پادری بنرجی حیران پریشان بیٹھے رہے۔ مس ایلس بارلو کے نام خط قالین پر گر پڑا تھا۔ اُسے اُٹھا کر دوبارہ جیب میں رکھا اور صبر سے چپکے بیٹھ گئے۔
پندرہ منٹ، آدھ گھنٹہ، پینتالیس منٹ، ایک گھنٹہ۔
پورا ایک گھنٹہ گزر گیا۔ تب پادری بنرجی لائبریری سے باہر نکلے۔ کوٹھی پر ایک دم ہُو کا عالم طاری تھا۔ وہ سیڑھیاں اُتر کر شاگرد پیشے کی طرف روانہ ہوگئے۔ جس کے نزدیک سارے ملازم ایک ہجوم کی صورت میں جمع آپس میں کھسر پھسر کررہے تھے۔ عبدالغفور ان کی طرف آئے۔
’’کیا بات ہے عبدل‘‘۔
’’صاحب!‘‘ عبدالغفور نے دھیرے سے کہا۔ اور ان کو ساتھ لے کر باغ کی روش پر آگئے۔ خوبصورت ڈک پونڈ میں بطخیں بڑے سکون سے تیر رہی تھیں۔ دور مرغی خانے میں ایک مرغی کٹ کٹائے جارہی تھی۔ باورچی خانے کی چمنی میں سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔
’’صاحب‘‘۔ عبدالغفور نے کہا۔ ’’میم صاحب گزر گئیں‘‘۔
’’گوڈ ہیومرسی۔ کیسے عبدل؟‘‘
’’صاحب بیڈ روم میں بت بنا بیٹھا ہے۔ ابھی اس نے مجھے آواز دی تھی۔ میں اندر گیا تو آہستہ سے بولا۔ عبدل۔ ہمارا میم صاحب گزر گیا۔ ولایت سے تار آیا ہے۔ جرمن والا بم گرارہا تھا۔ راکٹ بولتے ہیں۔ کیا بولتے ہیں‘‘۔
’’دی ٹو راکٹ‘‘۔
’’جی پادری صاحب، وہ بدھ کی رات کو صاحب کے مکان پر گرا۔ مکان جل کر راکھ ہوگیا۔ میم صاحب اندر سو رہی تھی، وہ بھی…‘‘۔
’’مگر اُدھر تو عبدل ایر ریڈ کا بھونپو بجتا ہے۔ سب لوگ تہہ خانوں میں چلا جاتا ہے‘‘۔
’’معلوم نہیں، صاحب نے اتنا ہی بولا۔ اور بولا کہ بابا لوگ لندن سے باہر اسکول کے بورڈنگ میں ہے، اس وجہ سے وہ بچ گیا۔ اور بیٹی مس صاحب بھی بچ گئی۔ اس کو میم صاحب نے بڈھا لوگ کے ہوم میں ڈال دیا تھا‘‘۔
’’شکر ہے‘‘۔
’’صاحب نے بولا ہے پادری صاحب سے کہو ہم ابھی آتے ہیں‘‘۔
’’اچھا۔ تھینک یو عبدل‘‘۔
عبدالغفور واپس چلے گئے۔ پادری بنرجی واپس آکر لائبریری کے سامنے والے برآمدے میں ٹہلنے لگے۔
بوٹ کی چاپ سنائی دی۔ چارلس بارلو برآمدے میں نمودار ہوا۔ پادری بنرجی اس کی طرف بڑھے۔
’’مسٹر بارلو‘‘۔
’’پادرے بدھ کی رات کو مسز بارلو کا ایرریڈ میں انتقال ہوگیا‘‘۔
’اس کی مرضی پوری ہو‘‘۔
’’آئیے بیٹھئے‘‘۔ اُس نے پھولدار گدیلوں والی بید کی ایک کرسی کی طرف اشارہ کیا اور خود دوسری کرسی پر بیٹھ گیا۔
چند منٹ خاموشی چھائی رہی۔ باغ میں چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ فطرت اسی بے نیازی سے زندہ رہتی ہے۔
’’غم نہ کیجئے مسٹر بارلو، مسز بارلو ایک بہت بہتر جگہ چلی گئیں‘‘۔
’’بہتر جگہ…؟ آپ کو کیسے معلوم۔ اس وثوق سے کس طرح کہتے ہیں؟‘‘ چارلس نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’بہتر جگہ صرف یہ دنیا ہے۔ باقی آپ لوگوں کی خام خیالی اور خوش فہمی ہے‘‘۔
