’’تب بگولے میں سے خداوند عالم نے ایوبؑ کو جواب دیا…‘‘
پادری نے بائبل بند کردی، چارلس کرسی کی پشت سے سر ٹکائے آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا۔ اس نے چونک کر پادری کو دیکھا…
’’ان تینوں دانش مند دوستوں کے نام کیا تھے جو ایوب ؑکو سمجھانے آئے تھے؟‘‘
’’ایلی ہْو۔ بل داد۔ اور ایلی فاز…‘‘ پادری نے جواب دیا۔
’’ایلی ہْو، بل داد، اور ایلی فاز‘‘۔ چارلس نے ذرا اْکتائی ہوئی آواز میں دہرایا۔ اور پھر آنکھیں بند کرلیں۔ اس کا ذہن کہیں اور بھٹک رہا تھا کیونکہ وہ بہت دیر سے سوچ رہا تھا… کرنل جوئیل جو مکان میں مقیم تھا وہ بھی اسی رات ان شعلوں میں بھسم ہوا، تم بھی اس کے ساتھ جل کر کوئلہ ہوئیں۔ تمہارا خوب صورت جسم کوئلہ بنا۔ تم مرتے وقت بھی مجھ سے بے وفا تھیں۔ افسوس، افسوس، افسوس۔
اس نے میز پر سے نیا عہد نامہ اْٹھایا اور صفحے اْلٹنے لگا۔ اسے بھی ’’یوحنا کے مکاشفے‘‘ نے متوجہ کیا اور سب سے پہلے اس کی نظر پڑی…’’اور پھر جب میں نے نگاہ کی تو آسمان کے بیچ میں ایک عقاب کو اْڑتے دیکھا۔ اور بڑی آواز سے کہتے سنا کہ ان تینوں فرشتوں نے نرسنگوں کی آوازوں کے سبب سے جن کا پھونکنا ابھی باقی ہے زمین کے رہنے والوں پر افسوس، افسوس، افسوس۔
’’اور ان سات فرشتوں میں سے جن کے پاس سات پیالے تھے، ایک نے مجھ سے کہا آ میں تجھے اس بڑی کسبی کی سزا دکھائوں جو بہت سے پانیوں پر بیٹھی ہے…‘‘
چارلس بارلو نے زور سے کتاب بند کرلی۔ یہ سطور بابل کے متعلق ہیں۔ لندن… وائلیٹ بارلو… مرحومہ… کے متعلق بھی نہیں۔ بابل… بابل… بابل… اب میں بیمار پڑ جائوں گا۔ اب مجھے حاضری کھانا چاہیے۔ اب مجھے…
کادیری کے کنارے اُجاڑ بنگلہ… پدما کے کنارے اْجاڑ بنگلہ… اْجاڑ… ’’عبدل‘‘ اس نے زور سے آواز دی۔
عبدالغفور اچانک سامنے آن موجود ہوئے۔ وہ بے حد ملول اور پریشان نظر آرہے تھے۔ ’’صاحب چل کر تھوڑا سا حاضری کھا لیجئے۔ اب تین بج رہا ہے‘‘۔
چارلس بارلو نے انتہائی مشکور نگاہوں سے اولڈ عبدل کو دیکھا۔ ’’اچّا۔ تھینک یو عبدل… پادرے میرے ساتھ لنچ کھا کر جائو‘‘۔
’’تھینک یو، مسٹر بارلو‘‘۔
وہ دونوں کھانے کے کمرے میں گئے۔ میز پر بیٹھ کر پادری نے گریس پڑھی۔ سُوپ کے بعد عبدالغفور نے باقی کورس خاموشی سے سرو کئے۔ اسی خاموشی سے کھانا ختم کرکے چارلس اور پادری باہر نکلے۔
’’پادرے۔ میں ایلس کو آج ہی پبنہ ٹرنک کال کردوں گا کہ وہ روزی کی خیریت معلوم کرلیں۔ مگر افسوس ہے کہ میں رہائی کی کوشش نہیں کرسکتا۔ ہاں اگر وہ معافی مانگ لے‘‘۔
’’وہ معافی نہیں مانگے گی‘‘۔
’’تو پھر میں بھی کچھ نہیں کرسکتا، پادرے‘‘۔ چارلس نے پادری کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ’خدا حافظ پادرے‘‘۔
’’خدا حافظ، گوڈ بلیس یْو۔ مسٹر بارلو‘‘۔
چارلس بارلو اندر چلا گیا۔ پادری بنرجی نے ہیٹ ریک میں سے چھتری اْٹھائی۔ اب ان کے قدم من من بھر کے ہوچکے تھے۔ اب ان کو معلوم تھا کہ روزی کی قسمت میں بہت طویل قید ہے۔ عمر قید…
