رضا علی وحشت اور منشی عبد الکریم نشتر دونوں اس دنیا میں نہیں رہے‘ مگر ان کی یاد اب تک دل کو تڑپاتی ہے اور مرتے دم تک تڑپاتی رہے گی۔ انیس سو پچیس یا نہ چھبیس کا ذکر ہے کہ میں پہلی مرتبہ کلکتے گیا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب میں شملے کے آرمی ہیڈ کوارٹر میں ملازم تھا۔ سال میں دو مرتبہ ملازمت کے سلسلے میں کلکتے کا دورہ لگتا تھا اور یوں سال میں دو مرتبہ کلکتے کی سیر ہوتی تھی۔ جب میں پہلی مرتبہ کلکتے گیا تو ایک انگریزی طرز کے سستے سے ہوٹل میں ٹھہرا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے خانسامے اور میرے علاوہ اس ہوٹل میں کوئی دیسی نہ تھا۔ سب کے سب انگریز یا نیم انگریز تھے۔ میں ویسے تو اس زمانے میں سوٹ پہنتا تھا مگر میرے سر پر عموماً پگڑی ہوا کرتی تھی اور وہ بھی پشاوری۔
انگریزی ہوٹلوں کا قاعدہ ہے کہ انگریز کھانے کے کمرے میں داخل ہوتے وقت اپنا سر پوش اتار دیا کرتے ہیں، اب میں پگڑی کیسے اتارتا۔ ہیٹ کی طرح پگڑی اتارنا بہت معیوب معلوم ہوتا ہے، چناں چہ میں پگڑی سر پر رکھے کھانے کے کمرے میں داخل ہوا۔
مجھے دیکھ کر انگریزوں کو بہت حیرت ہوئی۔ سب مجھے تعجب سے دیکھنے لگے کہ یہ جانگلو کہاںسے آیا ہے۔
انگریزوں کی نگاہوں کے تیر مجھے چبھ رہے تھے مگر میں ٹس سے مس نہ ہوا اور سر پر پگڑی رکھے سوپ زہر مار کرتا رہا۔ آخر ایک بیرا میرے پاس آیا اور کہا ’’حضور! یہ تاج اتار دیجیے۔‘‘ میں نے کہا ’’میاں تاج اس آسانی سے نہیں اترتے۔‘‘ کہا ’’صاحب لوگ اعتراض کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ کھانا ننگے سر کھانا چاہیے۔‘‘
میں نے کہا کہ ’’میاں ان سے کہہ دو کہ ننگے سر دستر خوان پر بیٹھیں تو شیطان دھولیں مارتا ہے۔‘‘
وہ بیرا بہار کا رہنے والا ہندو، میری بات کیا سمجھتا۔ ساتھ کی میز پر جا کر انگریز صاحبان سے کہا کہ ’’ ہم صاحب کی بولی نہیں سمجھتا‘‘۔
خیر اس وقت تو بات آئی گئی ہوگئی مگر میں نے مناسب یہی سمجھا کہ یا تو اس ہوٹل سے کنارہ کشی کرلوں اور یا سر سے پگڑی اتار کر کھانا کھانے آیا کروں۔
لیکن مصیبت یہ تھی کہ ایک مرتبہ پگڑی اتارنے سے انکار کر چکا تھا۔ اب انکار کو اقرار میں تبدیل کرنا میرے لیے بہت مشکل تھا۔ جوانی کا زمانہ اور انائیت کا زور۔ جذبۂ نخوت اور جذبۂ اَنا نے ’’جیسا دیس ویسا بھیس‘‘ کے زریں اصول پر کار بند ہونے سے روکا اور میں ہوٹل سے کنارہ کشی کرنے کی فکر میں باہر نکل آیا۔
مگر کہاں جائوں؟ خیال آیا کہ اس شہر میں رضاعلی وحشت رہتے ہیں۔ ان سے جا کر ملا جائے اور پھر جو ہو سو ہو۔
وحشت صاحب سے میں غائبانہ طور پر متعارف تھا۔ ان کا کلام اکثر رسائل میں پڑھتا تھا اور اس سے استفادہ کرتا تھا، مگر وہ مجھے کیا جانیں۔ میں ہوں ہی کیا ، یا تھا ہی کیا کہ وحشت جیسا عظیم المرتبت انسان مجھے درخورِ اعتنا سمجھتا۔