پادری بنرجی خاموش رہے۔
پادری بنرجی ذاتی کرائسس کے مواقع پر اسرار ربانی سے لا علم انسانوں کے منہ سے اس قسم کے کلمات کفر سننے کے عادی تھی۔ انہوں نے جیب سے بائیبل نکالی اور تئیسواں لحن پڑھنا شروع کیا کہ تئیسواں لحن جادو کا اثر رکھتا ہے۔
خداوند خدا میرا گڈریہ ہے، مجھے کوئی ڈر نہیں وہ مجھے ہری چراگاہوں میں آرام کرواتا ہے، وہ مجھے خاموش پانیوں کے کنارے کنارے لے جاتا ہے۔پادری بنرجی نے کتاب گود میں رکھی اور پڑھنا شروع کیا۔
اور گو میں موت کے سائے کی وادی میں چل رہا ہوں… لیکن ان کے ساتھ لحن کی تلاوت کرنے کے بجائے چارلس تیوری پر بل ڈالے سر ہلائے جارہا تھا۔ اور اس کا ذہن کہیں اور تھا۔ پادری بنرجی نے لحن ختم کرکے بائیبل کے ورق گردانی شروع کی تا کہ کوئی اور سکون بخش حصہ پڑھ کر سنائیں۔ مگر عجیب بات تھی کہ ہر صفحے پر ان کی نظریں بڑی پریشان کن سطرح پر ہی جاپڑتی تھیں۔
اے یعقوب! تم اپنی ان مصیبتوں پر جو آنے والی ہیں رئود اور واویلا کرو، تمہارا مال بگڑ گیا، تمہاری پوشاکوں کو کیڑا کھا گیا، دیکھو! جن مزدوروں نے تمہارے کھیت کاٹے ان کی وہ مزدوری جو تم نے دغا کرکے ضبط کرلی تھی۔ چلاتی ہے۔ اور فصل کاٹنے والوں کی فریاد رب الافواج کے کانوں تک پہنچ گئی۔ دیکھو منصف دروازے پر کھڑا ہے۔
پادری بنرجی نے گردن آگے بڑھا کر ورق پلٹے۔ یوحنا کا مکاشفہ…
خدا کا بیٹا جس کی آنکھیں آگ کے شعلے کے مانند اور پائوں خالص پیتل کے مانند ہیں فرماتا ہے کہ تیرے کاموں اور محنت اور ایمان اور خدمت اور صبر کو تو جانتا ہوں اور یہ بھی… اور آگے…
اور جب اس نے چھٹی مہر کھولی تو میں نے دیکھا کہ سورج کمبل کے مانند کالا اور سارا چاند خون سا ہوگیا اور ستارے انجیر کے درختوں کے کچے پھلوں کی طرح گر پڑے۔ آسمان اس طرح سرک گیا جس طرح مکتوب لپٹنے سے سرک جاتا ہے۔
پھر آسمانوں پر لڑائی ہوئی اور…
پھر میں نے شیشے کا سا ایک سمندر دیکھا جس میں آگ ملی ہوئی تھی…
شہر بابل گر پڑا۔ زمین کے بادشاہ جب اس کے جلنے کا دھواں دیکھیں گے تو اس کے لئے روئیں گے اور دُنیا کے سوداگر اس کے لیے ماتم کریں گے۔ اور سب ناخدا اور مسافر اور ملاح دور کھڑے اپنے سروں پر خاک ڈالیں گے کہ افسوس افسوس وہ بڑا شہر جس کی دولت سے سمندر کے جہاز والے دولت مند ہوئے۔
پھر میں نے آسمان کو کھلا ہوا دیکھا۔ اور کیا دیکھتا ہوں ایک سفید گھوڑا ہے اور اس پر ایک سوار ہے، وہ خون آلود پوشاک پہنے ہے اور قوموں کے مارنے کے لئے اس کے منہ سے ایک تیز تلوار نکلتی ہے… اور …
پھر میں نے ایک فرشتے کو آفتاب پر کھڑا دیکھا اور اس نے بڑی آواز میں چلا کر آسمان میں اُڑنے والے سب پرندوں سے کہا اور خدا کی بڑی ضیافت میں شریک ہونے کے لیے جمع ہوجائو تا کہ تم بادشاہوں کا گوشت اور فوجی سرداروں کا گوشت اور گھوڑوں اور ان کے سواروں کا گوشت کھائو۔
