امریکی انتخابات :مسلمانوں کے لئے کھائی یا کنواں

200

ساری دنیا کی طرح امریکی مسلمان بھی غزہ نسل کُشی پر سخت پریشان ہیں۔ اسرائیلی مظالم سے زیادہ امریکی میڈیا پر جھوٹ کے طوفان سے جو اذیت پہنچ رہی ہے اس کا اظہار بھی تکلیف دہ ہے۔ سیاسی محاذ پر اسرائیل، ریپبلکن اور ڈیموکریٹس دونوں کا لاڈلا ہے بلکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کی حریف نائب صدر کملا دیوی ہیرس کے درمیان اسرائیل نوازی کا سخت مقابلہ ہورہا ہے۔

نائن الیون (9/11) سے پہلے امریکی مسلمان اسقاطِ حمل، ہم جنس پسندی (LGBT)، اسکولوں میں عبادت کی اجازت، اور منشیات پر پابندی جیسے معاملات پر ہم آہنگی کی وجہ سے ریپبلکن پارٹی کے حلیف تھے۔ مسلمانوں نے 1980ء اور 1984ء میں رونالڈ ریگن، اور پھر 1988ء میں جارج بش کی پُرجوش حمایت کی۔ اس صدی کے آغاز پر 2000ء کے انتخابات میں مسلمان جارج واکر بش کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے جس کی بنیادی وجہ اُن کے حریف ایلگور کی نائب صدارت کے لیے اسرائیل نواز جولائیبرمین کی نامزدگی تھی۔کامیابی پر جارج بش نے مسلمانوں کی حمایت کا اعتراف بھی کیا لیکن ان کے حلف اٹھانے کے آٹھ ماہ بعد ہی سانحہ نائن الیون پیش آگیا، جس کو بہانہ بناکر جارج بش نے افغانستان اور اس کے بعد عراق میں مسلمانوں کا بہیمانہ قتلِ عام کیا۔ معاملہ ان دو ملکوں تک محدود نہ رہا بلکہ پاکستان، یمن، سوڈان، صومالیہ اور دوسرے مسلم اکثریتی ممالک میں ڈرون حملوں نے لاکھوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔

عسکری کارروائیوں کے ساتھ ریپبلکن پارٹی کے قدامت پسندوں نے امریکی مسلمانوں کی زندگی اجیرن کردی۔ مساجد کی جاسوسی، لغزشِ زبان اور خطباتِ جمعہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے مقدمات قائم ہوئے۔ یک رخی ترسیمی جائزوں (Profiling) نے مسلم نوجوانوں کو مشکوک بنادیا۔ مسلمانوں کے خیراتی اداروں اور سماجی تنظیموں کو خوردبین کے نیچے رکھ لیا گیا۔ ہوائی اڈوں پر محمد، عبدل، شیخ اور دوسرے عرب ناموں کے لوگوں کی خصوصی جانچ پڑتال کی وجہ سے مسلمانوں کا سفر کرنا مشکل ہوگیا۔

ان اقدامات نے مسلمانوں کو ریپبلکن پارٹی سے دور کردیا اور ان کی غالب اکثریت ڈیموکریٹک پارٹی کے قریب آگئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی 2016ء کی انتخابی مہم کے دوران کھل کر مسلمانوں کو امریکہ دشمن قرار دیا اور حلف اٹھاتے ہی چند مسلم ممالک کے باشندوں کے لیے امریکی ویزے کی پابندیاں سخت کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2020ء کے انتخابات میں مسلمانوں نے صدر بائیڈن کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا۔

گزشتہ برس اکتوبر سے شروع ہونے والی غزہ نسل کُشی پر صدر بائیڈن نے طوطا چشمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس بے شرمی سے اسرائیل کی پشت پناہی کی، اس نے مسلمانوں کو ڈیموکریٹک پارٹی سے بھی متنفر کردیا۔ نائب صدر کملا دیوی صاحبہ دوسرے امریکی رہنمائوں کی طرح اسرائیل کی پُرجوش حامی ہیں لیکن فوری جنگ بندی کا مطالبہ اور شہری نقصانات پر ’تشویش‘ کا اظہار کررہی ہیں اور اسرائیلی وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بنارہی ہیں۔ انھوں نے کانگریس (امریکی پارلیمان) کے مشترکہ اجلاس سے نیتن یاہو کے خطاب کا بائیکاٹ کیا حالانکہ بربنائے عہدہ وہ سینیٹ کی سربراہ اور میزبان تھیں۔

