امریکا میں انتخابات نومبر میں منعقد ہورہے ہیں جن پر دنیا کی نظر ہے۔ ہم امریکا کے انتخابات، اہم شخصیات ،ایشوز ، وہاں کے نظام اور اس کے عالمی اثرات پر روشنی ڈالنے کے لیے ایک خصوصی سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہر ہفتے امریکا میں مقیم معروف تجزیہ نگار مسعود ابدالی کے مضامین ”سنڈے میگزین“ میں شایع کیے جائیں گے۔ ان مضامین کے ذریعے قارئین کو عالمی تناظر میں امریکی سیاست کو سمجھنے اور اہم معاملات کی تفہیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔آپ کے تبصروں اور آراء کا انتظار رہے گا۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے شکاگو کنونشن میں شریمتی کملا دیوی ہیرس کو صدر اور ٹم والزکو نائب صدر کا امیدوار نامزد کردیا گیا۔ گزشتہ ماہ ریپبلکن پارٹی کے قومی اجتماع میں جناب ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارت اور سینیٹر جے ڈی وانس کو نائب صدارت کا ٹکٹ جاری کیا جاچکا ہے۔ دونوں بڑی جماعتوں کے علاوہ لیریٹیرین پارٹی، گرین پارٹی اور سوشلسٹ پارٹی سمیت 11 دوسری جماعتوں کے علاوہ درجن بھر آزاد امیدوار بھی میدان میں ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ گرین پارٹی نے نائب صدارت کے لیے ایک مسلمان پروفیسر ڈاکٹر بُچ وئر (Butch Ware)کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔
5 نومبر کو صدارتی انتخاب کے ساتھ ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) کی جملہ 435 اور سینیٹ کی 34 نشستوں کے لیے بھی ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اسی روز 13 ریاستوں میں گورنروں کے لیے بھی میدان سجے گا۔
سو رکنی سینیٹ میں اِس وقت ڈیموکریٹک ارکان کی تعداد 46 ہے جبکہ 4 آزاد ارکان نے خودکو ڈیموکریٹک کاکس (Caucus) یا پارلیمانی پارٹی سے وابستہ کررکھا ہے۔ ریپبلکن سینیٹرز کی تعداد 49 اور ایک نشست خالی ہے۔ سینیٹ کی جن 34 نشستوں پر انتخابات ہوں گے ان میں سے 19 نشستیں ڈیموکریٹک پارٹی، 11 ریپبلکن اور 4 آزاد ارکان کی مدت مکمل ہونے پر خالی ہورہی ہیں۔
ایوانِ نمائندگان میں اس وقت 212 ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ریپبلکن ارکان کی تعداد 220 ہے، یعنی قصرِ مرمریں کے ساتھ کانگریس (پارلیمان) پر بالادستی کے لیے بھی نومبر کے پہلے منگل کو گھمسان کا رن پڑے گا۔
اب سے 5 نومبر تک اِن شااللہ ہم امریکی انتخابات کے بارے میں معلومات فراہم کرتے رہیں گے، جو امید ہے کہ آپ کو دلچسپ محسوس ہوں گی۔
حالیہ انتخابات اس اعتبار سے تاریخی ہیں کہ صدر بائیڈن امریکا کے چھٹے صدر ہیں جنھوں نے دوسری مدت کا انتخاب لڑنے سے معذرت کرلی ہے۔ امریکی صدرکی دست برداری حالات کے جبر کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح جناب ٹرمپ پہلی مدتِ صدارت کی تکمیل پر شکست کھا جانے کے بعد دوسری بار قسمت آزمائی کرنے والے چھٹے سابق صدر ہیں۔ پہلے رہنماؤں میں سے صرف صدر گروور کلیولینڈ (Grover Cleveland)کو کامیابی نصیب ہوئی۔ جناب کلیولینڈ 1884ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر صدر منتخب ہوئے اور چار سال بعد 1888ء میں انھیں صدر بن یامین ہیریسن (Benjamin Harrison)نے ہرا دیا۔ 1892ء کے انتخابات میں وہ ایک بار پھر سامنے آئے اور صدر بن یامین ہیریسن کو ہراکر انھوں نے اپنی شکست کا بدلہ لے لیا۔
