آخری قسط
عقلیت پرستی کے دور کا دوسرا بڑا امام نیوٹن ہے۔ سائنس میں اس کا سب سے بڑا کار نامہ ’’کشش ثقل کے قانون‘‘ کی دریافت ہے۔ لیکن مغربی ذہن پر اس کا اثر بہت گہرا پڑا ہے۔ یہ قانون معلوم کر کے اس نے گویا یہ دکھا دیا کہ کائنات کا نظام چند واضح قوانین کے ذریعے چل رہا ہے۔ اگر انسان اپنی عقل (جزوی) کی مدد سے یہ قوانین دریافت کرلے تو کائنات اور فطرت پر پورا قابو حاصل کر سکتا ہے۔ قوانین دریافت کرنے میں وقت لگے گا میں وقت لیکن انسان کو یہ امید رکھنی چاہیے کہ ایک دن فطرت کو فتح کرلے گا۔
سائنس نیوٹن سے بہت آگے چلا گیا اور اس کا تصور کائنات رد کر دیا گیا، مگر اس نے جو ذہنیت پیدا کی تھی وہ بڑھتی چلی گئی ہے۔
نیوٹن کی نظر میں کائنات اور فطرت ایک بے جان مشین تھی اور انسان ایک انجینئر کی طرح تھا۔ کائنات کے اس نظریے کو ’’میکانکیت‘‘ کہتے ہیں۔ انیسویں صدی میں بعض منکروں نے اس نظریے کو رد کر دیا اور یہ ثابت کیا کہ کائنات اور فطرت بھی انسان کی طرح جان رکھتی ہے اور نمو اس کی بنیادی خصوصیت ہے اور کائنات خود اپنی توانائی سے زندہ ہے۔ اس نظریے کو ’’نامیت‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ایک اور جھگڑا ہے جو تقریباً دو سو سال سے مغربی فکر میں چلا آرہا ہے اور جس کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ پچھلے دو سو سال کے عرصے میں مغرب کے فلسفی اور سائنس داں دو حریف جماعتوں میں صف آرا چلے آرہے ہیں۔ ایک گردہ میکانکیت کا قائل ہے، دوسرا نامیت کا۔
عقلیت پرستی کے دور میں ہی نفسیات کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے نفسیات کوئی الگ علم نہیں تھا، بلکہ فلسفے ہی کا حصہ تھا۔ ابن رشد نے تو علم النفس کو طبیعات کے ماتحت رکھا ہے۔ نفسیات کو فلسفے سے الگ کرنے کا کام سترہویں صدی کے دوسرے حصے میں انگریز مفکر لاک (Locke) نے سر انجام دیا اور اس کے نظریات میں اضافہ اٹھارویں صدی کے انگریز مفکر ہارٹلے (Hartley) نے کیا۔ نیوٹن نے کائنات کو مشین سمجھا تھا۔ ان دو مفکروں نے انسانی ذہن کو بھی مشین سمجھا۔ ان کا خیال ہے کہ ذہن بجائے خود کوئی چیز نہیں، خارجی اشیا انسان کے اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ (مثلاً کوئی چیز دیکھی یا سونگھی یا چھوٹی) تو اعصاب میں ایک ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ یہ ارتعاش دماغ کے مرکز میں پہنچ کر تصویر کی شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے اور پھر تصویر خیال بن جاتی ہے۔ اس طرح خارجی اشیا کے عمل سے ذہن پیدا ہوتا ہے۔
اس نظریے کا جواب اٹھارہویں صدی میں پادری بار کلے (Berkeley) نے دیا۔ اس کا خیال ہے کہ خارجی اشیا کو وجود حاصل نہیں، بلکہ ذہن خارجی اشیا کو پیدا کرتا ہے۔ جب کوئی آدمی کہتا ہے کہ میں نے پھول دیکھا تو اس کے پاس پھول کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ یہ تو بس ایک ذہنی ادراک ہے اس سے نتیجہ نکلا کہ ذہن خارجی اشیا کو پیدا کرتا ہے۔ پادری بار کلے نے انسانی ذہن کے نمونے پر خدا کا بھی ذہنی تصور کیا تھا (نعوذ باللہ )۔ اس نظریے کو ’’مثالیت‘‘ (Idealism) کہتے ہیں۔
انسانی ذہن کے یہ دونوں نظریے دراصل روح اور مادے کے اسی تقابل کا نتیجہ ہیں جو دیکارت سے شروع ہوا تھا، اور اس لیے ان دونوں کے درمیان کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی۔ اٹھارہویں صدی کا انگریز فلسفی ہیوم (Hume) ایک معاملے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اس نے کہا ہے کہ ہر ایسے لفظ کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہیے جو کسی ایسی چیز پر دلالت کرتا ہو جسے حسی تجربے میں نہ لایا جاسکے۔ یعنی وہ چاہتا یہ تھا کہ انسانی زبان و بیان سے ایسے لفظ بھی خارج کر دیے جائیں جن کا تعلق روحانیت سے ہو۔ یہ رجحان آگے چل کر انیسویں صدی میں فرانس کے فلسفی کونت (Comte) کے ’’نظریہ ثبوتیت‘‘ (Positivisim) کی شکل میں ظاہر ہوا اور بیسویں صدی میں انگریزوں کے ’’منطقی ثبوتیت‘‘ (Logical Positivism) کی شکل میں۔ ان فلسفوں کا بیان آگے ہوگا۔
