا ضیاع روکنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کی جاتیں۔ اس وقت روئے ارض پر جتنا بھی میٹھا اور نمکین پانی موجود ہے وہ تمام انسانوں کی مجموعی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ اس حوالے سے بہت زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔
ماہرین کی ایک ٹیم نے ringwoodite نامی معدنی جُز کی دریافت کے ذریعے سے معلوم کیا ہے کہ زمین کی گہرائیوں میں ہمارے لیے پانی کا وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ یہ پانی سطحِ زمین کے کئی سمندروں کے مجموعی پانی سے کہیں زیادہ ہے۔ زمین کی گہرائیوں میں یہ پانی جس علاقے میں ہے اُس کا بڑا حصہ امریکا کی سرزمین پر مشتمل ہے۔
نارتھ ویسٹر یونیورسٹی کے جیو فزسسٹ(Geophysicist) اسٹیو جیکبسن اور یونیورسٹی آف نیو میکسیکو میں زلزلوں سے متعلق امور کے ماہر برینڈن شمینٹ کی تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمیں پانی کے حوالے سے بہت زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
آئیے، روئے ارض پر پانی کی مجموعی کیفیت کا جائزہ لیں۔
معروف جریدے ’’سائنس‘‘ میں شائع ہونے والے مقالے سے زمین کی بناوٹ، اجزائے تشکیل اور زمین کی گہرائیوں میں موجود پانی کا پتا چلتا ہے۔ مقالے کے شریک مصنف اسٹیو جیکبسن کا کہنا ہے کہ زمین کی سطح پر جو کچھ ہوتا ہے یعنی جو زلزلے آتے ہیں اور جو آتش فشاں پھٹتے ہیں وہ دراصل زمین کی گہرائیوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے مظاہر ہیں۔ جیکبسن کا کہنا ہے کہ اب ہم اس قابل ہوگئے ہیں کہ زمین پر پانی کے پورے نظام یا دائرے کو کسی حد تک سمجھ سکیں۔ اس سے زمین کی سطح پر موجود پانی کی نوعیت اور ماہیئت کو سمجھنے میں بہت حد تک مدد ملے گی۔ ماہرینِ ارضیات کو ایک زمانے سے زیرِزمین پانی کی تلاش تھی۔
زمین میں کئی راز چُھپے ہوئے ہیں
ایک زمانے سے سائنس دان زمین کے اندر چھپے ہوئے پانی کی تلاش میں تھے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ پانی 250 سے 400 میل تک کی گہرائی میں موجود ہے۔ اِس ٹرانزیشن زون میں پانی کی موجودگی کی اطلاع دینے والے ماہرین میں اسٹیو جیکبسن اور برینڈن شمینٹ ہراول دستے کی مانند ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے بیشتر رقبے کے نیچے یہ پانی موجود ہے۔ برینڈن شمینٹ کا کہنا ہے کہ زمین کی گہرائیوں میں چٹانوں اور پتھروں کے پگھلنے کا عمل غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ عمل بالعموم قدرے کھوکھلے ماحول میں رونما ہوتا ہے جو 50 میل تک کی گہرائی میں ہے۔ اگر پانی کی بہت زیادہ مقدار ٹرانزیشن زون میں موجود ہے تو پھر پتھروں کے پگھلنے کا عمل وہاں ہونا چاہیے جہاں نچلے درجے میں روانی پائی جاتی ہے۔
پانی کی چوتھی شکل
پانی کو ہم ٹھوس، مائع اور گیس کی شکل میں پہچانتے ہیں۔ ایک طرف تو سادہ پانی ہے۔ یہ مائع ہے۔ دوسرے نمبر پر برف ہے جو ٹھوس ہے۔ اور تیسرے نمبر پر بخارات ہیں جو اِن دونوں پہلی شکلوں سے مختلف ہے۔ زیرِزمین موجود پانی چوتھی شکل میں ہے۔ یہ پانی چٹانوں کے درمیان معدنیات کے ڈھانچے میں سالموں کی شکل میں محفوظ ہے۔
زمین میں 250 میل کی گہرائی میں انتہائی ٹھوس چٹانوں کے درمیان ایک طرف تو شدید دباؤ پایا جاتا ہے اور دوسری طرف درجہ حرارت دو ہزار فارن ہائٹ سے کم نہیں ہوتا۔ اس کے نتیجے میں پانی کے سالمے شکست و ریخت کے عمل سے گزرتے ہوئے ہائیڈراگزل ریڈیکلز (OH) تشکیل دیتے ہیں جو معدنیات کے کرسٹل اسٹرکچر میں بندھے ہوتے ہیں۔
