ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں کئی قسم کے طبقات پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو راتوں رات امیر بننے کا خواہش مند ہے، کام دھندا کیے بغیر گاڑی، بنگلہ، یہاں تک کہ زندگی کی تمام آسائشیں حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔ رات بھر موبائل فون استعمال کرنا، ٹک ٹاک بنانا اور صبح بلکہ دوسرے پہر اٹھنا ان کی زندگی کا مقصد ہے۔ بس اسی آس پر جیے جارہے ہیں کہ ایک دن سوشل میڈیا پر وائرل ہوکر دنیا بھر میں دھوم مچا دیں گے، پھر تو بس ہم ہوں گے اور ڈالرز کی ایسی برسات کہ مت پوچھیے۔
راشد کا شمار بھی اسی طبقے میں ہوتا ہے جو ڈالر کی آمد کی آس لگائے مسلسل فاقہ مستی بلکہ ہڈ حرامی کی زندگی گزارنے میں مصروف ہے۔ باتیں ایسی کہ نہ پوچھیے۔ لمحوں میں پیسہ کمانے کے وہ وہ گر بتانے لگتا ہے کہ آپ بھی گرویدہ ہوجائیں۔ پچھلے دنوں محلے میں قائم کیفے پر اپنے چند دوستوں کے ساتھ بیٹھا دکھائی دیا۔ اعلیٰ قسم کا سوٹ زیب تن کیے راشد کے تو مزاج ہی وکھرے تھے۔ میں بھی اُس جتھے کے قریب جا بیٹھا اور خاموشی سے ان کے درمیان ہونے والی سوشل میڈیا کے ذریعے پیسہ کمانے کی فضول گفتگو سننے لگا۔ خاصی دیر خاموش رہنے کے بعد مجھ سے نہ رہا گیا، اور میں نے راشد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
”تم آخر کب تک خود کو دھوکا دیتے رہو گے! خوابوں کی دنیا سے حقیقی زندگی کی جانب آؤ، یوں باتیں بگھارنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ جن گھرانوں کے پاس پیسہ ہے تم ویسا بننے کے خواب نہ دیکھا کرو۔ اُن کے پاس دولت باتیں کرنے یا ایک رات میں نہیں آئی، اُن کے اجداد نے کام کیا ہے، مختلف کاروبار کیے ہیں، دن دیکھا نہ رات کا سکون…… برسوں محنت کی ہے، اپنا خون پسینہ دے کر یہ مقام حاصل کیا ہے، اور تم کیا سوچتے ہو کہ یہ سب کچھ یونہی محنت کیے بغیر مل جائے گا! شیخ چلی نہ بنو، کام کرو کام۔ جوان آدمی ہو، کہیں ملازمت کرلو۔“
میری نصیحت اُس پر بھلا کیا اثر کرتی! میری باتوں کو سنی ان سنی کرکے بڑے اطمینان سے کہنے لگا:
”جو میں کررہا ہوں وہ بھی تو کام ہے۔ آج کل ڈیجیٹل مارکیٹنگ کا دور ہے، اس میدان میں راتوں رات پیسہ کمایا جا سکتا ہے، لوگ اسی کے ذریعے کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔ اور جہاں تک ملازمت کرنے کا تعلق ہے تو ملازم نوکر ہوتا ہے، اور نوکر غلام۔ میں کسی کی غلامی کیوں کروں! میں ایسی زندگی گزارنے کا قائل نہیں۔ میں نے سوچ لیا ہے چاہے کچھ بھی کرنا پڑے مال بنانا ہے۔ اور ہاں خواب دیکھنا بری بات نہیں، خواب وہی دیکھتے ہیں جو انہیں پورا کرسکیں۔ اس لیے مجھے خوابوں کی دنیا میں ہی رہنے دو۔“
راشد کی جانب سے ادا کیے جانے والے جملے ”کچھ بھی کرنا پڑے“ سے صاف ظاہر تھا کہ وہ کچھ نہیں کرے گا۔ ظاہر ہے کچھ بھی کرنے سے میری مراد کوئی کام کرنا ہوتا ہے، ٹک ٹاک کو ڈیجیٹل مارکیٹنگ کا نام دینا نہیں۔ راشد بہت منہ زور ہے، اب اگر وہ سمجھنے کو تیار نہیں تو مجھے کیا!
