گزشتہ ہفتے بزمِ یارانِ سخن کراچی نے وی ٹرسٹ گلشن اقبال کراچی میںادبی تنظیم دبستان کے اعزاز میں تقریب پزیرائی اور مشاعرہ ترتیب دیا جس کی مجلس صدارت میں رفیع الدین راز‘ سعید الظفر صدیقی اور رونق حیات شامل تھے۔ ڈاکٹر افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ داکٹر عابد شیروانی ایڈووکیٹ‘ حنا سجاول ایڈووکیٹ‘ فرح کلثوم ایڈووکیٹ اور ایم ایس سرفراز ایڈووکیٹ مہمانانِ خصوصی تھے۔ آئیرن فرحت نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ عابد شیروانی نے تلاوتِ کلام کی سعادت حاصل کی۔ زیفرین صابر نے حمد باری تعالیٰ پیش کی۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ نے بارگاہِ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں نعت پیش کی اور سلمیٰ رضا سلمیٰ نے سلام امام حسینؓ کی سعادت حاصل کی۔ سرور چوہان نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ بزمِ یارانِ سخن 1974ء میں قائم ہوئی تھی۔ فنون لطیفہ کی شاخوں میں شاعری ایک مضبوط ادارہ ہے یہ صنفِ سخن ہمارے دل و ذہن پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ شاعری سے زندگی کے مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں مثبت انداز کے اشعار معاشرے کو سنوارنے میں مدد گار ہوتے ہیں‘ مزاحمتی شاعری سے سوئے ہوئے ضمیر بیدار ہوتے ہیں۔ قلم کاروں نے قیام پاکستان میں بھی انتہائی اہم کردار اداکیا تھا جن معاشروں میں قلم کاروں کی حوصلہ افزائی نہیںکی جاتی وہ معاشرے ترقی نہیں کرسکتے۔
ڈاکٹر خالد محمود قیصر نے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب سے کراچی میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے تب سے ادبی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں‘ جو محکمے سندھی‘ اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے بنائے گئے ہیں ان سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ من پسند قلم کاروں کی پروموشن جاری ہے جب کہ جینوئن قلم کاروں کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اردو ہماری قومی زبان ہے‘ اب یہ بین الاقوامی زبان میں شامل ہوگئی ہے اس زبان کو سرکاری زبان بنانے کے لیے عدالتی احکامات موجود ہیں۔
اختر سعیدی نے دبستان بار پاکستان کے عہدیداران کے لیے منظوم خراجِ تحسین پیش کیا اس کے علاوہ انہوں نے مجلسِ صدارت میں شامل شعرا پر اشعار پیش کیے۔ ان کی اس نظم کو بہت پزیرائی ملی اور سامعین نے انہیں بھرپور داد و تحسین سے نوازا۔ بزم یارانِ سخن کراچی کے صدر سلمان صدیقی نے کہا کہ عابد شیروانی ایڈووکیٹ کی پہلی نثری تخلیق ’’اسپین، اقبال کا دوسرا خواب‘‘ شائع ہوئی۔ نومبر 2023ء میں آپ کی دوسری کتاب ’’کی محمدؐ سے وفا تو نے‘‘ منظر عام پر آئی اس کے علاوہ آپ کراچی کی متعدد ادبی تنظیموں میں شامل ہیں جہاں سے اردو زبان و ادب کی ترقی میں اپنا حصہ شامل کر رہے ہیں۔ بلاشبہ آپ اردو کی پروموشن میں قابل فخر خدمات انجام دے رہے ہیں۔افتخار ملک ایڈووکیٹ غزل کی روایتی شاعری کے حوالے سے اپنی شناخت رکھتے ہیں‘ آپ دبستانِ بار پاکستان کے چیئرمین ہیں جب کہ عابد شیروانی اس ادبی ادارے کے صدر ہیں۔ آپ نشاطِ ادب کے روح رواں بھی ہیں۔ آپ کی شاعری میں زندگی رواں دواں ہے‘ آپ نے فارسی اور عربی استعارے بہت عمدگی کے ساتھ اردو شاعری میں استعمال کرکے شہرت و عزت پائی ہے۔ آپ کا 200 غزلوں پر مشتمل دیوان بہت جلد منظر عام پر آنے والا ہے۔
