’’اُف اللہ کیسی سزا ہے۔ پہلے بھرے پوائنٹ کے دھکے کھا کر گھر پہنچو۔ پھر تھکن سے چُور کھڑے ہوکر روٹیاں بنائو۔ پھر سب کے کھانے کے بعد کچن کی صفائی کے بعد آرام کرو۔ کیا فائدہ اس زندگی کا!‘‘ زہرہ نے غصے سے سوچا۔
اگلے دن شام کو امی کے پاس بیٹھی ان سے بولی ’’امی! بھابھی سے کہیں نا وہ دوپہر کی روٹیاں بنالیں۔ اگر وہ آفس جاتی ہیں تو میں بھی تو یونیورسٹی جاتی ہوں نا۔‘‘
اس پر امی بولیں ’’بیٹا! کتنا تھک کر وہ آتی ہے۔ پھر گھر سمیٹتی ہے اور بچوں کو بھی دیکھتی ہے۔ اس کے ساتھ میں کیسے اسے روٹیوں کی ذمے داری دے دوں!‘‘
خیر کچھ رو دھو کر وہ چپ ہورہی۔ یونیورسٹی سے آکر روٹیاں بنانا، کچن سمیٹنا اب اس نے قبول کرلیا تھا۔ اس پر امی بھی اُس کی تھوڑی بہت مدد کردیتیں اور کہتیں کہ ’’لڑکیوں کو سارے کام آنے چاہئیں، پتا نہیں کیسا سسرال ملے۔‘‘
ماسٹرز کے بعد اس کی شادی ہوگئی۔ متوسط طبقے کی ہونے کے باعث وہی ’’چند دن کی چاندنی پھر اندھیری رات‘‘ کے مصداق کچھ ہی عرصے میں کچن اور گھرکے جھمیلوں میں اسے کچھ اور نہ سوجھتا۔
کچھ ہی دنوں میں ثنا اپنے معمول سے اکتا گئی۔ اپنے شوہر اور ساس کی حمایت کے ساتھ کچھ تگ و دو کے بعد اسے ایک اچھی فرم میں نوکری مل گئی۔
شروع میں تو وہ بہت خوش تھی۔ طرح طرح کے میک اَپ، جیولری، ہر طرح سے نک سک سے تیار ہونا۔ اس کے بعد آفس کے چپڑاسی سے آفیسر تک کی نظروں کا نشانہ بننا اور مختلف طریقوں اور اشاروں کنایوں سے ہونے والی حرکات… وہ چاہتی تھی کہ گھر میں یہ باتیں اپنے شوہر سے کہے، لیکن ایک تو اس طرح اپنی جاب سے ہاتھ دھونا پڑتے، دوسرے اس کی شادی شدہ زندگی پر برے اثرات پڑسکتے تھے۔
کوئی اس کی ماں کی طرح نہیں سوچتا تھا۔ وہ گھر آکر بھی سارا کام سنبھالتی۔ ’’کیسی زندگی ہے میری، ماں کے گھر بھی کبھی سکون نہ ملا، سسرال بھی ایسا ملا کہ کبھی یہ نہ ہوا کہ سکون کے دو پل ہی نصیب ہوجائیں‘‘۔ وہ کبھی کبھی بڑے دکھ اور کرب سے سوچتی۔
ایک روز وہ رات دعوت کی وجہ سے دیر تک سو نہ سکی۔ صبح یاد آیا کہ نہ تو کپڑے استری ہیں نہ ہی کچھ تیار… اسے جلدی پہنچنا تھا۔
جلدی جلدی الماری میں لٹکے کپڑوں میں اچانک اسے کچھ نظر آیا۔ وہ اٹھی، پانچ منٹ میں تیار ہوکر باہر آئی۔ سب سو رہے تھے۔ شوہر اور گھر والوں کے لیے ناشتہ تیار کرکے آفس کے لیے نکل گئی۔
آج سب کچھ کتنا بدلا بدلا محسوس ہورہا ہے۔ آفس میں بھی سب اس سے کس قدر احترام اور شائستگی کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔ آج وہ چبھتی نظریں، ذومعنی الفاظ سب جیسے کہیں غائب ہوگئے۔
لنچ ٹائم میں وضو کرنے جب وہ واش روم پہنچی اور اپنے سراپے کا جائزہ لیا تو اسے یہ احساس ہوا کہ آج سے پہلے وہ خود کو کتنی مشکلات میں رکھے ہوئے تھی۔
آج شوہر کا لایا ہوا عبایا اس کے خوب صورت رنگ روپ اور وقار میں اضافہ کررہا تھا۔ وہ محو ہوکر کئی منٹ اپنے سراپے کو آئینے میں دیکھتی رہی… اور ایک عزم مصمم لیے آفس سے گھر پہنچی۔ اگلی صبح سب نے ایک باوقار اورشائستہ خاتون کو گھر سے دفتر جاتے دیکھا۔ وہ بہت خوش تھی، کیوں کہ ایک طرف تو وہ اپنے رب کو راضی کررہی تھی اور دوسری جانب اپنے آپ کو حجاب میں محفوظ کرکے ایک خوب صورت اور پُرسکون احساس سے محظوظ ہورہی تھی۔
nn