دیکھا آپ نے، یہ ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے اس طبقے کا ذہن ہے جو بغیر ہاتھ پاؤں ہلائے راتوں رات آسمان کی بلندیوں کو چھونے کا خواہاں ہے۔
خیر ہمارے درمیان ایک ایسا طبقہ بھی بستا ہے جس کا دل دوسرے کی پریشانی میں تڑپ اٹھتا ہے۔ ملکی معاشی حالات ہوں یا محلے کے مسائل…… ہر موضوع پر ان کے جذبات کا ابھرنا بے مثل ہے۔ اسی طبقے سے تعلق رکھنے والے منے میاں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ سارے جہاں کا درد گویا ان کے جگر میں ہے۔ کل شریف بھائی کے تھڑے پر بیٹھے واعظ دیتے ہوئے فرما رہے تھے:
”ملک کی معاشی حالت خراب ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بجلی اور گیس کے بلوں نے تو کمر توڑ کر رکھ دی ہے، غریب کا کوئی پرسانِ حال نہیں، ہر کوئی اپنے اپنے چکروں میں لگا ہوا ہے۔ عوام پینے کے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور اشرافیہ منرل واٹر پی رہی ہے۔ سب ہمارے ٹیکسوں پر مزے اڑا رہے ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے جینا حرام کر رکھا ہے۔ قانون اور انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔ جو طاقتور ہیں اُن ہی کی سنی جاتی ہے، ہمارا کوئی نہیں۔ ہر سیاسی جماعت ڈیل کرکے اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے، پارلیمنٹ میں ہماری آواز اٹھانے والا کوئی نہیں۔ ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے۔ عوام کو اپنی طاقت کا اندازہ نہیں، میرا دعویٰ ہے جس دن عوام کو اپنی طاقت معلوم ہوجائے اُس روز انقلاب آجائے گا۔ لوگ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے نکلنے کو تیار نہیں، میرا دعویٰ ہے کہ عوام حکمرانوں کے خلاف نکلیں تو حالات بدل جائیں گے۔ میں تو کہتا ہوں ’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘۔ یہی وقت ہے سب کو یک زبان ہوکر جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنی ہوگی۔“
شریف بھائی بھی خوب ہیں، کبھی کبھی وہ کچھ کردیتے ہیں جس کی امید نہ ہو۔ منے میاں کو ٹوکتے ہوئے بولے:
”کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو، تمہاری باتوں میں بہت وزن ہے، خاص طور پر ”نظام کے خلاف عوام کو سڑکوں پر آنا چاہیے“ اس بات میں بھی دم ہے۔ میں مانتا ہوں مسائل محض تقریروں سے نہیں، عمل سے حل ہوتے ہیں، لوگوں کو اپنے جائز مطالبات تسلیم کروانے کے لیے احتجاجی مظاہرے کرنے اور دھرنے دینے پڑتے ہیں۔ یہ بتائیں کہ ایسے عوامی احتجاجی دھرنوں میں عملی طور پر آپ شریک ہوئے؟ پچھلے دنوں امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے مہنگائی اور بجلی کے بلوں پر وصول کیے جانے والے درجنوں ٹیکسوں اور آئی پی پیز کی بدمعاشیوں کے خلاف جو دھرنا دیا آپ اُس میں شریک ہوئے؟ یا کراچی جماعت اسلامی کے تحت کیے جانے والے احتجاجی مظاہروں میں اپنی حاضری کو یقینی بنایا؟“
شریف بھائی نے منے میاں کو تو جیسے لاجواب ہی کردیا…… کوئی جواب نہ بن پایا تو کہنے لگے:
”میاں حکومتوں سے لڑنا آسان نہیں ہوتا، اب مجھ میں اتنی سکت کہاں کہ کسی دھرنے میں جاؤں! میری طبیعت ویسے ہی خراب رہتی ہے اور پھر ایک شخص یا جماعت اگر یہ کام کررہے ہیں تو کرنے دو، ہمارا جانا ضروری تو نہیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن اگر بجلی کی قیمت کم کروانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ہمارا بل بھی کم آئے گا۔“
دیکھا آپ نے اس طبقے کا ذہن! دوسروں کو نصیحت، انقلابی لیکچر، اور خود بے عمل۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قومِ موسیٰ کے بارے میں جو آیت نازل کی وہ اسی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے، یا یہ آیت ایسے لوگوں کے لیے ہی ہے۔ سورۃ المائدہ میں ہے:
