نیاز مندانِ کراچی کا کُل سندھ مشاعرہ‘ کتابوں کی تعارفی تقریب

43

نیاز مندانِ کراچی وہ ادبی تنظیم ہے جوتواتر کے ساتھ اپنے پروگرام ترتیب دے رہی ہے اسی تناظر میں اس نے وی ٹرسٹ بلڈنگ کراچی میں کُل سندھ مشاعرہ اور کراچی ایوارڈ آرگنائزر کیا۔ اس پروگرام صدارت خواجہ رضی حیدر نے کی۔ فیاض علی خان‘ عبید ساگر‘ جمال احمد جمال اور سلیم بیگ مہمانان خصوصی تھے۔ اعجاز خان نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ عدیلہ نعمان نے نعت رسولؐ پیش کی۔ عفت مسعود نے نظامت کے فرائض انجام دیے اور کہا کہ ہم ایک عرصے سے اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں‘ جو لوگ ہمارے ساتھ تعاون کر رہے ہیں ہم ان کے ممنون و شکر گزار ہیں۔

مسعود وصی نے کہا کہ اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں بے شمار لوگ شامل ہیں‘ ہم ان میں سے کچھ خواتین و حضرات کو ایوارڈ پیش کر رہے ہیں اس کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم ان کی علمی و ادبی خدمات کو تسلیم کر رہے ہیں‘ ہم ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ اس موقع پر پچاس افراد کو اعزازی شیلڈز پیش کی گئیں۔

نیاز مندانِ کراچی کے بانی و چیئرمین رونق حیات نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ ہم نے یہ تنظیم آج سے چالیس سال پہلے قائم کی تھی‘ اس کا نام ’’نیاز مندان کراچی‘‘ رکھنے والوں میں معروف شاعر‘ ادیب اور محقق فراست رضوی بھی شامل تھے جو کہ آج ایک نجی مصروفیت کی وجہ سے تقریب میں شریک نہیں ہو سکے ہیں جب کہ وہ ہماری مجلس صدارت کا حصہ تھے۔ ہم یہ پروگرام دبستانِ کینیڈا کے تعاون سے پیش کر رہے ہیں جس کی بانی و چیئرپرسن فاطمہ جبیں زہرہ ہیں جو کہ اس وقت کینیڈا میں مقیم ہیں تاہم وہ آن لائن ہماری تقریب میں شامل ہیں۔ ہماری تنظیم نظر انداز قلم کاروں کی آواز ہے‘ ہم ان قلم کاروں کے لیے اسٹیج فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ آج ہم نے ریحانہ احسان کی کتاب ’’یادوں کی رہ گزر پر‘‘ تنویر صباحت کی کتاب ’’خزاں میں پھول‘‘ قمر جہاں قمر کی کتاب ’’پیاسا دریا‘‘ اور جمال احمد جمال کی کتاب ’’اللہ اکبر‘‘ کی تعارفی تقریب کے ساتھ ساتھ کراچی ایوارڈز اور کُل سندھ مشاعرے کا اہتمام کیا ہے۔ قمر جہاں قمر حیدرآباد کی رہائشی تھیں مگر وہ اب کراچی میں مقیم ہیں‘ وہ طویل عرصے سے شاعری کم رہی ہیں وہ ہماری شعری تقریبات کی رونق ہیں۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ صدائے قمر‘ دوسری کتاب ندائے قمر‘ تیسری کتاب ثنائے خدا اور ثنائے رسولؐ ہے جب کہ آج ا ن کی چوتھی کتاب کی تقریب اجرا ہے جو کہ شاعری کا محور ہے۔ ان کتابوں میںقمر جہاں قمر نے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے‘ ان کی کتابیں قارئین ادب کے لیے بہترین تحفہ ہیں۔

جمال احمد جمال ایک سینئر شاعر ہیں جو کہ حمد و نعت کے علاوہ غزل بھی کہتے ہیںلیکن وہ تقدیسی ادب کے شاعر ہیں ان کی غزلیہ شاعری بھی زیورِ طباعت سے آراستہ ہونے جا رہی ہے امید ہے کہ یہ کتاب بہت جلد ہمارے ہاتھوں میں ہوگی ان کی جس کتاب کی آج تعارفی تقریب ہے وہ حمدیہ اشعار پر مشتمل ہے۔

تنویر صباحت کی شاعری کی کتاب میں غزلیں اور نظمیں شامل ہیں جو کہ زندگی سے جڑی ہوئی ہیں۔ انہوں نے خواتین پر ہونے والے مظالم پر بھی بات کی اور سیاسی حالات بھی لکھے ہیں اس کے علاوہ وہ غزل کے روایتی مضامین بھی کہہ رہی ہیں انہوں نے جدید لفظیات اور جدید استعارے استعمال کیے ہیں ان کی زبان سادہ ہے اسی وجہ سے ابلاغ کے مسائل پیش نہیں آرہے۔