وحشت صاحب ان دنوں کلکتے کے مدرسے میں اردو کے پروفیسر تھے۔ ان کا پتا لگا لینا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ میں مدرسے میں گیا تو معلوم ہوا کہ گھر پر تشریف لے گئے ہیں۔ گھر کا پتا پوچھا اور ٹیکسی میں سوار ہو کر درِ دولت پر جا کر دستک دی۔
دو پہر بعد کا وقت تھا، ملازم نے میرا نام پتا پوچھا مگر بندۂ خدا نے یہ نہ بتایا کہ مولانا آرام فرما رہے ہیں۔
تھوڑی دیر میں مولانا باہر تشریف لائے۔ میں نے معذرت چاہی کہ اس استراحت کے وقت میں مخل ہوا۔ وحشت صاحب نے فرمایا، استراحت کہاں، خواب غفلت میں تھا، اچھا ہوا کہ تمہارے آنے سے بیدار ہو گیا۔
دیوان خانے میں لے گئے۔ ان دنوں ان کا ایک صاحب زادہ دماغی مرض میں مبتلا تھا اور گھر کے صحن کے ستون کے قریب پابہ زنجیر تھا۔ میرا فرض تھا کہ اس نوجوان کے مزاج کا حال مولانا سے پوچھوں۔ مولانا نے ایک آہ بھری اور کہا، کیا کروں، متعدد بار ارادہ کیا کہ اس بچے کو دماغی امراض کے شفا خانے میں داخل کر دوں مگر محبت مانع آتی ہے۔ میں خود دیوانہ ہوں اور دیوانوں سے محبت کرتا ہوں۔
خیر اِدھر اُدھر کی باتیں ہوئیں۔ مجھ سے کہا کہ تمہارا نام میں نے سنا ہے اور مجھے یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ تم کلکتے میں آئے ہوئے ہو۔ میرا فرض تھا کہ تمھارے پاس آتا لیکن مکروہات نے آج تک روکے رکھا۔ آج ارادہ تھا کہ تم سے جا کر ملوں۔ میں نے کہا حضرت! یہ تو میرا فرض تھا کہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ میرا اتنا کہنا تھا کہ مولانا نے تنبیہ کے انداز میں ’’ہاں‘‘ کہا۔ میں سہم کر چپ ہو گیا تو بہت تحمل سے فرمایا کہ قدیم زمانے کی میراث یہی اخلاق رہ گیا، وہ بھی تم چھیننا چاہتے ہو۔
گفتگو کے ابتدائی مراحل طے ہوئے تو میں نے کہا کہ حضرت آپ کے ایک دوست منشی عبدالکریم نشتر چھپروی کی بہت تعریف سنی ہے اور ان سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کا بہت مشتاق ہوں۔ فرمایا، ہاں نشتر صاحب میرے خاص دوست ہیں بلکہ یوں کہیے کہ کلکتے میں میرے عزیز دوست نشتر صاحب ہی ہیں۔ یہاں قریب ہی رہتے ہیں، بہت قریب مگر بات یہ ہے کہ ہم دونوں صرف اتوار کے روز ایک دوسرے سے ملا کرتے ہیں۔ ہفتے کے دوران میں ایک دوسرے کے اوقات میں مخل نہیں ہوتے۔ میں نے عرض کیا کہ وحشت صاحب ہفتے کے دوران میں آپ کو ایک دوسرے سے کوئی کام نہیں پڑتا۔ فرمایا، پڑتا ضرور ہے مگر ایسا موقع آئے تو ہم ایک دوسرے کو پوسٹ کارڈ لکھ کر بھیج دیتے ہیں۔ میں نے کہا، پوسٹ کارڈ کیوں، آپ تو فرماتے ہیں کہ مولانا نشتر کا گھر بہت قریب ہے۔ آپ ملازم کے ہاتھ رقعہ کیوں نہیں ارسال فرماتے۔ فرمایا اس میں ایک قباحت ہے اور وہ یہ کہ اگر نشتر صاحب کا ملازم میرے دروازے پر آئے تو اس سے بات کرنا اور نشتر صاحب کا مزاج پوچھنا میرا فرض ہو جاتا ہے۔ یہی حال نشتر صاحب کا ہے۔ اگر میرا آدمی میرا رقعہ لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہو تو نشتر صاحب کا باہر نکل کر ملازم سے بات کرنا لازمی بات ہے۔ اخلاق کے یہ ضروری مسائل طے کرنے میں وقت صرف ہوتا ہے۔ اس لیے ہم ایک دوسرے کو ڈاک کے ذریعے پوسٹ کارڈ بھیج دیتے ہیں۔ ہفتے کے دوران میں ایک دوسرے سے مل کر یا ایک دوسرے کے وہاں اپنا ملازم بھیج کر ہم ایک دوسرے کے اوقات پر دست درازی نہیں کرتے۔