پھر میں نے ایک نئے آسمان اور نئی زمین کو دیکھا۔ کیونکہ پہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہی تھی اور سمندر بھی نہ رہا۔
اور روح اور دلہن کہیں آ اور سننے والا بھی کہے آ اور جو پیاسا ہو وہ آئے اور آب حیات لے۔
پادری بنرجی نے گہرا سانس لے کر نیا عہدنامہ بند کردیا اور سوچ میں ڈوب گئے۔
تب چارلس کی بھاری آواز نے انہیں چونکایا۔
’’پادرے! مجھے ایوبؑ کی گریہ و زاری سنائو‘‘۔
’’بہت اچھا۔ اور آپ بھی صبر ایوبؑ سے سبق لیجئے۔ مسٹر بارلو‘‘۔
’’سبق بعد میں لوں گا۔ تم مجھے پہلے اس کی گریہ و زاری…‘‘
’’خاموش مسٹر بارلو‘‘۔ پادرے نے دفعتہ ڈانٹ کر کہا…‘‘ بہت بے ادبی کرلی۔ اب خاموش‘‘۔
سَوری پادرے‘‘۔
پادری نے دوبارہ عینک کا کیس کھولا، عینک تبدیل کی، اور جیب سے مداری کی طرح پرانا عہد نامہ نکالا۔
’’جستہ جستہ پڑھ کر سنائوں گا، بہت طویل باب ہے…
’’اور پھر ایوبؑ راکھ میں بیٹھ گیا۔ اور اس کے تین دوست پُرسے کو آئے، اور انہوں نے خاک سروں پر ڈالی اور اس کے ساتھ زمین پر بیٹھ رہے۔ اور سات دن اور سات رات زمین پر بیٹھے رہے۔ اور ایوب نے کہا، لعنت ہو اس دن پر جب میں پیدا ہوا تھا، میرے جسم پر کیڑے رینگ رہے ہیں، میری کھال اکھڑ گئی، میرے دن جولاہے کی تکلیوں کی مانند تیز رفتار ہیں۔ میری زندگی ہوا بن گئی۔
’’خدا بے گناہوں کے مصائب پر ہنستا ہے اس نے زمین کو ظالموں کے حوالے کردیا۔ منصفوں کے چہرے چھپادیئے۔ میری زندگی تیز رفتار جہاز کی مانند گزر رہی ہے۔ مجھے اپنے غموں سے ڈر لگتا ہے۔
’’میں خدا سے کہوں گا تجھے زیب دیتا ہے خداوند کہ اپنے بندے سے متنفر ہو اور ظالموں کا ساتھ دے؟ کیا تو بھی انسان ہے؟ ڈاکو عیش کررہے ہیں اور خدا ان کو بڑھاوا دیتا ہے وہ قوموں کو ترقی دیتا ہے اور تباہ کرتا ہے اور پھر ترقی دیتا ہے۔ میری آنکھوں نے یہ سب کچھ دیکھا۔ کانوں نے سنا، اور عقل نے سمجھا۔ اور اب میں خدا سے ذرا منطقی جرح کرنا چاہتا ہوں۔
’’ابن حوّا کی مختصر زندگی کلفتوں سے پُر ہے وہ پھول کی طرح کھلتا ہے اور کٹ کر گر جاتا ہے۔ سائے کی طرح غائب ہوجاتا ہے۔ پانی کی خوشبو کٹے درخت کو ازسرنو زندگی بخشتی ہے۔ مگر ابن آدم ایک مرتبہ لیٹ جائے پھر نہیں اُٹھتا۔ اے کہ تو جب تک تیرا طیش زائل نہ ہو۔ مجھے قبر میں چھپائے گا۔ میں اپنے وقت کا منتظر ہوں۔
