اچھے گمان رکھنے کی عادت کسی ملٹی وٹامن کی روزانہ لی جانے والی خوراک جیسا اثر ڈالتی ہے، فرد کی صحت بہتر رہتی ہے، تیزابی سوچوں سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کسی حکیم اور طبیب کا نسخہ نہیں کرتا۔
کسی کو اچھے گمان کا مارجن دینا اس پر احسان نہیں بلکہ فرد کا اپنے اوپر احسان ہے۔ اس نے حدیث پر عمل کیا جو ستّر بار اچھے گمان کا کہتی ہے۔ (یہ یاد رکھیں واضح معاملات میں گمان نہیں کیے جاتے)
احسان اپنے اوپر اس طرح بھی کہ ناگوار خیالات سے اس نے اپنے دل و دماغ کو نہیں تھکایا اور ان کی طاقت کو مثبت کام کے لیے کارآمد رکھا۔
لوگوں کو، معاشرے کو، دنیا کو جنرلائز کرتے ایک جملہ ’’لوگ تو کسی کو خوش دیکھ ہی نہیں سکتے‘‘ کہہ کر اپنے آپ کو، اپنے پیارے کو تسلی دینا خراب اور پھپوندی لگا طریقہ ہے۔
ہر انسان میں طلب، تشکر، رشک، حسد، مقابلہ، لالچ اور کئی احساسات و جذبات پائے جاتے ہیں۔ یاد رکھیں یہ آپ میں ہیں، مجھ میں ہیں اور دوسروں میں بھی۔ ان کو متوازن، مثبت اور عمدہ راستے پر رکھنا دین سکھاتا ہے، اور دین محض چند بدنی عبادتوں کا نام نہیں، بالخصوص وہ عبادتیں جن پر آج کی دنیا پرائس اور زیرو میٹر انسان کا ٹیگ لگاتے بقیہ دین سے بے نیاز رہنے کا اشتہار نشر کرتی ہے۔
اچھے گمان رکھیں لیکن اچھا گمان رکھوانے میں مددگار بھی بنیں۔ جس چیز یا عمل سے تعلقات میں خرابی آنا دنیا کے نظام کے تحت ممکن ہو، اس عمل کو کرتے وقت یہ سوچنا کہ ’’لوگوں کا تو کام ہی غلط سوچنا ہے‘‘ فرد کو اس کی ذمہ داری سے نہیں بچاتا۔ اللہ کے نبیؐ نے بھی اپنے صحابہؓ کو صفائی دی تھی جب وہ اپنی زوجہ کے ساتھ کہیں تھے کہ ’’میرے ساتھ جو خاتون ہیں وہ میری زوجہ ہیں۔‘‘ (مفہوم)
صحابہؓ کہتے ہیں ’’معاذ اللہ ہم کیسے آپؐ کے بارے میں غلط سوچ سکتے ہیں۔‘‘ (مفہوم)
نبی برحق ؐ کہتے ہیں ’’شیطان سب کے ساتھ ہے۔‘‘
بار بار سوچیے یہ کون کہہ رہا ہے؟ کس سے کہہ رہا ہے؟
گمان اور بدگمانی کا پروسیس کس طرح متحرک ہوتا ہے انسانی معاملات میں۔ میرا اور آپ کا رتبہ نبیؐ کے رتبے سے بہت نیچے ہے اور ہم پیروی بھی معاشرتی معاملات میں دل لگا کر نہیں کرتے اور توقع رکھتے ہیں دعائیں، مناجات اور عبادات ہماری زندگیوں میں سکون عطا کردیں۔
اللہ کے نبیؐ کے معاشرتی معاملات کو بھی اپنائیں تاکہ شکوہ شکایت کی دنیا میں بہتری آسکے اور توانائی مثبت راہوں پر لگے، اور مسلمانوں کی کثیر تعداد لباس اور خوراک کے علاوہ بھی ہنرمند ہو۔