(دوسرا حصہ)
یوں تو وہ خدائے واحد… خدائے حقیقی کا سنگ در اپنے بے قرار سجدوں سے چھوتے ہی دنیا بھر کی غلامیوں کی لعنت سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو چکے تھے لیکن اس یہودی سے عہد غلامی کی ایک رسمی سی زنجیر ان کے پاؤں میں ابھی تک پڑی ہوئی تھی۔ یہ زنجیر خود خدا کے رسولؐ نے بہ نفیس نفیس اپنے ہاتھوں سے کاٹ دی۔ آپ نے حضرت سلمانؓ سے کہا کہ وہ اپنے یہودی آقا سے آزادی حاصل کرنے کا معاہدہ کر لیں۔ چنانچہ یہ بات طے پاگئی کہ جس دن وہ کھجوروں کے تین سو درخت لگا دیں گے اور چالیس اوقیہ سونا پیش کر دیں گے۔ اسی دن سے وہ یہودی کی غلامی سے آزاد سمجھے جائیں گے۔ خود رسولؐ خدا نے اپنے ہاتھ سے یہ درخت لگانے کے لیے حضرت سلمانؓ کے ساتھ باغ میں کام کیا اور جب ہدیہ کے طور پر ایک دن سونا آیا اور وہ ٹھیک چالیس اوقیہ نکلا وہ سونا بھی حضورؐ نے سلمان فارسی کو پیش کر دیا… خدا کی رحمت سے دونوں شرطیں پوری ہو گئیں اور اللہ کا غلام اللہ والوں کی صفوں میں آزادانہ شامل ہو گیا۔
اپنے گرم گرم آنسوؤں سے اپنی سجدہ گاہ کو تر رکھنے والا بندۂ مومن شہادت حق کے لیے بے تاب ہو کر سب سے پہلے جس جہاد میں شامل ہو سکا وہ غزوۂ احزاب کا وہ تاریخی معرکہ تھا جو محض اس بندۂ حق کی برکت سے غزوۂ خندق کے نام سے تاریخ میں مشہور ہوا۔ ایک معرکہ حق و باطل جہاں عرب کی تمام باطل قوتیں سر جوڑ کر اور کاندھے سے کاندھا ملا کر گرجتی کڑکتی گھٹاؤں کی طرح امنڈی آرہی تھیں… جہاں 24 ہزار خون آشام دشمن ،اسلام کے خلاف متحدہ محاذ بنا کر آئے تھے۔ وہاں خدا نے اپنے ایک بندے حضرت سلمان ہی کے دل کو اس تجویز کے القا کے لیے منتخب کیا جس کے نتیجہ میں باطل کی یہ طوفانی یلغار آگے بڑھنے کے بجائے تھک ہار کر الٹے پاؤں لوٹ گئی۔ عرب کی تاریخ میں پہلی بار یہ خندق کھود کر دشمن کی پیش قدمی روک دینے کی جنگی تدبیر تھی، جس کا مشورہ حضرت سلمان فارسیؓ ہی نے دیا تھا، اور رسولؐ خدا نے فوراً قبول کر لیا تھا۔
حضرت سلمانؓ کی تجویز کے مطابق جب اللہ کا رسول دس دس گز زمین کا قطعہ مجاہدوں کی مختلف ٹکڑیوں پر تقسیم کر رہا تھا… جب جہاد و عزیمت کی مقدس فضا میں رسولؐ کی ولولہ انگیز درد بھری آواز اس طرح ارتعاش پیدا کر رہی تھی:
’’میرے اللہ !… زندگی تو بس آخرت ہی کی زندگی ہے… تو ان سب کو بخش دے۔ جنھوں نے اپنا گھر بار چھوڑا اور ان کو بھی جنھوں نے تیرے ان بے سرو سامانوں کے لیے نصرت و اخوت ایمانی کے پر شوق بازو پھیلائے‘‘۔
جب پیغمبرؐ کی اس وجد انگیز پکار کے جواب میں تمام صحابہ … تمام مہاجر و انصار جوش و خروش میں چیخ اٹھے تھے۔