حالیہ معرکہ اس اعتبار سے بھی تاریخی ہے کہ پہلی بار ایک غیر مسیحی امیدوار کو کسی بڑی جماعت نے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے، کملا ہیرس امریکی تاریخ کی غیر مسیحی اور پہلی خاتون نائب صدر تھیں۔ اگر 5 نومبر کو کملا جی صدر منتخب ہوگئیں تو وہ ایک نئی تاریخ رقم کریں گی۔
آج کی نشست میں ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا تعارف:
78 سالہ ڈونلڈ جے ٹرمپ ددھیال کی جانب سے جرمن نژاد اور ان کی والدہ صاحبہ کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے تھا۔ ہم نے ان کے خاندانی پس منظر کا ذکر اس لیے کیا کہ موصوف کو غیر ملکی تارکین وطن کا امریکا آنا سخت ناپسند ہے۔ ان کے داداجان 16 برس کی عمر میں اور والدہ محترمہ ماریہ مکلیوڈ جب 17 سال کی تھیں تو سیاح کی حیثیت سے امریکا تشریف لائیں۔ ماریہ صاحبہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے والد سے شادی کرکے اپنے آبائی وطن کو خیرباد کہہ دیا۔ اس اعتبار سے ٹرمپ صاحب تارکین وطن کے پوتے اور بیٹے ہیں۔ ان کی پہلی اہلیہ ایوانا کا تعلق چیکوسلاواکیہ سے تھا، جن سے طلاق کے بعد انھوں نے ایک امریکی اداکارہ مارلا میپل سے شادی کی۔ ٹرمپ صاحب کی تیسری اور موجودہ بیوی ملانیا، سلووانیہ (سابق یوگو سلاویہ) نژاد ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے والد فریڈ ٹرمپ کو اپنے والد سے ترکے میں کثیر سرمایہ ملا جس سے انھوں نے جائداد کی خرید وٖفروخت اور تعمیر کا کام شروع کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنے والد کے ساتھ اس کاروبار میں آگئے اور رئیل اسٹیٹ کے ساتھ تفریحی ٹیلی ویژن، ہوٹل، گالف کورس اور ملبوسات کا کام شروع کیا۔ تفریح کی دنیا سے وابستگی کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ شراب اور سگریٹ سے مکمل پرہیز کرتے ہیں جس کی وجہ ان کے برادرِ بزرگ کی کثرتِ مئے نوشی سے ہلاکت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے بیٹے، بیٹیاں، داماد اور بہو بھی شراب سے اجتناب کرتے ہیں۔ جنگِ ویت نام کے دوران مسٹر ٹرمپ نے جھوٹ بول کر لازمی فوجی خدمت سے استثنا حاصل کرلیا۔ مسٹر ٹرمپ کی کاروباری ساکھ بے حد مشکوک ہے۔ وہ چھ بار خود کو دیوالیہ قرار دے چکے ہیں جس کا بنیادی مقصد قرض کی ادائیگی سے فرار تھا۔ وہ ایک سخت گیر آجر اور مغرور افسر (boss)کے طور پر مشہور ہیں۔ معمولی باتوں پر زیر دستوں کی بے عزتی اور ملازمتوں سے فراغت ان کی عادت ہے۔ دفتر میں You-are-fired ان کا تکیہ کلام ہے۔ تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر، واجبات سے نارواکٹوتی اور ملازمین پر بھاری جرمانے موصوف کا طرہ امتیاز ہے۔
گفتگو اور تقریر کے میدان میں ان کی صلاحیت واجبی سی ہے۔ ذخیرہئ الفاظ بے حد مختصر ہے جس کی بنا پر تقریر کے دوران وہ ایک ہی لفظ کو بار باردہراتے ہیں۔ ٹیکسوں کی ادائیگی کے باب میں بھی جناب ٹرمپ کی شہرت اچھی نہیں۔ وہ بہت فخر سے فرماتے ہیں کہ میں ٹیکس بچانے کے لیے ہر قانونی حربہ استعمال کرتا ہوں۔ اصرار کے باوجود مسٹر ٹرمپ اپنے ٹیکس گوشواروں کی اشاعت پر تیار نہیں، حالانکہ یہ امریکا کے صدارتی امیدواروں کے روایت ہے۔ جناب ڈونلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ کے واحد صدارتی امیدوار ہیں جو سرکاری راز افشا کرنے، آمدنی و اثاثوں کے بارے میں غلط بیانی، مالی بدعنوانی اور دوسرے 34 الزامات میں مجاز عدالت سے مجرم ثابت ہوچکے ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کی فراہم کردہ استثنائی چھتری نے انھیں جیل یاترا سے امان دی ہوئی ہے۔