وہ سرجھکائے جوں کی چال چلتے برساتی سے باہر نکلے اور پھاٹک تک اس طرح پہنچے جیسے کسی جنازے کے ساتھ جارہے ہوں… پھاٹک پر کھڑے ہو کر انہوں نے آسمان دیکھا۔ پھر سوچا اب کدھر جائوں۔ بارش بہت دیر سے تھمی ہوئی تھی۔ وہ پھاٹک سے باہر آکر ایک طرف کو چند قدم چلے، پھر تذبذب کے عالم میں ٹھٹھک گئے۔ پھر چلنے لگے۔
(25)
نواب قمر الزماں چودھری
نواب قمر الزماں چودھری پچھلی سیٹ پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے چھڑی کی نقرئی موٹھ پر ہاتھ دھرے اپنی سیاہ بیوک میں ارجمند منزل کی طرف جارہے تھے۔ جو ڈی ایمز ہائوس سے چند فرلانگ پر واقع تھی۔ وہ اپنے گھر کے قریب پہنچ چکے تھے، جب ان کو پادری بنرجی کچھوئے کی چال چلتے منہ اُٹھائے ایک طرف کو جاتے نظر آئے۔ ان کے چہرے کی حالت دیکھ کر نواب صاحب کا دل دہل گیا۔ انہوں نے موٹر رکوائی اور اُتر کر پادری کے پاس پہنچے۔
پادری نے ان کو دیکھا اور یک لخت اطمینان کی سانس لی۔ نواب قمرالزماں اس وقت ڈوبتے کو تنکے کا سہارا معلوم ہورہے تھے یا فرشتۂ رحمت۔ نواب صاحب نے خاموشی سے ان کو اپنے برابر کار میں بٹھایا۔ وہ صبح کا اخبار پڑھ چکے تھے۔
ارجمند منزل پہنچ کر وہ برآمدے میں پڑے صوفے پر بیٹھ گئے۔ پادری کو بٹھایا اور چائے منگوائی۔ سامنے لان پر مالا نیئر الزماں کے نوزائیدہ بچے کو گود میں لیے ٹہل رہی تھی۔ اندر گرامو فون بج رہا تھا۔
پادری بنرجی نے جیب سے اخبار نکال کر نواب صاحب کے سامنے پیش کیا۔
’’میں پڑھ چکا ہوں۔ بنگلہ اخباروں میں زیادہ مفصل خبریں ہیں‘‘۔ انہوں نے آہستہ سے کہا۔ شیر چائے لے کر آیا۔
’’میں ابھی ڈی ایم کے پاس گیا تھا۔ اس نے کوئی مدد کرنے سے صاف انکار کردیا‘‘۔
نواب صاحب نے چائے بنائی۔
’’ڈی، ایم کی بیوی لندن کی بمباری میں ماری گئی اور آبائی مکان بھی جل گیا‘‘۔
اب نواب صاحب نے آنکھیں پھیلا کر پادری کو دیکھا۔ پادری اس وقت ایک سیاہ پوش پیغامبر نظر آرہا تھا۔ جس کے پاس بْری خبروں کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔
’’اللہ رحم کرے‘‘۔ نواب صاحب نے آہستہ سے کہا۔
اچانک پادری کھڑا ہوگیا۔ ’’نواب صاحب میں ڈاکٹر سرکار سے ملنا چاہتا ہوں۔ اسی وقت فوراً‘‘۔
صدمے کی وجہ سے پادری بوکھلا گیا ہے۔ بے چارہ۔ بے چارہ۔
’’آپ بیٹھئے پادری صاحب۔ میں بنوئے بابو کو ابھی بلواتا ہوں۔ کیا وہ آپ کی کچھ مدد کرسکیں گے؟‘‘۔
’’میں ڈاکٹر سرکار سے بات کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ پادری نے دہرایا۔
نواب نے تالی بجائی۔ ٹہلتی ہوئی مالا قریب آئی۔
’’ڈرائیور حاضر ہوا۔
’’بنوئے بابو کو فوراً ساتھ لے آئو۔ کہنا بے حد ضروری کام ہے‘‘۔
پادری اور نواب چپ بیٹھے رہے۔
کچھ دیر بعد موٹر دوبارہ برساتی میں داخل ہوئی۔ چادر لپیٹے بنوئے بابو وقار سے سیڑھیاں چڑھے۔ نواب نے اْٹھ کر ان کا استقبال کیا اور قریب کی کرسی پر بٹھایا۔ بنوئے بابو نے پادری کو نمسکار کیا اور نواب سے پوچھا۔ ’’میں ابھی ابھی فرید پور سے واپس آیا ہوں۔ نہا کر سفر کے کپڑے بھی نہیں بدلے کیا بات ہے۔ خیریت؟‘‘
