خواتین کا ایک مخصوص طبقہ معاشرے کو اس جانب راغب کرنا چاہتا ہے کہ معاشرہ خواتین کو ان کی مرضی کے مطابق بغیر کسی ججمنٹ کے قبول کرے۔ اس ضمن میں کہا جاتا ہے کہ کسی کی بھی ’’باڈی شیمنگ‘‘ نہ کی جائے۔ دیکھا جائے تو یہ ایک درست مطالبہ ہے۔
مگر یہی خواتین ہمیشہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر رنگ گورا کرنے، قد لمبا کرنے، بال لمبے کرنے اور اپنی جلد کو خوب صورت بنانے کے نت نئے ٹوٹکے اور حربے پوچھتی اور بتاتی نظر آرہی ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر اَن گنت ’’انفلوئنسرز‘‘ صرف اور صرف میک اَپ کرنا سکھاتی ہوئی اور میک اپ کی برینڈز کی برینڈنگ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ کوئی بالوں کو سیدھا کرتا ہوا دکھا رہا ہے، تو کوئی آپ کو شیشے جیسی شفاف جلد کرنے کے لیے بہترین مصنوعات بتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ وزن کم کرنے کے لیے مختلف ادویہ اور ڈائٹ پلانز بھی اب بآسانی مل جاتے ہیں۔ بات صرف اس پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اب تو چہرے اور جسم کی تراش خراش کے لیے باقاعدہ سرجری بھی متعارف کرا دی گئی ہے جس کے ذریعے آپ اپنی ناک، ہونٹ اور آنکھوں کے ساتھ ساتھ جسم کے تقریباً تمام حصوں کو اپنی منشا کے مطابق خوب صورت اور دل فریب بنا سکتے ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کا سب سے اہم ہدف خوب صورت اور حسین نظر آنا ہی ہے، اور معاشرے کے قائم کردہ خوب صورتی کے معیار پر پورا نہ اترنا خواتین کے لیے جیسے کوئی ذلت کا مقام ہے۔
انسان کا خوب صورت بننا اور لگنا اس کا حق ہے۔ مگر سوچیے کہ یہ کیسی دوغلی پالیسی ہے جس کے ذریعے آپ گھر بیٹھی عام خواتین کو تو یہ ترغیب دیتے نظر آرہے ہیں کہ
“You’re looking beautiful the way you are “
مگر آپ خود اس بات پر عمل کرتے نظر نہیں آتے اور عام خواتین کو احساسِ کمتری میں مبتلا کر رہے ہیں۔
ذرا سوچیے! یہ وہ مائیں ہیں جنہیں اپنے بچوں کو پُراعتماد بنانا ہے، انہیں ظاہری شکل و صورت کی بنیاد پر تعصب پسندی سے نکالنا ہے اور خداوند تعالیٰ کی تخلیق پر راضی ہونا سکھانا ہے۔ خوب صورت لگنا کوئی بری بات نہیں ہے، مگر ہمیں اپنی بچیوں کو یہ بتانا ہے کہ زندگی میں سرخی پاؤڈر اور بالوں کو رنگوانے سے کہیں زیادہ بڑے مسائل بھی پائے جاتے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو تعلیم و تربیت کی بنیاد پر آگے بڑھنا سکھانا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ پرانے زمانے کی خواتین اَن پڑھ ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کو پُراعتماد نہ بنا سکیں، حالانکہ ایسا ہر گز نہیں۔ پچھلی نسل جس قدر پُراعتماد تھی اسی قدر ہر شعبے میں آگے سے آگے بڑھنے کی مشتاق بھی تھی۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج کی نسل جس قدر احساسِ کمتری اور ایک دوسرے سے حسد کا شکار ہے ایسے پہلے کبھی نہیں تھی، اور اسی قدر اس کے نزدیک سب سے اہم کام خوب صورت اور منفرد نظر آنا ہے۔