’’ ارے ہم ہیں وہ لوگ جنھوں نے محمدؐ کے ہاتھ پر یہ عہد کیا ہے کہ جب تک جان میں جان باقی ہے ہم راہ مولا میں جہاد کرتے رہیں گے۔ ’’ہاں۔ ٹھیک اسی ولولہ انگیز موڑ پر یہ بحث بھی گرم تھی کہ فارس والے سلمانؓ ہم میں سے کس کے ہیں ؟‘‘
’’سلمان ہمارے ہیں‘‘۔ مہاجرین نے کہا۔
’’سلمان تو ہمارے ہیں ‘‘۔ انصار نے بے تابانہ صدا بلند کی۔
’’سلمان تو ہمارے ہیں‘‘۔ خود پیغمبر پکار اٹھے۔ ’’سلمان تو ہمارے ہیں… ہمارے اپنے گھر کے آدمی‘‘۔
ان الفاظ کی صحیح قدر و قیمت کچھ وہی لوگ سمجھ سکتے تھے جو محمدؐ کی خاک پاک سے نسبت رکھنے کے مقابلے میں دنیا کے شاہی خزانوں پر بے جھجک ٹھو کر مار سکتے تھے۔ جذبات کی کیا کیفیت ہو گی اس سینے میں جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ’’اپنا‘‘ اور ’’اپنے گھر کا آدمی‘‘ فرما رہے تھے۔ حضرت سلمان فارسی کی روح یقیناً وجد کر رہی ہو گی۔ جب سیکڑوں روشن آنکھیں پیغمبر کے ان الفاظ کے بعد ان کے عظیم وجود پر رشک و عقیدت سے جم کر رہ گئی تھیں۔ ہائے یہ الفاظ جن کے لیے ہزار بار ایک مومن گھر بار لٹا سکتا ہے۔ اس عمر بھر کے دکھ درد کی کیسی اچھی قیمت ملی جو سالہا سال حضرت سلمانؓ اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی تلاش میں ہنستے کھیلتے چلے آرہے تھے۔
اور حق یہ ہے کہ اس نعمت عظمیٰ کی قدر و قیمت حضرت سلمانؓ نے جی جان سے پہچانی۔ انھوں نے پوری زندگی سمیٹ کر ان قدموں پر لا ڈالی کہ جو قدم جدھر اٹھ گئے ادھر خدا کی جنت کا راستہ بن گیا۔ آپ نے سچ مچ اپنے آپ کو رسالت میں فنا کر دیا تھا۔ جلوت و خلوت کے اس جاں نو از کیف نے جو حضرت سلمانؓ رسولؐ اللہ کی معیت میں جی بھر کر لوٹ رہے تھے۔ انھیں شمع رسالت کا پروانہ بنا دیا تھا۔ آہ وہ تقرب جو ہر لمحہ بڑھ رہا تھا… ہائے وہ نزدیکی جو ہر ساعت ترقی پذیر تھی… جہاں حضورؐ کے قلب و نظر کی چھاؤں میں حضرت سلمانؓ حیات و موت اور دنیا و آخرت کے راز سمجھنے اور سمجھ کر ان کو اپنی زندگی بنا دینے میں شب و روز غرق تھے۔ حضرت عائشہؓ نے بتایا کہ یہ کیسا عجب عالم تھا۔ ’’سلمان فارسی کا تقرب خالص اس حد کو پہنچ چکا تھا‘‘۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ’’رات گئے اس قدر دیر تک انھیں حضورؐ کے پاس دیکھ کر کبھی کبھی ہمیں یہ اندیشہ ستانے لگتا کہ کہیں حضورؐ ہم سے غافل نہ ہو جائیں‘‘۔
اور شبانہ روز کا یہ روحانی استفادہ حضرت سلمانؓ کو آخران عرش بوس منزلوں تک لے اڑا تھا۔ جہاں پیغمبر نبوی کے الفاظ میں خدا کی جنت کو حضرت سلمانؓ کا پر شوق انتظار تھا… اور جو خدا کے ان محبوب بندوں میں شامل ہو چکے تھے کہ جس سے وہ خفا ہو جائیں۔ خدا بھی ان سے خفا ہو جائے۔