ریحانہ احسان کراچی کی خواتین میں بے حد مقبول ہیں وہ نسائی ادب پر کافی کام کر چکی ہیں۔ وہ خواتین کی آواز ہیں‘ انہوںنے آزاد اور نثری نظمیں بھی کہی ہیں وہ ایک سینئر شاعرہ ہیں لیکن ان کووہ مقام حاصل نہیں ہو سکا جس کی وہ حق دار ہیں۔ وہ ادبی منظر نامے میں ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں۔

سلیمان صدیقی نے کہا کہ جمال احمد جمال ایک سنجیدہ مزاج انسان ہیں‘ وہ نعت و حمد کا حوالہ ہیں تاہم غزل گوئی کی طرف بھی راغب ہیں۔ انہوں نے دبستانِ وارثیہ کے تحت بے شماری طرحی مشاعروں میں حصہ لیا ہے ان کے گھر پر بھی ادبی محفلیں منعقد ہوتی ہیں۔

تنویر حیات ایک نئی شاعرہ ہیں ان کا یہ پہلا مجموعہ ہے‘ وہ نہایت دھیمے لہجے میں بات کرتی ہیں لیکن ان کے اشعار زندگی کی علامت ہیں‘ ان کے یہاں شعری محاسن موجود ہیں انہوں نے اپنے اردگرد جو کچھ دیکھا اسے شاعری بنا کر ہمارے سامنے پیش کر دیا‘ ان کے یہاں نسائی ادب کی رنگا نگی نظر آتی ہے۔

قمر جہاں قمر ایک سینئر شاعرہ ہیں‘ ان کی شاعری میں جدت اور زبان میں تازہ کاری ہے انہوں نے زندگی کے بے شمار مسائل پر ہماری توجہ مبذول کرائی ہے تاہم انہوںنے اپنے ذاتی مشاہدات و تجربات بھی لکھے ہیں انہوں نے شاعری میں نہایت آسان الفاظ استعمال کیے ہیں وہ سہل ممتنع کی شاعری ہیں۔ اس کتاب میں آزاد نظموں کا بھی ایک طویل باب ہے انہوں نے زندگی کی تلخیوں پر بھی اشعار کہے ہیں مجھے امید ہے ہم نے جن کتابوں کی آج تعارفی تقریب منعقد کی ہے۔ وہ تمام اہم لکھنے والے ہیں۔

فاطمہ جبیں زہرہ نے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ دبستان کراچی کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں لیکن چند مجبوریوں کے سبب پاکستان میں نہیں ہوں۔ میں اس پروگرام میں شریک تمام افراد کو مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ پروفیسر ڈاکٹر مرزا سلیم بیگ نے کہا کہ وہ اس محفل میں حیدرآباد کی نمائندگی کر رہے ہیں‘ وہ رونق حیات کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے مجھے اس محفلِ ِمشاعرہ میں مہمانانِ خصوصی میں شامل کیا۔ آج کا پروگرام بہت کامیاب ہے۔

خواجہ رضی حیدر نے کہا کہ آج کا پروگرام بہت اچھا ہے۔نیازمندانِ کراچی کو اس کامیاب پروگرام پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ نعمان حسین ایڈوویٹ نے کلماتِ تشکر میں کہا کہ کراچی میں بہت سی اہم ادبی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن کے سبب اردو زبان و ادب کی ترقی جاری ہے لیکن حکو متی سطح پر قلم کاروں پر بھی توجہ درکار ہے‘ ہم اپنی مدد آپ کے تحت پروگرام کر رہے ہیں میں تمام سامعین و شعرا کا شکر گزارہوں کہ انہوں نے ہماری دعوت پر لبیک کہا اور تشریف لائے۔ اس موقع پر تمام اہم افراد میں گلدستے اور اجرکیں پیش کی گئیں اور ایوارڈ بھی دیے گئے۔

اس محفل میں ابرار حسین نے حمدیہ اشعار پیش کیے تاہم ان کے علاوہ خواجہ رضی‘ فیاض علی فیاض‘ جمال احمد جمال‘ عبیداللہ ساغر‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ حجاب عباسی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ ریحانہ احسان رعنا‘ ناہید رعنا‘ آس سلطانی‘ ساجد فہیم‘ فاروق اطہر سعیدی‘ ساجد دائود قائم خانی‘ عتیق الرحمن‘ نیر صدیقی‘ شوکت علی چیمہ‘ اختر سعید خان‘ شائستہ سحر‘ حبیب الرحمن‘ شکیل فردوس‘ تنویر صباحت‘ سہیل احمد‘ صفدر علی انشا’ مرزا عاضی اختر‘ سمیع الاسلام‘ شجاع الزماں شاد‘ محمد سلام فدا‘ یاسر سعید صدیقی‘ قمر جہاں قمر‘ اطہر رضا زیدی‘ کشور عروج‘ نعیم قریشی‘ محسن رضا محسن‘رفیق مغل ایڈووکیٹ‘ تاجور شکیل‘ تنویر سخن‘ عجاز خان‘ صدف بنتِ اظہار‘ زوہیب خان اور عفت مسعود نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

حصہ