اٹھارہویں صدی میں ایک نئی قسم کا مذہب نمودار ہوا جو دراصل دہریت کی ایک شکل ہے۔ اس کا نام Deism (خدا شناسی) رکھا گیا۔ اس دور کے لوگ کہتے تھے کہ عقل (جزوی) انسان کا خاص جو ہر ہے اور یہ چیز ہر زمانے اور ہر جگہ کے انسانوں میں مشترک ہے اور ہر جگہ ایک ہی طرح کام کرتی ہے۔ چنانچہ خدا کو پہچاننے کے لیے وحی پر تکیہ کرنے کی ضرورت نہیں، عقل (جزوی) کی مدد سے بھی خدا تک پہنچ سکتے ہیں۔ عقل کے ذریعے چند ایسے اصول معلوم کیے جاسکتے ہیں جو سارے مذاہب میں مشترک ہوں۔ ان اصولوں کا مجموعہ ہی اصل مذہب ہو گا۔
جب انگریز ہمارے یہاں آئے تو ان کے اثر سے یہ رجحان ہمارے برصغیر میں بھی پہنچا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد ’’خدا شناسی‘‘ کے جو میلے انگریزوں نے کرائے ان کے پیچھے یہی رجحان تھا۔ ہندو اس سے بہت متاثر ہوئے اور انیسویں صدی کے شروع میں راجا رام موہن رائے نے جو ’’بر ہمو سماج‘‘ کی بنیاد ڈالی وہ اس اثر کا نتیجہ تھا۔ مسلمان بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ 1836ء میں کمبل پوش نے یورپ کا سفر کیا تھا اور دس سال بعد اپنا سفرنامہ لکھا۔ ان کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ جانے سے پہلے ہی وہ ’’خدا شناسی‘‘ سے متاثر ہو چکے تھے۔ اس کا نام انہوں نے ’’سلیمانی مذہب‘‘ رکھا ہے۔ اسی کے اثرات اردو شاعر غالب کے یہاں بھی نظر آتے ہیں۔
عقلیت پرستی کے دور کی ایک مرکزی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے انسانی زندگی اور انسانی فکر میں سب سے اونچی جگہ معاشرے کو دی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ فرد کو اپنے ہر فعل اور قول میں معاشرے کا پابند ہونا چاہیے۔ یہ لوگ مذہب کو بھی صرف اسی حد تک قبول کرتے تھے جس حد تک کہ مذہب معاشرے کے انضباط میں معاون ہو سکتا ہے۔ غرض معاشرے کو بالکل خدا کی حیثیت دے دی گئی تھی نعوذ باللہ۔ اس کے خلاف رد عمل انیسویں صدی میں ہوا اور معاشرے کے بجائے فرد کو اہمیت دی گئی۔ بیسویں صدی میں اشتراکیت کے زیر اثر بعض لوگ معاشرے کو پھر خدا ماننے لگے۔
مغربی فکر میں جس طرح روح اور مادے، ذہن اور جسم، عقل اور جذبے کے درمیان مسلسل کشمکش جاری ہے، اسی طرح معاشرے اور فرد کی کشمکش بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور اس کا بھی کوئی حل نہیں ملتا۔ مغرب میں جو معاشرتی انتشار پھیلا ہوا ہے اور روز بہ روز بڑھتا ہی جاتا ہے‘ اس کی جڑ یہی تضاد ہے۔ ان تصریحات سے پتا چلتا ہے کہ مغرب کا ذہن کسی طرح کی وحدت تک پہنچ ہی نہیں سکتا اور دوئی، تضاد اور کثرت میں پھنس کے رہ گیا ہے۔ وحدت کا اصول قائم کرنے کی جتنی کوششیں ہوئی ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکیں، اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ مغرب مادے میں وحدت ڈھونڈتا ہے جہاں کثرت اور شکست و ریخت کے سوا کچھ نہیں مل سکتا۔ مغرب چاہے معاشرے کو اوپر رکھے یا فرد کو دونوں نظریوں میں ایک بات مشترک ہے انسان پرستی۔ بیسویں صدی میں بعض مفکر اور ادیب ایسے بھی ہیں جو انسان کو حقیر سمجھتے ہیں یا انسان سے نفرت کرتے ہیں، لیکن ان کی فکر کا مرکز بھی انسان ہی ہے۔