غزوۂ خندق کے بعد ہر ایک جہاد میں انھوں نے بے تابانہ جست کی اور خدا کے قدموں پر سر نیاز نذر کر دینا چاہا۔ تلواروں کی چھاؤں میں جہاد و عزیمت کی وہ ولولہ انگیز نما نماز پڑھتے رہے اور تیروں کی آندھیوں نے دیکھا کہ وہ اذان حق بلند کر رہے ہیں۔ کیسی پیاری تھی وہ زندگی جو اپنے خدا سے جا ملنے کے شوق میں ’’موت‘‘ کو ڈھونڈتی پھرتی تھی! اس طرح شہادت کی تڑپ میں ان کا یہ ’’رقص بسمل‘‘ عہد رسالت سے عہد فاروقی تک برابر جاری رہا۔ اسی دوران میں خود ان کے اپنے وطن ایران میں بھی جنگ برپا ہوئی۔ مگر خدا کے حریم قدس کو اپنا ماویٰ و ملجا اور اپنی منزل شوق بنا لینے کے بعد اب دنیا میں کوئی ملک ان کا وطن نہ تھا… وہ عرب کی اسلامی صفوں سے عجم کے کفر و شرک کے خلاف ننگی تلوار چلاتے ہوئے نکل رہے تھے۔ ہاں ’’ تلوار ‘‘ سے اپنے ارباب وطن کی قسمت کا فیصلہ کرنے سے قبل انھوں نے یہ بھی اپنا مومنانہ فرض سمجھا کہ دل کی پر سوز دھڑکنوں اور زبانوں کی ایمان افروز جنبشوں سے ایرانی کفر کے جمود کو توڑ دینے کی دردمندانہ کوششیں کر دیکھیں۔
’’ کبھی میں تمہارا ہم قوم تھا ‘‘۔ فارس والوں کو حضرت سلمان ؓنے محاذ جنگ سے پکار سنائی۔ ’’لیکن خدا نے مجھے اس دولت سے نوازا ہے جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔ یاد رکھو! تم اب یا عربوں کے غلام بنو گے یا خدا کے غلام !… خدا کی غلامی قبول نہیں ہے تو پھر عربوں کی حلقہ بگوشی سے بیچ کر تم نہ جاسکو گے…ہاں آؤ اور اللہ کے غلام بن کر اللہ والوں سے آملو!… ایسا کرو گے تو دنیا میں یہ انعام ہے کہ عربوں جیسے حقوق تمہیں حاصل ہوں گے، ورنہ پھر ذمیوں کی زندگی بسر کرنا تمہاری تقدیر بنا دیا جائے گا‘‘۔
قوم نے اپنے ایک ہم قوم کی یہ نوائے درد سنی اور اثر قبول نہ کیا۔ حضرت سلمان فارسیؓ اتمام حجت کر چکے تو ایمانی غیرت سے جوش میں آگئے۔
’’ اب ان بد نصیبوں کی قسمت کا فیصلہ تلوار سے کر دیا جائے…‘‘ خاک و خون کے تمام رشتوں پر ایمانی قوت نے بزن بولتے ہوئے کہا۔
حضرت سلمان فارسی ؓمحسوس کرتے تھے کہ دولت ایمانی پا جانے کے بعد وہ دنیا جہاں کی ہر قیمتی شے سے بے نیاز ہو چکے ہیں۔ خدا ان کا ایسا سہارا تھا کہ جس کے بعد کسی دوسرے سیارے کا تصور کرنا بھی انھیں اپنے ایمان و یقین کی بد ترین توہین محسوس ہوتا تھا۔ وہ تو ’’ اسلام‘‘ کو پانے کے لیے اپنا سب کچھ بے دریغ نثار کر چکے تھے۔ پھر جب ’’اسلام‘‘ کو وہ پاگئے تو ان کی سپردگی اور جاں سپاری کا کیا عالم ہو گا!… حق یہ ہے کہ یہ بات محض ’’سہنے‘‘ کی ہے کہنے کی نہیں!