’’خیریت؟‘‘ پادری ایک دم برس پڑا۔ ’’میں آپ کو بتانا چاہتا تھا، یہ سب کچھ آپ کی لڑکی کی وجہ سے ہوا… سب کچھ‘‘۔
بنوئے بابو نے حیرت سے پہلے پادری کو دیکھا اور پھر نواب کو۔
’’تمہیں نہیں معلوم بنوئے‘۔ نواب نے آہستہ آہستہ کہا۔ ’’روزی کل صبح اِشرڈی کی بغاوت میں پولس چوکی پر حملہ کرتی ہوئی قید کرلی گئی۔ پولس فائرنگ سے کئی حملہ آور مارے گئے۔ روزی کے سخت زخمی ہونے کی اطلاع خبر میں شامل ہے۔ یہ کل رات کی خبر ہے۔ یہ شاید کل صبح کے اخباروں سے معلوم ہوگا کہ اس کا کیا حال ہے اور کس جیل میں بھیجا گیا ہے۔ زخمی قیدیوں کو تو شاید جیل کے اسپتال میں رکھا جاتا ہے‘‘۔
اندر کسی کمرے میں نیئرالزماں گرامو فون بجا رہے تھے۔ اچانک نذرل کا ریکارڈ بجنا شروع ہوا۔ توڑو۔ پھوڑو۔ مارو۔ آگ لگادو۔ آندھی طوفان بن جائو۔ میں سرکش ہوں۔ اصول شکن۔ بربادی کا دیوتا۔ باغی۔ میں ہمیشہ سربلند رہوں گا۔
’’لاحول ولاقوۃ‘‘۔ ’’اسٹاپ اِٹ‘‘۔ نواب نے بے حد آزردگی کے ساتھ زور سے آواز دی۔
گیت ختم ہوگیا۔
پادری نے سر اْٹھا کر بنوئے بابو پر نظر ڈالی۔ اتنی دیر میں شاید وہ اپنے غصہ پر قابو پاچکے تھے۔ انہوں نے سپاٹ آواز میں کہا۔ ’’بنوئے بابو میری فرمانبردار بچی کو دیپالی نے اس راستہ پر لگایا۔ اسے دیپالی کی صحبت نے برباد کیا۔ بس میں آپ سے اِتنا ہی کہنا چاہتا ہوں۔ اور یہ بھی کہ باپ کی حیثیت سے آپ کا فرض تھا کہ آپ دیپالی کو غنڈوں سنگت سے روکتے۔ میں نے اپنے بھرپوری کوشش کی۔ اپنی بچی کو بچانے کی۔ مگر اس کے دماغ میں زہر بہت اچھی طرح بھرا جاچکا تھا‘‘۔
’’آپ لوگ سب غالباً مجھے ایک رجعت پسند مسلمان زمیندار سمجھتے ہیں۔ مگر لڑکیوں کی آزادی کے یہی سب نتائج ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے اپنی لڑکیوں کو اجازت نہیں دی کہ گھر سے قدم نکالیں‘‘۔ نواب نے کہا۔
’’مجھے معلوم نہیں کہ دیپالی کس حد تک سیاسی مشاغل میں حصہ لیتی ہے۔ اس نے ایک دفعہ مجھ سے وعدہ کرلیا تھا کہ وہ ٹررسٹ تحریک میں شامل نہ ہوگی۔ اور میں نے اس کے قول کا اعتبار کیا ہے۔ علاوہ ازیں اگر وہ مجھ سے چھپا کر کسی سیاسی تحریک میں شامل ہے تب بھی میں کچھ نہیں کرسکتا تھا نہ اْسے منع کرسکتا ہوں۔ ہر نئی نسل اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ آپ نے بھی اور میں نے بھی اپنے اپنے طریقے سے اپنے لیے نئے راستے تلاش کئے تھے۔ منو موہن بابو۔ آئیے خدا سے اْمید کریں کہ روزی خیریت سے ہو۔ آپ پر اس وقت جو بیت رہی ہے وہ میں سمجھ سکتا ہوں۔ دینیش بھی…‘‘ پھر وہ چپ ہوگئے۔
ملازم نے پیچوان لا کر نواب صاحب کے پاس رکھا۔ پادری نے سر اْٹھا کر دفعتاً نواب کو مخاطب کیا۔ ’’اور آپ بھی… آپ کا انگریز کے چلے جانے سے کیا فائدہ ہوگا؟ نہرو نے دسیوں بار کہا ہے، رجواڑے ختم کردیئے جائیں گے‘‘۔
