’’آج شام کو تمہاری ریحانہ باجی آئیں گی، تیار ہو جانا۔‘‘ امی نے ہانیہ کو آگاہ کیا، مگر یہ خبر ہمیشہ کی طرح ہانیہ کو پریشان کر گئی۔
ریحانہ باجی اس کی خالہ زاد تھیں، عمر میں بڑی تھیں، بہت پیار کرتی تھیں، مگر اُن کا آنا اسے ہمیشہ پریشان کردیتا تھا۔ اس کی وجہ تھے اُن کے میاں رضوان بھائی، جن کی نظریں اسے پریشان کردیتی تھیں۔ وہ اُن کی نظروں سے بچنے کے لیے چھپتی پھرتی تھی۔
اسے اپنی امی پر غصہ آتا تھا، باوجود اس کے کہ وہ گیارہ سال کی ہوچکی تھی مگر وہ اسے بچی سمجھ کر دوپٹہ لینے کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ وہ نوٹ کرتی تھی کہ اس کی تمام سہیلیوں کی مائیں اپنی بیٹیوں کو ڈھیلے کپڑے سلوا کر دیتی تھیں اور دوپٹہ لینے کا طریقہ بھی بتاتی تھیں، مگر اس کی امی کہتی تھیں’’ساری زندگی دوپٹہ لینا ہے، تم بچی ہو، ابھی ضرورت نہیں۔‘‘
ہانیہ اپنے محلّے کی کچھ سہیلیوں کے ساتھ وین میں اسکول جاتی تھی، اس کی امی نے تو کبھی اسے کچھ نہیں سمجھایا تھا، ہاں البتہ آنٹیاں اپنی بچیوں کو وین والے انکل سے دور رہنے کے بارے میں سمجھاتی تھیں اور کہتی تھیں کہ اگر وہ انہیں اترنے چڑھنے میں مدد دینے کے لیے ہاتھ پکڑنا چاہیں یا گود میں لے کر اتارنا چاہیں تو سختی سے انہیں ڈانٹ دیں۔ ہانیہ کو ان آنٹیوں کا اس بارے میں فکرمند ہونا بہت اچھا لگتا تھا۔
ہانیہ اپنی امی سے بھی اسی رویّے کی طلب گار تھی، وہ انہیں کیا سمجھاتی کہ مردوں کی بے تاب نظریں اسے کتنا پریشان کرتی ہیں۔ امی نے اپنے اور اُس کے درمیان کبھی ایسی قربت ہی نہیں رکھی کہ وہ اپنے دل کی باتیں اُن سے کرسکتی۔ امی کا اپنا پردہ بھی بس واجبی سا ہی تھا۔ ہاں نماز روزے کی وہ بہت پابند تھیں، قرآن بھی روز کھلتا تھا مگر ترجمے کی طرف توجہ نہیں تھی۔
جب کبھی امی کے ساتھ بازار جانا ہوتا، سارا وقت سولی پر ٹنگا رہنا پڑتا۔ امی اپنی شاپنگ کی طرف متوجہ رہتیں اور وہ خود کو لوگوں کی کہنیوں اور دھکوں سے بچانے کی فکر میں رہتی۔ اس کو چھونے والا کسی بھی مرد کا ہاتھ اسے ایک گرم سلاخ کی طرح لگتا۔ چھوٹی عمر ہونے کے باوجود اسے اندازہ ہوجاتا تھا کہ یہ چیز صحیح نہیں۔ گھر میں موجود مرد نوکروں سے بھی وہ انتہائی محتاط رہتی، اکلوتی ہونے کی وجہ سے وہ تنہائی کا شکار تھی۔
برابر میں پھوپھی جان اپنے پورے خاندان کے ساتھ رہتی تھیں، وہ خود اور اُن کی بیٹیاں پردے کی پابند تھیں۔ انہیں دیکھ کر اس کا بھی بڑا دل چاہتا کہ عبایا نہ سہی کم از کم ایک بڑی سی چادر ہی پہننے کی اجازت مل جائے۔ مگر امی کی سوچ کے آگے وہ بے بس تھی۔ امی کو تو اس کا پھوپھی کے گھر جانا بھی پسند نہیں تھا۔
آخر اللہ اللہ کرکے نویں کلاس میں آنے پر اسے دوپٹہ دے دیا گیا، مگر سر پر لینے کی ہرگز اجازت نہ تھی۔ اگر شادی کی کسی تقریب میں مخلوط محفل میں وہ سر ڈھک لیتی تو گویا گھر آکر اس کی شامت ہی آجاتی۔
’’پتا نہیں کیوں اس لڑکی میں بڈھی روح سمائی ہوئی ہے!‘‘ وہ ابو سے شکوہ کرتیں۔
ابو بھی انہیں سمجھاتے مگر اس موضوع پر بات ہمیشہ بڑھ جاتی اور دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوجاتی۔
وقت کا پہیہ گھومتا گیا اور ہانیہ کے رشتے آنا شروع ہوگئے۔ اکلوتی ہونے کی وجہ سے امی، ابو دونوں خوب سے خوب تر کی تلاش میں تھے۔ اس نے دبے لفظوں میں امی کو اپنی خواہش بتائی کہ وہ پردہ دار گھرانے میں شادی کرنا چاہتی ہے، مگر امی آگ بگولہ ہوگئیں کہ ہم تمہاری پھوپھی جان کی طرح کنویں کے مینڈک نہیں… میں تو کسی ماڈرن اور پڑھے لکھے گھرانے میں تمہارا رشتہ کروں گی۔
آخر ارسلان کے نام اس کی قسمت کا قرعہ کھلا۔ ہانیہ اور ارسلان دلہن دولہا بنے چاند سورج کی جوڑی لگ رہے تھے۔ ارسلان لندن سے ڈگری لے کر آیا تھا، جاب بھی بہت اچھی تھی۔ سسرال کی خواتین کے فیشن اور بے پردگی دیکھ دیکھ کر ہانیہ ہول رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ اس کی مثال تو آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والی ہے۔
شادی کو کچھ دن گزرے تو ہانیہ کو اندازہ ہوا کہ ارسلان انتہائی مہذب اور سلجھے ذہن کا مالک ہے اور اس کے ساتھ وہ اپنے دل کی باتیں کرسکتی ہے۔ یہ سوچ کر ہانیہ نے ارسلان کو اپنی دیرینہ خواہش سے آگاہ کیا، جسے سن کر ارسلان خوشی سے جھوم اٹھا۔
’’یقین جانو ہانیہ! میری تو خود یہی خواہش تھی، مگر امی نے یہ کہہ کر رد کردی کہ اب وہ زمانے نہیں رہے جب لڑکیاں پردہ کیا کرتی تھیں۔‘‘
واقعی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں سچ کہا ہے کہ نیک مرد نیک عورتوں کے لیے اور نیک عورتیں نیک مردوں کے لیے ہیں۔
اگلے دن ہانیہ ارسلان کے ساتھ عبایا خریدنے گئی، بہت سارے میچنگ اسکارف حجاب کے لیے اور دو بڑی چادریں، تاکہ وقت اور موقع کے حساب سے وہ استعمال کرسکے۔ کچھ اسکارف اس نے اپنی دوستوں اور کزنز کو تحفے میں دینے کے لیے بھی لیے کہ دیے سے دیا جلتا ہے۔ اس نے سوچا کہ کوشش کروں گی کہ میری تمام کزنز میرے رنگ میں رنگ جائیں اور میرے ساتھ اللہ کی پیاری جنت میں جائیں۔