میں نے کہا حضرت یہ سب درست ہے لیکن میں نشتر صاحب سے ملنے کا خواہش مند ہوں۔ مجھے ان کے گھر کا پتہ بتادیجیے۔ بس میں خود ہی چلا جائوں گا۔ آپ کی استراحت میں مخل ہونے کے گناہ کا ارتکاب کیا ہے تو ان کے اوقات میں خلل ڈالنے کا جرم بھی کرتا جائوں۔
مولا نا کچھ خاموش ہو گئے اور اٹھ کر شیروانی پہنے لگے۔ میں نے کہا آپ بھی نشتر صاحب کے وہاں تشریف لے جائیں گے۔ فرمایا، اب تم کو اکیلا کیوں کر بھیج دوں۔
غرض یہ کہ مولانا اور یہ خاکسار نشتر صاحب کے درِ دولت کی طرف روانہ ہوئے۔ میں یہ سمجھا تھا کہ نشتر صاحب کا مکان اگر قریب بھی ہے تو کم از کم دس بارہ منٹ تو وہاں تک پیدل چلنے میں لگیں گے مگر نہیں، گلی کا موڑ مڑے ہی تھے کہ نشتر صاحب کا مکان آگیا اور نشتر صاحب مولانا وحشت کو اور مولانا وحشت نشتر صاحب کو ہفتے کے دوران میں کوئی کام آپڑے تو ڈاک کے ذریعہ پوسٹ کارڈ بھیجا کرتے تھے، اللہ اکبر!
نشتر صاحب کے دروازے پر دستک دی۔ ملازم باہر نکلا اور ہمیں دیکھتے ہی سلام کر کے فوراً اندر چلا گیا۔ تھوڑی دیر میں نشتر صاحب تہبند باندھے بنیان پہنے گھبرائے ہوئے باہر نکلے اور سخت مضطرب ہو کر پوچھا، خیر باشد، خیر باشد… وحشت صاحب کیسے تشریف لائے؟ مراد نشتر صاحب کی یہ تھی کہ آج تو اتوار کا دن نہیں ہے۔ یہ آپ پر کیا افتاد پڑی کہ آپ غریب خانے پر آئے۔ اللہ خیر کرے!
مولانا نے میری طرف اشارہ کر کے کہا، ان کو لایا ہوں ، یعنی مولانا نے نشتر صاحب کو بتایا کہ خلاف معمول ہفتے کے دوران میں اس لیے آیا کہ بخاری کی افتاد مجھ پڑ گئی ہے۔
نشتر صاحب بڑے اخلاق کے آدمی تھے اور بے حد مسافر نواز۔ مجھے اور مولانا وحشت کو دیوان خانے میں لے گئے اور خاطر تواضع میں وہ فیاضی دکھائی کہ آج تک یاد ہے۔
چھپرے کے متعلق بہت سی روایات سن رکھی تھی اور چھپرے کے علم و فضل کا دل سے قائل تھا۔ پٹنہ چھپرہ ہماری ثقافت کے مرکز رہے ہیں۔ یہ وہی پٹنہ یا عظیم آباد ہے جو بیدل کا وطن تھا۔ شاد عظیم آبادی کا وطن تھا۔ مرزا یاس یگانہ کا مولد تھا اور یہ وہی چھپرہ ہے جہاں مولوی خدا بخش پیدا ہوئے۔ وہ مولوی خدا بخش جنہوں نے پٹنے میں اورینٹل لائبریری قائم کی۔
نشتر صاحب اور وحشت صاحب دونوں شاعری کے دل دادہ تھے۔ وحشت کا نام نامی سارے ہندوستان میں مشہور تھا۔ نشتر صاحب بھی کلکتے کے شعرا میں بہت ممتاز درجہ رکھتے تھے۔ یہ شمس کے شاگرد تھے اور یوں ان کا سلسلہ ذوق سے ملتا تھا۔
مجھے شرارت سو جھی تو میں نے ذوق و غالب کا ذکر چھیٹر دیا۔ میں غالب کا طرف دار، نشتر صاحب ذوق کے مداح ، اور وحشت صاحب ہم دونوں کا تماشادیکھنے والے۔