’’پانی پتھروں کو بہا لے جاتا ہے، تو انسان کی اُمیدوں پر پانی پھیرتا ہے۔ تو اس کی شکل بدل دیتا ہے۔ تو نے مجھے ہلکان، پاش پاش کردیا۔ میرے چہرے پر جھریاں ڈال دیں۔ مجھے جابروں کے حوالے کردیا۔ میری باگیں توڑ ڈالیں۔ میرا چہرا روتے روتے بدہیت ہوچکا ہے۔ میری پلکوں پر موت کا سایہ لرزاں ہے۔ اے زمین میرا خون نہ چھپا۔ میری شنوائی نہ کر، میری قبریں میرے لیے تیار ہیں۔ میری آنکھیں وفورِ غم سے دھندلا گئیں۔ مجھے تم سب میں ایک دانش مند نظر نہیں آتا۔ میرے مقاصد کا خاتمہ ہوا۔ل میرے خیالات تک ٹوٹ کر بکھر گئے۔ قبر میرا مکان ہے۔ میں نے اپنا بستر اندھیرے میں بچھایا ہے۔ میں نے جسم کی گلن سے کہا۔ تم میرے باپ ہو۔ کیڑوں سے کہا تم میری ماں اور بہنیں…
’’جانو کہ خدا نے مجھے اپنے جال میں گرفتار کیا۔ میری راہ میں روڑے اٹکائے، اور اندھیرا پھیلایا۔ اس کے لشکر نے میرے معبد کو گھیر لیا۔ میرے بھائی اور میرے عزیز اور میرے دوست مجھے بھول گئے ہیں اپنی بی بی کے لیے اجنبی ہوں، دوستو مجھ پر ترس کھائو کہ اس قہار و جبار کے ہاتھ نے مجھے چھولیا ہے۔
’’میں غموں کا شاکی نہیں۔ لیکن اشقیا بربط اور ارغنون بجاتے ہیں۔ جبکہ میں آگے بڑھتا ہوں تو مجھے خدا نہیں ملتا، پیچھے دیکھتا ہوں تو بھی نظر نہیں آتا۔ میں اس حاظر و ناظر کی موجودگی سے مضطرب ہوں، مجھے اس سے ڈر لگ رہا ہے۔ اس نے میرا دل گداز کردیا ہے۔
’’اہل ثروت حاجت مندوں کو اپنے راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔ مفلس سردی میں ٹھٹھرتے ہیں۔ کوہستانی بارش میں کانپ رہے ہیں۔ چٹانوں میں پناہ گزیں ہیں۔ امراء ان بھوکوں کا اناج چھینتے ہیں۔ جنہوں نے ان کے لئے کولہو چلائے، جو ان کے لیے شراب کشید کرکے خود پیاسے رہتے ہیں۔ جو شہر پناہ سے باہر کراہتے ہیں۔
’’میں نے خیر کی آرزو کی اور مجھے شرملا۔ روشنی کا منتظر رہا اور تاریکی پائی۔
’’جب وہ ربّ کریم میرے شامل حال تھا اور میری اولاد میرے ساتھ تھی، جب میں اپنی سیڑھیاں مکھن سے دھوتا تھا۔ میں شہر میں نکلتا تھا تو نوجوان مجھے دیکھ کر چھپ جاتے۔ بوڑھے تعظیماً اُٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ شہزادے بات کرتے کرتے خاموش ہوجاتے تھے۔ کیونکہ ان غرباء کا حامی و نگہبان تھا۔ میری جڑیں ندی کنارے پھیلی تھیں۔ میری شاخ پر شبنم گرتی تھی، میری عظمت و شوکت تروتازہ تھی، لیکن اب نوجوان جن کے باپوں کو میں اپنے گلّے کے کتوں کے ساتھ بھی نہ بٹھاتا، میری تضحیک کرتے ہیں، اور آندھی کی مانند مجھ پر حملہ آور ہیں۔ اور تب میں اْٹھ کر مجمع سے کہا۔ میں اڑدہے کا بھائی اور بْوم کا ساتھی ہوں۔ میری کھال جل گئی۔ میرا بربط رو رہا ہے۔ کیا خدا میری حالت نہیں دیکھتا۔ کاش وہ میری فریاد سنے، کاش میرے دشمن ایک کتاب لکھیں جسے میں اپنے کندھوں پر رکھوں اور تاج کی طرح پہنوں، اگر میری زمینیں میری وجہ سے نالہ کناں ہیں تو کاش گیہوں کے بجائے کوکھرد اور جَو کے بجائے گھاس پھونس ان پر اُگیں… ایوب کے الفاظ ختم ہوئے۔
(جاری ہے)