(ترجمہ)”موسیٰؑ کی قوم موسیٰؑ کو مخاطب کرکے کہنے لگی کہ جب تک وہ لوگ وہاں سے نکل نہیں جاتے ہم وہاں کبھی نہ جائیں گے اور نہ ہی اپنے آپ کو دیدہ دانستہ ہلاکت میں ڈالنے کو تیار ہیں، اگر تمہیں جہاد پر اتنا ہی اصرار ہے تو جاؤ تم اور تمہارا رب جاکر ان سے مقابلہ کرو، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔“
آیت کا ترجمہ پڑھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ فقط ایک منے میاں ہی نہیں بلکہ وہ طبقہ جس سے منے میاں کا تعلق ہے، باتونی گروہ کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تھی اس طبقے کی بات جو عملی طور پر میدانِ عمل میں جانے سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو بات تو نہیں کرتا لیکن اس کی آنکھیں سب بتاتی ہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جس کے چہرے سے عیاں ہوتی غربت اس کے حالات کا پتا دیتی ہے، اور ان کی سننے والا کوئی نہیں۔ اکرم کا تعلق اسی طبقے سے ہے جس کی داستان سن کر دل دہل جاتا ہے۔ اپنے حالات کا ذکر کرتے ہوئے اس نے بتایا:
”بڑے کٹھن حالات سے گزر رہا ہوں، اب تو یہ وقت آگیا ہے کہ اپنے بوڑھے والدین کو دو وقت کا کھانا بھی بمشکل کھلا پاتا ہوں۔کبھی سات، آٹھ سو روپے کی دیہاڑی لگ جائے تو کھانے پینے کا انتظام ہوجاتا ہے، ورنہ بڑی مشکل سے گھر والوں کے لیے دال، روٹی کا بندوبست ہوپاتا ہے۔ ایسے میں گھر کرائے کا ہو تو کرایہ کہاں سے ادا کریں گے! مَیں تو سڑک پر لگے کسی دسترخوان پر بیٹھ کر بھی کھا سکتا ہوں، لیکن میرے بوڑھے ماں باپ کہاں جاکر کھائیں گے؟ سچ کہوں تو اب ان حالات سے تھک گیا ہوں، والدین کی دوا کے لیے پیسے نہیں ہوتے،کبھی گھر میں راشن نہیں ہوتا، جانے زندگی کی گاڑی آگے کیسے بڑھے گی۔ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ اپنے والدین کی خدمت کروں، انہیں صحت بخش غذا کھلاؤں، دنیا کی نعمتیں ان کے قدموں میں ڈال دوں، لیکن جیب ہے کہ اجازت ہی نہیں دیتی۔
امّاں، ابّا بیمار ہوجاتے ہیں تو محلّے والوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے یا کسی سے قرض لے کر علاج کروانا پڑتا ہے۔ پہلے تو مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ گھر میں گوشت کا کوئی سالن پک جاتا تھا، مگر اب تو آٹا، دال خریدنا بھی محال ہوگیا ہے۔ مَیں تو غربت کی وجہ سے شادی بھی نہیں کررہا، سوچتا ہوں کسی کی بہن، بیٹی کو گھر پر لاکر کیوں بھوکا ماروں! زندگی سے ناامید ہوچکا ہوں، ماں باپ کا خیال نہ ہوتا تو خودکشی کرلیتا۔ جانتا ہوں یہ گناہ ہے، لیکن کیا کروں روز روز کے مرنے سے بہتر ہے یہ عمل کر گزروں۔ یہ میری داستان نہیں، ہر دوسرا شخص بدترین حالات کی چکی میں پس رہا ہے، ہر دوسرے گھر فاقے ہورہے ہیں، میں ایسے کئی خاندانوں کو جانتا ہوں جو رات کی سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر ناشتہ کرتے ہیں، خوراک نہ ملنے کی وجہ سے ان کے بچوں کی نشوونما رک چکی ہے، جسم میں خون کی کمی بچوں کی رنگت سے عیاں ہوتی ہے۔“
یہی وہ طبقہ ہے جو قابلِ رحم ہے۔ ویسے تو ہمارے ہاں ایک طبقہ اشرافیہ کا بھی ہے، لیکن اِس وقت وہ موضوعِ بحث نہیں۔ میرے نزدیک اگر بات کی جانی چاہیے تو اس طبقے کی، کی جائے جو دو وقت کی روٹی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے، ان کی مالی مدد کے لیے جو کچھ بن پائے کیجیے۔ میرا مشورہ ہے کہ اگر آپ اپنی روح کی حقیقی لذت کو محسوس کرنا چاہتے ہیں اور اِس دنیا میں رہتے ہوئے بھی جنت کی نعمتوں کا مزہ چکھنا چاہتے ہیں تو اپنے اردگرد محروم اور اذیت زدہ روحوں کو تلاش کرکے ان کی کسی بھی طریقے سے مدد کیجیے۔ یقین جانیے جب آپ زمین والوں پر رحم کرنا شروع کردیں گے تو آسمان والا بھی آپ کے لیے اپنی رحمت کے سارے دروازے کھول دے گا۔
nn