حنا سجاول ایڈووکیٹ نسائی ادب میں کافی عزت و شہرت کی حامل ہیں‘ ان کی شاعری میں عورتوں کے مسائل اٹھائے گئے ہیں۔ یہ دبستان بار پاکستان کی نائب صدر ہیں۔ فرح کلثوم ایڈووکیٹ دبستان بار کی جنرل سیکرٹری ہیں‘ ان کی شاعری کی کتابیں ’’شب پیمائی‘‘ اور ’’گدازِ عشق‘‘ شائع ہو چکی ہیں۔ انہوں نے جرائم اور سدباب جرائم پر ایم فل کا مقالہ لکھ کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا ہے ان کی شاعری میں زندگی کے تمام رویے ڈسکس ہوئے ہیں۔ میں بزمِ یارانِ سخن کی طرف سے دبستانِ بار کے عہدیداروں کو سلام عقیدت پیش کرتا ہوں۔ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ وہ بزمِ یارانِ سخن کے شکر گزارہیں کہ انہوں نے ہمارے ادارے کے لیے تقریب پزیرائی کا اہتمام کیا میں ان کے ساتھ جڑا ہوا ہوں‘ اردو ادب کی ترقی کے لیے میںہر وقت حاضر ہوں۔
رونق حیات نے کہا کہ دبستان کراچی میں بھارت سے آئے ہوئے شعرا کا کردار بہت اہم ہے‘ تاہم اس وقت دبستانِ کراچی میں ادبی گروہ بندیاں اپنے عروج پر ہیں جس سے ادب کی ترقی متاثر ہو رہی ہے۔ ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ ہم قلم کاروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں اس سلسلے میں ہم نے کئی سیمینار بھی کیے ہیں اور ہم کراچی کی اہم ادبی تنظیموں کا اجلاس بلا کرزبان کی ترقی کے لیے ایک ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں‘ ہم نظر انداز قلم کاروں کو اسٹیج فراہم کر رہے ہیں۔ اس موقع پر حیدرآباد کے معروف صحافی فیاض الحسن نے اسٹیج پر موجود مہمانوں کو اجرک پہنائے اور پھولوں کے تحائف پیش کیے۔ بزمِ یاران سخن کراچی کی طرف سے دبستان بار کے عہدیداروں کو گل دستے اور اجرکیں پیش کی گئیں۔
افتخار ملک ایڈووکیٹ نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان کا قیام ہماری قوت و طاقت کا مظہر ہے‘ اس وقت پاکستان شدید مشکلات کا شکار ہے‘ ملک و قوم کی ترقی میں شعرا بھی شریک ہے لہٰذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قومی وقار بلند کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں‘ اپنے کلام کے ذریعے لوگوں کے ضمیر بیدارکریں۔
نثری نشست کے بعد مشاعرے شروع ہوا جس میں رفیع الدین راز‘ سعیدالظفر صدیقی‘ رونق حیات‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ فرح کلثوم ایڈووکیٹ‘ حنا سجاول ایڈووکیٹ‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ حجاب عباسی‘ سلیم فوز‘ احمد سعید خان‘ آئیرن فرحت‘ شائستہ سحر‘ تنویر سخن‘ شجاع الزماں شاد‘ کامران صدیقی‘ فخر اللہ شاد‘ سلمیٰ رضا سلمیٰ‘ حمیدہ کشش‘ کشور عروج‘ سرور چوہان‘ نعمت منشا‘ عفت مسعود‘ صدف بنت اظہار اور نور فیاض نے کلام پیش کیا۔