جیسا کہ ہم اس سے پہلے ایک نشست میں عرض کرچکے ہیں کہ امریکا میں پارٹی ٹکٹ قائدین یا پارلیمانی بورڈ جاری نہیں کرتے بلکہ اس کے لیے امیدواروں کو باقاعدہ انتخاب لڑنا پڑتا ہے جسے پرائمری انتخاب کہا جاتا ہے۔ صدارتی ٹکٹ کا فیصلہ قومی اجتماع میں مندوبین کرتے ہیں اور ریاست کے پرائمری انتخابات میں صدارتی امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے اس کے نامزد کردہ مندوبین کو اجتماع کے لیے منتخب کرلیا جاتا ہے۔ رائے شماری کے دوران یہ مندوبین اس امیدوار کی حمایت کے پابند ہیں جس کو پرائمری میں ملنے والے ووٹوں سے یہ منتخب ہوئے ہیں۔

پارٹی ٹکٹ کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی میں کوئی امیدوارصدر بائیڈن کے سامنے نہ آیا اور ہر ریاست سے ان کے نامزد کردہ مندوبین کامیاب ہوگئے۔ تاہم ان کی اسرائیل نواز پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے ڈیموکریٹک پارٹی کے 7 لاکھ افراد نے Non Committed مندوبین منتخب کیے، یعنی کنونشن کے دوران وہ کسی خاص امیدوار کو ووٹ دینے کے پابند نہیں۔ تقریباً ہر ریاست سے پرائمری انتخاب جیت لینے کے باوجود جماعتی دبائو پر صدر بائیڈن دوڑ سے دست بردار ہوگئے اور انھوں نے اپنی جگہ کملا ہیرس کو نامزد کرتے ہوئے، تمام مندوبین اُن کے حوالے کردیے۔

کملا ہیرس اسرائیل کی پُرجوش حامی تو ہیں لیکن ان کو مسلمانوں کی قوت کا اندازہ ہے۔ جن ریاستوں میں گھمسان کا مقابلہ ہے وہاں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں، چنانچہ انھوں نے پارٹی کے مسلم رہنمائوں محترمہ رشیدہ طلیب اور الحان عمر کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ہیرس صاحبہ کی پہلی آزمائش نائب صدر کا انتخاب تھا۔ پارٹی کے اسرائیل نواز عناصر اس عہدے کے لیے ریاست پنسلوانیا کے گورنر جاش شپیرو (Josh Shapiro)کو نامزد کرنا چاہتے تھے جو عقیدے کے اعتبار سے یہودی، اسرائیل کے پُرجوش حامی اور فلسطین مخالف ہیں۔ ملاقاتوں میں مسلم رہنمائوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر جناب شپیرو کو نائب صدر کا امیدوار لایا گیا تو مسلمان کملا جی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ خاصی سوچ بچار کے بعد جناب شپیرو کے بجائے ریاست مینی سوٹا کے گورنر ٹم والز کو نائب صدر کا ٹکٹ جاری کردیا گیا۔

اس فیصلے سے مسلمان بہت خوش تھے۔ کنونشن کا پروگرام مرتب کرتے وقت یہ طے ہوا کہ 7 لاکھ non commuted مندوبین کے ایک نمائندے کو کنونشن سے خطاب کا موقع دیا جائے گا۔ فلسطین سے دلچسپی رکھنے والے مندوبین نے ریاست جارجیا کی رکنِ ریاستی اسمبلی محترمہ رووا رومن کو اپنا خطیب مقرر کیا۔ پارٹی کے اسرائیل نواز عناصر نے اس پر ہنگامہ کردیا اور طے پایا کہ رومن صاحبہ کے ساتھ اسرائیل کا نقطہ نظر بھی پیش کیا جائے گا۔

اس فیصلے کے بعد یہ کہا جانے لگا کہ اس قسم کی تقریروں سے نہ صرف کشیدگی اور تصادم کا خطرہ ہے بلکہ اس سے پارٹی میں اختلاف کا تاثر پیدا ہوگا، چنانچہ رووا رومن اور اسرائیل کے حامی مندوب کے نام مقررین کی فہرست سے نکال دیے گئے۔ لیکن اپنے خطاب سے پہلے سینیٹر کوری بوکر نے ایک اسرائیلی قیدی کے والدین کو تقریرکے لیے بلالیا اور دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے وہ منظر دیکھا۔ والدہ کی جذباتی تقریر سے سماں بندھ گیا اور ہال Bring them homeکے نعروں سے گونج اٹھا۔ جنگی قیدی سے اتنی ہمدردی لیکن غزہ کی ریت پر ذبح کردیے جانے والے تیس ہزار مہ پاروں اورگل رخوں کا کوئی ذکر تک نہ ہوا۔ افسوس ناک پہلو یہ کہ اس سے پہلے امریکی تاریخ کے پہلے مسلمان رکن کانگریس اور ریاست مینی سوٹا کے اٹارنی جنرل کیتھ ایلیسن خطاب کے لیے آئے اور موصوف نے غزہ نسل کُشی پر ایک لفظ نہ کہا۔