اس دنیا میں ایک رسولؐ خدا کی ذات تھی جس سے ان کی روح و جاں کا والہانہ تعلق قائم تھا،اس کے علاوہ دنیا کی ہر شے سے جیتے جی ان کے قلب و روح کا تعلق ٹوٹ کر خدا کے تعلق میں جذب ہو چکا تھا۔ اس لیے وہ اس دنیا میں محض دو جگہ نظر آتے تھے اور کہیں نہیں۔ یا تو رسولؐ خدا کی قربت میں وہ اللہ کی باتیں سنا کرتے یا خدا سے جا ملنے کی ترپ انھیں اشک آلود مصلے اور خوں ریز جنگی میدانوں کی طرف کشاں کشاں لیے پھرتی تھی۔ خدا سے ملنے کے لیے وہ آدمی کس قدر بے کل اور بے قرار رہا ہو گا جس کے دل پر یہ تصور بھی شاق تھا کہ وہ دنیا میں اپنا کوئی گھر بنانے کی بات کبھی سوچے۔ یہ دنیا جو مومن کے لیے واقعی ایک پردیس ہے حضرت سلمانؓ اس میں ہمیشہ ہی ایک خانہ بدوش پر دیسی بن کر رہے۔ دنیا میں قبر ہی وہ واحد گھر تھی جہاں پہنچنے کی آرزو ا نھیں تھی۔
’’ہماراجی چاہتا ہے کہ ہم آپ کا اپنا گھر تعمیر کرا دیں‘‘۔ حضرت حذیفہ نے حضرت سلمانؓ سے کہا۔
’’جی نہیں ؟‘‘ حضرت سلمانؓ نے روک دیا۔ ’’کیا میرے لیے بھی ایسا ہی گھر بنانا چاہتے ہو جیسا تم نے اپنے لیے مدائن میں بنوایا ہے ؟‘‘
’’ نہیں، نہیں ! حذیفہ نے جلدی سے تردید کی۔ ہم تو آپ کے لیے بانس کا ایسا مکان بنوائیں گے جس کی چھت خس و خاشاک کی ہو گی جو محض اتنا ہو گا کہ آپ کھڑے ہوں تو آپ کا سر اس کی چھت کو لگے اور لیٹیں تو دونوں پہلوؤں کی دیواریں چھو رہی ہوں‘‘۔
ایک ایسے مکان کی تجویز حضرت سلمانؓ کو بہت ہی پسند آئی۔ ان کا خیال تھا کہ ایک سرائے فانی میں ایک مسافر کو ایسا ہی مکان چاہیے۔
’’ تم نے حذیفہ !‘‘ وہ خوشی سے مسکراتے ہوئے بولے: ’’بھئی! تم نے تو میرے دل کی بات پالی‘‘۔
اللہ!… اللہ!!…
کیسے سادہ دل اور سادہ لوح تھے وہ تیرے بندے !!
حضرت عمر فاروقؓ نے جو حضرت سلمان فارسیؓ کا بے حد احترام کرتے تھے، ان کو مدائن کی گورنری پر مامور کیا۔ انھوں نے امارت کے تمام فرائض کو پوری طرح انجام دیا۔ لیکن وہ فقر و غنا کی دولت سینے سے چمٹائے رہے۔ وہی تنگ اور چھوٹی سی عبا!، وہی جانگیہ زیب تن رہا جس سے پنڈلیاں کھلی رہتیں اور وہی گدھا ان کی محبوب سواری تھی۔ جس پر نہ کبھی گورنری سے پہلے زین لگی اور نہ اس کے بعد۔ ایسا بھی ہوا کہ اپنے ’’امیر‘‘ کو اس حالت میں دیکھ کر بچے ان کے پیچھے لگ گئے اور فوجیوں سے نہیں ضبط نہ ہو سکا۔ مگر یہ کہاں ہوا اور کیسے ہو سکتا تھا کہ حضرت سلمانؓ انسانی پسند و نا پسند کا لحاظ کر کے فقر کا وہ لباس اتار پھینکتے جو اللہ کے عشق اور آخرت کے جذب و جنوں نے انھیں اپنے ہاتھ سے پہنایا تھا، کبھی کبھی بات اس سے بھی آگے بڑھ جاتی اور لوگ انھیں غلط فہمی سے مزدور سمجھ کر اپنا بوجھ ان کے اوپر لاد دیتے لیکن اللہ کا وہ سادہ دل بندہ ٹھیک ایک خادم اور ایک خدا کے غلام کی طرح خدا کے بندوں کی یہ خدمت بھی انجام دے دیتا اور جبیں کی ایک شکن سے بھی یہ ظاہر نہ ہونے دیتا کہ میں مزدور نہیں۔ اس علاقہ کا گورنر ہوں۔
’’ ذرا میرے جانور کا گھاس چارہ گھر تک پہنچا دو؟ کسی نے ایک دن گھاس کا ڈھیر ان کے سر پر رکھتے ہوئے کہا۔ بلا تکلف انھوں نے وہ ڈھیر سر پر اٹھا لیا اور اس آدمی کے ساتھ ہو لیے۔ بیچ راہ میں پہچاننے والوں نے ان کو پہچانا اور یہ بوجھ خود اٹھانے کے لیے لپکے اور اس شخص کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو حضرت سلمانؓ جو اب تک چپ چاپ چلے جا رہے تھے ، پکار اٹھے :
’’ نہیں، نہیں !… میں نیت کر چکا ہوں کہ یہ بوجھ گھر تک پہنچا کر دم لوں گا… اب یہ بوجھ گھر آنے سے پہلے میرے سر سے نہ اترے گا‘‘۔
’’ مجھے معاف کر دیجئے !‘‘ وہ آدمی گڑ گڑاتے ہوئے بولا: ’’آپ زحمت نہ اٹھائے!‘‘
(جاری ہے)