متلون مزاج ٹرمپ اپنی سیاسی وابستگی نظریہئ ضرورت کے تحت تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ 1980ء میں وہ ریپبلکن پارٹی میں تھے اورانھوں نے رونالڈ ریگن کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ رونالڈ ریگن کے بعد وہ صدر (ڈیڈی) بش کے ساتھ رہے لیکن وہائٹ ہاؤس کی مبینہ ’سردمہری‘ کے باعث سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ 1999ء میں وہ ریفارم پارٹی میں شامل ہوگئے۔ ان کی نظریں 2000ء کے انتخابات پر تھیں لیکن وہاں خرانٹ سیاست دان پیٹ بوکینن نے ان کی ایک نہ چلنے دی، چنانچہ 2001ء میں انھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کا دامن تھام لیا۔ 2004ء میں انھوں نے ڈیموکریٹک کا ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن ہوا کا رخ دیکھ کر دبکے رہنے ہی میں عافیت جانی۔ 2008ء میں دوسری ناکام کوشش کے بعد 2011ء میں انھوں نے دوبارہ ریپبلکن پارٹی کی رکنیت اختیار کرلی۔
آٹھ سال پہلے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ان کا رویہ بہت سخت تھا۔ مسٹر ٹرمپ نے 2016ء کے انتخابات میں وعدہ کیا تھا کہ وہ برسراقتدار آکر مسلمانوں کی امریکا آمد کو اُس وقت تک معطل رکھیں گے جب تک ایف بی آئی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے امریکا داخل ہونے والے مسلمانوں کے بارے میں تحقیقات کا ایک قابلِ اعتماد طریقہ وضع نہیں کرلیتے۔ وہ مسلمان آبادیوں کی نگرانی، امریکی مسلمانوں کی فکری و ذہنی وابستگی کے تجزیے یا profiling اور نئی مساجد کی تعمیر پر پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ تارکینِ وطن کے متعلق پالیسی بناتے وقت اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ دہشت گردی کی حمایت کرنے والے ممالک (پاکستان، ایران، سوڈان، شام، سعودی عرب، ترکی اور مصر) کے لوگوں کو ویزا جاری کرتے وقت انتہائی احتیاط برتی جائے۔ کامیابی کے بعد 2017ء میں برسراقتدار آتے ہی انھوں نے اس سلسلے میں احکامات بھی جاری کیے۔ تاہم حالیہ انتخابی مہم میں اس معاملے پر وہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
دوسرے امریکی رہنماؤں کی طرح صدر ٹرمپ بھی اسرائیل کے پُرجوش حامی ہیں۔ انھوں نے برسرِاقتدار آتے ہی اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا۔ تاہم یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ منتقلی کا فیصلہ صدر کلنٹن کے دور میں ہوا جس پر صدر ٹرمپ نے عمل درآمد کروایا۔ انھوں نے مقبوضہ شامی علاقے گولان کو اسرائیلی ریاست کا حصہ تسلیم کرلیا۔ ان ہی کی کوششوں سے بحرین، متحدہ عرب امارات اور مراکش نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کیے۔