پارٹی نامزدگی قبول کرنے کے بعد کملا ہیرس کا خطابِ تشکر بھی مسلمانوں کے لیے انتہائی مایوس کن تھا۔ انھوں نے پُرجوش انداز میں کہا ’’میں ہمیشہ اسرائیل کے لیے کھڑی رہوں گی اور اس بات کو یقینی بناؤں گی کہ ’ہمارا دوست‘ اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتا ہو تاکہ اسرائیلی عوام کو 7 اکتوبر جیسی ہولناکی کا سامنا نہ کرنا پڑے‘‘۔ اس کے بعد فرمایا ’’گزشتہ 10 ماہ سے غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ تباہ کن ہے۔ بہت سی معصوم جانیں ضائع ہوئیں۔ بھوکے لوگ بار بار محفوظ مقامات کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ ان کے مصائب کا تصور کرکے دل بیٹھا جاتا ہے۔ صدر بائیڈن اور میں اس جنگ کے خاتمے کے لیے دن رات کام کررہے ہیں تاکہ اسرائیل محفوظ ہو، یرغمالیوں کو رہا کیا جائے، غزہ میں مصائب کا خاتمہ ہو اور فلسطینی عوام کو وقار، سلامتی، آزادی اور خودارادیت کا حق حاصل ہو‘‘۔ اس سے پہلے کملا صاحبہ فلسطینی ریاست کی بات کرتی تھیں لیکن اسرائیل نواز عناصر کے دبائو پر انھوں نے خودمختار ریاست کے بجائے خودارادیت کا لفظ استعمال کیا جس کی تشریح خودمختار شہری و بلدیاتی حکومت بھی کی جاسکتی ہے۔ کملا ہیرس کے خطاب سے پہلے کنونشن نے 2024ء کے لیے پارٹی کے منشور کی منظوری دی جس میں کہا گیا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی اسرائیل کے تحفظ و سلامتی کے لیے اپنے ’آہنی عزم‘ کا اعلان کرتی ہے۔

دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ نے اہلِ غزہ کو دھمکی دی کہ ’’میرے حلف اٹھانے سے پہلے تمام اسرائیلی قیدی رہا کردو، ورنہ اس حکم عدولی کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی‘‘۔ سابق صدر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ برسراقتدار آکر امریکا میں اسرائیل کے خلاف مظاہروں پر پابندی لگا دیں گے۔ گزشتہ اتوار CNN سے گفتگو کرتے ہوئے ریپبلکن پارٹی کے رہنما سینیٹر لنڈے گراہم نے کہا ’’ایران 7 اکتوبر کے واقعے اور غزہ میں بند قیدیوں کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ اکتوبر حملے کا بنیادی مقصد اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین بڑھتی ہوئی سفارتی قربت کو سبوتاژ کرنا تھا۔ اگر ایران قیدیوں کی واپسی پر تیار نہ ہو تو ہمیں ایران کی تیل ریفائنزیز کو نشانہ بنانا چاہیے۔‘‘

قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ گرین پارٹی کی ڈاکٹر جل اسٹائن بھی انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں جنھوں نے اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کو اپنے منشور کا حصہ بنایا ہے۔ یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والی 74 سالہ جل اسٹائن، فلسطین کے حق میں مظاہروں کے دوران جیل بھی جاچکی ہیں۔ گرین پارٹی نے نائب صدارت کے لیے مسلم مؤرخ و دانشور ڈاکٹر بچ ویر (Butch Ware)کو امیدوار نامزد کیا ہے۔ ڈاکٹر ویر جامعہ کیلی فورنیا سانتا باربرا میں تاریخ کے پروفیسر اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ امریکا کے مہمل انتخابی نظام میں تیسرے امیدوار کی کامیابی کا کوئی خفیف سا بھی امکان نہیں۔ یعنی ان انتخابات میں امریکی مسلمانوں کے لیے ایک طرف کھائی ہے تو دوسری جانب کنواں۔ کھائوں کدھر کی چوٹ، بچائوں کدھر کی چوٹ۔

آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

حصہ