اسٹیو جیکبسن کہتے ہیں کہ ابھی یہ بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ یہ منفرد نمونہ زمین کی انتہائی اندرونی ساخت کا نمائندہ یا ترجمان ہے یا نہیں۔ ہاں، ہمیں اِتنا ضرور معلوم ہوسکا ہے کہ شمالی امریکا کی، نیچے غیر معمولی گہرائی میں، پگھلاؤ کا غیر معمولی عمل رونما ہورہا ہے۔ یہ سب کچھ رنگوُڈائٹ سے پانی کے الگ ہونے کے عمل کا جواب ہے۔ ہمارے تجربات سے بھی یہی ثابت ہوا ہے۔
رنگوُڈائٹ انتہائی دباؤ والی معدنیات میں سے ہے۔ یہ نیلی رنگت کا پتھر ہے۔ اِسے آسٹریلوی ماہرِ ارضیات الفریڈ رنگوُڈ سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس خوبصورت پتھر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اپنے اندر پانی کو ذخیرہ کرکے رکھتا ہے۔
اسٹیو جیکبسن نے نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی لیب میں رنگوُڈائٹ کا تجزیہ کیا ہے۔ اُنہوں نے تجزیے کی مدد سے یہ معلوم کرلیا ہے کہ رنگوُڈائٹ کے مجموعی وزن کا ایک فیصد سے بھی زائد حصہ پانی کا حامل ہے۔
انتہائی گہرائی میں رنگوُڈائٹ نامی معدنی پتھر اسپونج کی طرح کام کرتا ہے، یعنی پانی اپنے اندر جذب کرلیتا ہے اور محفوظ رکھتا ہے۔ جیکبسن کا کہنا ہے کہ رنگوُڈائٹ کے کرسٹل اسٹرکچر میں کچھ ایسی خصوصیت ہے کہ یہ ہائیڈروجن کو اپنی طرف کھینچ کر پانی کو جذب کرلیتا ہے۔ اس معدنی ذخیرے میں کتنا پانی ہے اس کا درست اندازہ لگانا اب تک ممکن نہیں ہوسکا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ زمین کی گہرائی میں موجود پانی سے بھرا ہوا معدنی جُز رنگوُڈائٹ زمین کی ساخت اور روئے ارض کی انسانوں سے آباد ہونے کی صلاحیت کو سمجھنے میں ہماری غیر معمولی مدد کرسکتا ہے۔ اس اہم معدنی خزانے کی نوعیت اور ماہیئت کو سمجھنے کی صورت میں سائنس دان زمین کی گہرائی میں پانی کی موجودگی کے کردار اور ہماری زمین کے اندرونی اعمال پر اِس کے اثرانداز ہونے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکیں گے۔ یوں ہمیں دیگر سیاروں پر پانی کی موجودگی اور زندگی کے امکان کے بارے میں بہت کچھ سمجھنے اور پرکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
زمین کے اندرونی و بیرونی ارتعاش کے مطالعے سے بھی معلوم ہوا ہے کہ زمین کے اندرونی حصے کے ٹرانزیشن زون میں بعض مقامات پر جُزوی پگھلاؤ واقع ہورہا ہے اور یوں رنگوُڈائٹ سے پانی ریلیز ہورہا ہے، اور ہوسکتا ہے کہ مزید گہرائی میں دیگر معدنی اجزا کا حصہ بنتا جارہا ہو۔
پانی کے الگ ہونے پر منتج ہونے والا پگھلاؤ
ماہرین نے زیرِزمین جس پگھلاؤ کا اندازہ لگایا ہے اُسے انہوں نے ڈی ہائیڈریشن میلٹنگ یعنی پانی کے الگ ہونے پر منتج ہونے والے پگھلاؤ کا نام دیا ہے۔ ٹرانزیشن زون سے رنگوُڈائٹ مزید گہرائی میں جاتا ہے تو زیادہ دباؤ کے تحت سلیکیٹ پیرووسکائٹ نامی معدنی جُز میں تبدیل ہوتا ہے جو پانی کو جذب نہیں کرسکتا۔ اس کے نتیجے میں ٹرانزیشن زون اور اُس سے بہت نیچے جزوی طور پر پگھلے ہوئے مادے کے درمیان سرحد سی بن جاتی ہے۔
جب آکسیجن اور ہائیڈروجن کی حامل معدنیات ٹرانزیشن زون سے نیچے کی طرف منتقل ہوتی ہیں تو اُنہیں آکسیجن اور ہائیڈروجن کے مکسچر پانی H2O سے نجات حاصل کرنا ہوتی ہے۔ یوں اِس میں تھوڑا سا پگھلاؤ واقع ہوتا ہے۔ اِسے ڈی ہائیڈریشن میلٹنگ کہا جاتا ہے۔ جب پانی ریلیز ہوتا ہے تو اِس کا بڑا حصہ ٹرانزیشن زون میں مقید رہ جاتا ہے۔