اس دن کی صحبت کچھ ایسی لطیف اور کیف آور تھی کہ نہ میرا جی چاہے کہ نشتر صاحب کو چھوڑوں اور نہ ان کا جی چاہے کہ مجھے رخصت کریں۔ آخر فیصلہ یہ ہوا کہ ہوٹل سے میرا سامان منگوا کر نشتر صاحب کے گھر میں اتارا جائے اور میں نشتر صاحب کے یہاں رہوں۔ ہم تینوں ہوٹل جانے کے لیے سواری کی تلاش میں باہر نکلے۔ دو چار ٹیکسیاں نکل گئیں مگر نشتر صاحب ویسے کے ویسے کھڑے رہے۔ آخر ایک گھوڑا گاڑی کو ٹھہرایا۔ اس پر ہم تینوں سوار ہو کر ہوٹل کی طرف چلے۔
راستے میں ہمت کر کے میں نے پوچھ ہی لیا کہ حضرت سست رفتار گھوڑا گاڑی کو تیز رفتار ٹیکسی پر کیوں ترجیح دی گئی۔ نشتر صاحب بولے‘مگر جلدی کا ہے کی ہے؟
اس بات کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ میں کھسیانا ہوکر وحشت صاحب کی طرف دیکھنے لگا۔ وحشت صاحب کو ہر بات پر ہنسی آتی تھی۔ یہ زمانہ ان کی جوانی کا تھا، اس قدر خوش مزاج اور ہنس مکھ تھے کہ شاید ہی کوئی ہو۔ آخری ایام میں جب ان کو ڈھاکے میں دیکھا تھا تو اعتبار نہ آیا کہ یہ وہی وحشت ہیں جن کے قہقہے کلکتے کے ’’فر پو‘‘ میں گونجا کرتے تھے۔
ہوٹل سے میرا سامان اٹھا لیا گیا اور میں نشتر صاحب کے یہاں فروکش ہوا۔ وحشت صاحب سے یہ قرار پایا کہ جب تک میں کلکتے میں نشتر صاحب کے یہاں مقیم ہوں اتوار کی ملاقات کے اصول کو ترک کیا جائے اور ہر روز ملنے کی صورت نکالی جائے۔
اب ہر روز محفلیں گرم ہونے لگیں۔ کبھی محفلِ عام اور کبھی محفلِ خاص۔ ایسی ہی خاص محفل میں ایک دن مولا نا ابوالکلام آزاد سے ملاقات ہوئی۔ یہ میری مولانا کی خدمت میں پہلی حاضری تھی۔
معلوم ہوتا ہے، ان دنوں ہنسی بہت ارزاں تھی۔ وحشت ، نشتر اور آزاد کی ہنسی کی آواز اب تک کانوں میں آرہی ہے۔
دو پہر کا وقت تھا اور گرمی کا موسم۔ مولانا وحشت ، مولانا آزاد، حضرت نشتر اور یہ خاکسار نشتر صاحب کے دیوان خانے میں نیم دراز حالت میں بیٹھے خوش گپیاں اڑا رہے تھے‘ شعر پڑھ رہے تھے، شعر گا رہے تھے، شعروں پر رو رہے تھے، شعروں پر ہنس رہے تھے کہ سامنے کا دروازہ دھپ سے کھلا اور ایک باریش شخص دروازے میں یوں کھڑا ہو گیا جیسے دروازہ چوکھٹا ہواور وہ شخص تصویر۔
ہم سب یک لخت چپ ہو گئے۔ مولانا آزاد نے اس شخص کی طرف ایک دو ثانیہ دیکھا اور پھر زور سے کہا ، لاحول ولا قوۃ۔
لاحول کا سننا تھا کہ وہ شخص دروازہ بند کر کے چلا گیا۔ خدا جانے لاحول کی اس تاثیر پر ہم لوگ کتنی تک دیر ہنستے رہے۔
یہ ہر بات پر ہنسنے والے حضرات جب غور و فکر کے دریا میں غوطے لگاتے تو تہہ کی خبر لاتے تھے۔ اس وقت ان کے چہروں پر ہنسی کا کوئی نشان نہیں ہوتا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ساری عمر کبھی ہنسے ہی نہ ہوں۔