مسٹر ٹرمپ کا خیال ہے کہ غیر ملکی، امریکیوں کو ملازمتوں سے محروم کررہے ہیں، چنانچہ وہ ویزوں کی تعداد کم کرنے اور غیر قانونی تارکینِ وطن کی فوری ملک بدری چاہتے ہیں۔ غیر ملکیوں کے ضمن میں ہسپانوی تارکینِ وطن ان کا ہدف ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ میکسیکو سے آنے والے تارکینِ وطن کی اکثریت جرائم پیشہ لوگوں پر مشتمل ہے اور وہ امریکی خواتین پر مجرمانہ حملوں میں ملوث ہیں۔ انھوں نے 2016ء میں وعدہ کیا تھا کہ ہسپانویوں کی امریکا میں غیر قانونی آمد روکنے کے لیے وہ میکسیکو اور امریکا کی سرحد پر ایک دیوار تعمیر کریں گے۔ میکسیکو اور امریکا کی سرحد3200 کلومیٹر سے زیادہ طویل ہے اور چار امریکی ریاستوں یعنی ٹیکساس، نیو میکسیکو، ایریزونا اور کیلی فورنیا کی سرحدیں میکسیکو سے ملتی ہیں۔ اس منصوبے کا تخمینہ اربوں ڈالر ہے اور مسٹر ٹرمپ کا دعویٰ تھاکہ وہ دیوار کی تعمیر کا خرچ میکسیکو سے وصول کریں گے۔ مزے کی بات کہ جناب ٹرمپ کی کنسٹرکشن کمپنی میں کام کرنے والے مزدوروں کی غالب اکثریت غیر قانونی ہسپانوی تارکینِ وطن پر مشتمل ہے۔
اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ غیر ملکی تارکینِ وطن تعلیم یافتہ امریکیوں کا حق مار رہے ہیں۔ لیکن بیچارے ہسپانوی تو گھاس کاٹنے، مچھلی صاف کرنے، تعمیراتی صنعت اور محنت مزدوری کے کام سے وابستہ ہیں جو امریکیوں کے بس کی بات نہیں۔ تعلیم یافتہ امریکیوں کا اصل مسئلہ ITکی صنعت ہے جہاں ہندوستانیوں نے مقامی لوگوں کو دیوار سے لگا رکھا ہے۔ ایک جانب امریکا میں تمام پُرکشش اسامیوں پر ہندوستانی قابض ہیں تو دوسری طرف IT اداروں نے صارفین کی خدمت (Customer-Support)کا کام ہندوستان منتقل کردیا ہے اور ٹیلی فون کے ذریعے چنائے اور بنگلور میں بیٹھے ماہرین امریکی صارفین کو تکنیکی مدد فراہم کرتے ہیں۔
جناب ٹرمپ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی فوری رہائی چاہتے ہیں۔ انھوں نے 2016ء میں وعدہ کیا تھا کہ وہ حلف اٹھاتے ہی آدھے گھنٹے کے اندر اندر پاکستان کو شکیل آفریدی کی رہائی پر قائل یا مجبور کردیں گے۔ لیکن کامیابی کے بعد انھوں نے اس کا کبھی ذکر بھی نہیں کیا۔ اِس بار انھوں نے ایسا ہی وعدہ غزہ کے اسرائیلی قیدیوں کے بارے میں کیا ہے۔
مسٹر ٹرمپ نیٹو کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور اسے امریکی خزانے پر بوجھ سمجھتے ہیں۔ حکومت میں آتے ہی انھوں نے نیٹو ارکان کو مجبور کیا کہ وہ اپنے واجبات دیانت داری سے ادا کریں۔
صدر ٹرمپ کا بڑا کارنامہ افغان جنگ کا خاتمہ ہے۔ انھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی افغانستان پر تاریخ کا سب سے بڑا غیر جوہری بم گراکر فتحِ مبیں حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی کے بعد قطر میں مذاکرات کی میز بچھادی اور طالبان کی شرائط پر امن معاہدہ ہوگیا۔ انتخابات میں شکست کی بنا پر امریکی فوج کا انخلا بائیڈن انتظامیہ کے دور میں ہوا۔
مسٹر ٹرمپ کا منشور دہشت گردی کے خلاف جنگ، داعش کا خاتمہ، امریکا آنے والے غیر ملکیوں کی تعداد میں کمی، غیر قانونی تارکینِ وطن کی فوری ملک بدری، نیٹو اور دوسرے بین الاقوامی معاہدوں پر نظرثانی،کارپوریشنوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ کے ذریعے تجارت کی حوصلہ افزائی، کم سے کم اجرت، اجتماعی سوداکاری اور دوسری ’پابندیوں‘ کے خاتمے پر مشتمل ہے۔
اِن شااللہ آئندہ نشست میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار اور منشور کا تعارف پیش کیا جائے گا۔
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