شہاب ہائے ثاقب میں بھی رنگوُڈائٹ پایا گیا ہے۔ کسی سیارے پر اِس کی موجودگی اب تک ثابت نہیں ہوسکی۔ یہ چونکہ بہت گہرائی میں ہوتا ہے اس لیے غیر معمولی نوعیت کی کھدائی کے ذریعے ہی اِس کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ سب کچھ عام مشینری کے بس کی بات نہیں۔
رنگوُڈائٹ 2008ء میں برازیل کے چند کاری گروں نے میٹو گروسو (برازیل) کے علاقے جوئنا میں دریافت کیا تھا۔ انہیں اُتھلے پانیوں والے ایک دریا کی ترائی سے ایک ہیرا ملا تھا۔ یہ ہیرا وہاں ایک آتش فشاں کے پھٹنے سے اوپر آیا تھا۔ اس میں رنگوُڈائٹ کے اجزا ملے تھے۔ ڈیوڈ پیئرسن کی ٹیم کسی اور معدنی جُز کو تلاش کررہی تھی۔ اُس نے تین ملی میٹرچوڑا ایک گندا سا دکھائی دینے والا تجارتی اعتبار سے قدرے غیر اہم ہیرا خریدا۔ رنگوُڈائٹ کسی ڈیوائس سے مدد لیے بغیر دکھائی نہیں دیتا۔ اِسے پیئرسن کے گریجویٹ اسٹوڈنٹ جان مکنیل نے 2009ء میں دریافت کیا۔
ہیرے کی شکل میں موجود نمونے کو کئی بار تجزیے کے عمل سے گزارا گیا۔ رامن اور انفرا ریڈ اسپیکٹرواسکوپی کی گئی اور ایکس رے ڈفریکشن کیا گیا۔ تب کہیں جاکر اِسے باضابطہ طور پر رنگوُڈائٹ کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ اس نمونے میں پانی کی موجودگی کی پیمائش پیئرسن کی آرکٹک ریسورسز جیو کیمسٹری لیب (یونیورسٹی آف البرٹا) میں کی گئی۔ یہ لیب عالمی شہرت یافتہ کینیڈین سینٹر فار آئسوٹوپک مائیکرو اینیلسز کا حصہ ہے۔ یہیں دنیا کا سب سے بڑا اکیڈمک ڈائمنڈ ریسرچ گروپ بھی واقع ہے۔
ڈیوڈ پیئرسن نے رنگوُڈائٹ کو اپنے پروفیشنل کیریئر کی سب سے اہم دریافت قرار دیا ہے۔ وہ گہرائی میں پائے جانے والے ہیروں اور دیگر معدنیات کے ماہر ہیں۔ رنگوُڈائٹ کی دریافت اُن تمام سائنس دانوں اور ٹیکنالوجسٹس کی محنت کا پھل ہے جو کم و بیش پانچ عشروں سے زمین کی گہرائی میں چٹانوں کی نوعیت اور مجموعی طور پر پورے کرۂ ارض کی نوعیت کو سمجھنے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زمین اس قدر متحرک اس لیے ہے کہ اِس کی گہرائی میں پانی کی بہت بڑی مقدار موجود ہے۔ پانی ہی ہمارے سیارے کی نوعیت اور کام کرنے کی صلاحیت و سکت کو بدلتا ہے۔
زمین کی گہرائی میں پانی کے وسیع ذخیرے کی موجودگی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ زمین کے اندر بہت سی قوتیں کام کررہی ہیں اور وہی ہماری زمین کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ زمین محض مٹی، پتھر اور چٹانوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک زندہ وجود کا نام ہے جو اللہ کی قدرت کے شاہکار کی شکل میں ہمیں میسر ہے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں، اور جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ خودبخود ہورہا ہے اُن کے لیے رنگوُڈائٹ کا وجود اس بات کی دلیل ہے کہ جس نے یہ سیارہ بناکر ہمیں اِس پر آباد کیا ہے اُسے ہماری مستقبل کی ضرورتوں کا بھی احساس ہے اور اِسی لیے زمین کی اچھی خاصی گہرائی میں پانی کا بہت بڑا ذخیرہ رکھا ہے تاکہ ہم متعلقہ ٹیکنالوجی کی مدد سے اُسے نکال کر اُس وقت استعمال کریں جب روئے ارض پر ہمارے لیے پانی یا تو بہت کم رہ جائے یا ختم ہوجائے۔
(یہ مضمون www.earth.com کے اسٹاف رائٹر Eric Ralls کے مقالے سے ماخوذ ہے۔)