ایک دن جو میں نشتر صاحب کے یہاں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مولانا وحشت اور مولانا نشتر دونوں سخت مغموم بیٹھے ہیں اور اس قدر خاموش بیٹھے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ میں نے کہا، خدا خیر کرے، کہیں کوئی سانحہ تو نہیں ہو گیا، مگر پوچھوں کیسے، میں بھی خاموش بیٹھ گیا۔ بہت دیر کے بعد نشتر صاحب نے فرمایا ، وحشت صاحب واقعی آپ تو گومگو کے عالم میں رہ گئے ہوں گے۔ وحشت صاحب بولے، ہاں حضرت ! کیا عرض کروں ، بس کچھ نہ پوچھیے۔
اب مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے کہا، حضرت کیا بات ہے؟ کچھ ہمیں بھی معلوم ہو۔ وحشت صاحب نے دروازے کی طرف دیکھا جیسے اطمینان کر رہے ہوں کہ بند ہے اور کوئی غیر آدمی ہماری بات نہ سن سکے گا۔ اس کے بعد نہایت راز داری کے لیجے میں فرمایا کہ آج میں مدرسے میں حضرت آتش کا کلام پڑھا رہا تھا۔ دہن بگڑا، کفن بگڑا ، والی غزل زیر تدریس تھی، مگر حضرت ایک شعر نے میری سٹی گم کردی۔ سمجھ میں نہ آیا کہ طلبا کے سامنے کیا عرض کروں۔ میں نے کہا، فرمائیے کون سا شعر؟ فرمایا سنیے۔
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجے ، دہن بگڑا
میں نے کہا، حضرت اس شعر میں کیا اشکال ہے۔ میری بات سن کر یہ دونوں حضرات ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ کبھی حیرت سے میرا منہ دیکھیں، کبھی ایک دوسرے کا۔ زبان حال سے فرمار ہے تھے کہ یہ شخص بھی کودن نکلا۔
میں نے پھر عرض کیا کہ حضرت اس شعر میں کیا اشکال ہے؟
وحشت صاحب نے فرمایا، اشکال تو کوئی نہیں مگر حضرت زبان !
میری سمجھ میں نہ آیا کہ زبان کی اس شعر میں کیا غلطی ہے۔ وحشت صاحب نے فرمایا، غور کیجیے بخاری صاحب ، تو بہ تو بہ حضرت آتش اور ایسی فروگزاشت۔ میں نے کہا، حضرت کچھ پتہ بھی چلے کہ کیسی فروگزاشت؟
فرمایا: ’’زباں بگڑی تھی تو بگڑی تھی یا زباں بگڑی تو بگڑی ہونا چاہیے تھا، مگر یہ کیا کہ زباں بگڑی تو بگڑی تھی یہ ’’تھی‘‘ بیچ میں کہاں سے ٹپک پڑی۔ اب آپ بتائیے کہ میں طلبا کو کیا منہ دکھائوں۔‘‘ یہ کہا اور دونوں پھر مراقبے میں چلے گئے۔ اب آپ کو کیا بتائوں کہ میں نے کیا کیا جتن کیے جب جا کر یہ حضرات کہیں مراقبے سے باہر آئے اور پھر وہی شام اور وہی گھوڑا گاڑی اور وہی فرپو اور وہی کلکتے کا میدان۔
چند برس کے بعد سنا کہ نشتر صاحب مفقودالخبر ہو گئے ہیں۔ کسی نے کہا، مر گئے۔ کسی نے کہا نہیں اپنے خیالوں میں غرق چھپرے کے کسی کونے میں چھپے ہوئے ہیں۔
جب وحشت صاحب ہجرت کر کے ڈھاکے آئے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ہائے وحشت ! یہ تو وہ وحشت نہ تھا جس کو کلکتے میں دیکھا تھا۔ وحشت تو ایساخستہ حال کبھی نہ تھا۔ وحشت تو ایسا بیمار کبھی نہ تھا۔ وحشت اور بے گھر! میں نے نشتر کا حال پوچھا تو بولے، جانے کہاں گیا مگر اب تک دل میں چبھ رہا ہے۔
وحشت صاحب اس جہاں سے چلے گئے۔ ان کے دل سے چبھن جاتی رہی مگر نشتر کی چبھن اب تک میرے دل میں موجود ہے اور وحشت کا سودا بھی۔