نواب حقّہ گڑگڑاتا رہا۔ سیاست حد سے زیادہ گنجلک ہوگئی ہے۔ اللہ اکبر۔ یہ خستہ حال کالا پادری اور یہ خستہ حال ڈاکٹر۔ ان دونوں کو غالباً آزادی سے فائدہ ہوگا۔ مگر واقعی مجھے کیا فائدہ ہوگا۔ ریاست البتہ چلی جائے گی۔ میں نے اقتصادی پہلوئوں پر زیادہ غور نہیں کیا۔ مگر اقتصادی مسائل پر غور کرکے رونو نے پہلے ہی کافی آفت مچا رکھی ہے۔
رونوں کے خیال نے انہیں یک لخت بے حد مضطرب اور ملول کردیا۔ وہ پیچوان گڑگڑایا کئے۔
پھر انہوں نے پادری سے کہا۔ ’’منوموہن بابو۔ میں بھی سمجھ سکتا ہوں، آپ کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی۔ مجھے جب اپنے لاڈلے بھانجے کا خیال آتا ہے تو میرا دل بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے۔ اس نے کس طرح میری ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ تم نئی نسل کی بات کرتے ہو بنوئے۔ یہ بڑی احسان فراموش، نمک حرام نئی نسل ہے۔ پچھلے سال تمہاری بچی مجھ سے بحث کرنے لگی۔ قربانی اور تیاگ۔ یہ اور وہ۔ میں اس بچی سے کیا کہتا کہ سیاست کی قربان گاہ پر میں اپنی مسرتوں کی قربانی دے چکا ہوں۔ میرے ہونہار۔ بھانجے کو سیاست ہڑپ کرگئی‘‘۔
’’تمہارا کون بھانجا کومر میاں؟‘‘ بنوئے بابو نے پوچھا۔
’’تم سے بنوئے برسوں میری ملاقات نہیں ہوتی۔ تم میرے حالات سے اجنبی ہوچکے ہو۔ یوں بھی اس قصہ کو بھلائے رکھنا ہی میرے لیے بہتر ہے۔ میں اپنی اس ٹریجیڈی اور اپنی بیٹی کی بدقسمتی کی ہر ممکن پردہ پوشی ہی میں عافیت سمجھتا ہوں۔ رہنے دو یوں ہی بات سے بات نکل آئی‘‘۔
’’سوری کومر میاں۔ مجھے معلوم نہ تھا‘‘۔
مگر اب نواب آہستہ آہستہ پیچوان گڑگڑاتا اور کہتا رہا۔ ’’میری آنکھوں کا تارا۔ میری مرحومہ بہن کی نشانی۔ میرا لاڈلا۔ جس پر فخر کرتے کرتے میں پھولا نہ سماتا تھا۔ جس کی میں نے زندگی بنادی۔ اور اس نے میرے ساتھ… میری لڑ… میرے ساتھ کیا کیا؟… یہی… منوموہن بابو… یہی۔ توڑو۔ پھوڑو۔ آگ لگادو۔ اینٹ سے اینٹ بجادو۔ منوموہن بابو۔ آپ اور میں اور بنوئے ہم سب ایک نائو میں سوار ہیں۔ رونو۔ روزی۔ دیپالی۔ یہ سب مل کر ہم کو اس چیز کی سزا دے رہے ہیں کہ ہم نے ان کے لیے ایک محفوظ دنیا تخلیق کی تھی۔ یہ لوگ اسی لیے پیدا ہوئے ہیں کہ اس محفوظ اور مامون دنیا کے معماروں کو نیست و نابود کردیں‘‘۔
’’مگر کس لیے…؟‘‘ پادری نے پوچھا۔ ’’نیست و نابود کرنے کے بعد یہ کس قسم کی دنیا بنائیں گے؟‘‘
’’اس بات کا جواب میرے پاس نہیں ہے‘‘۔ نواب نے افسردگی سے کہا۔
بنوئے بابو صوفے سے اُٹھے۔ پادری صاحب بھی اُٹھے۔ ’’مجھے معاف کردینا بنوئے بابو، میں ہوش و حواس کھو بیٹھا ہوں‘‘۔ بنوئے بابو نے پادری کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
نواب صاحب کرسی ہٹا کر پادری کے نزدیک آئے۔
’’منو موہن بابو۔ اللہ برا مسبب الاسباب ہے۔ دُعا کرتے رہئے۔ روزی یقینا ًخیریت سے بہت جلد گھر لوٹے گی‘‘۔
(جاری ہے)