آخرشب کے ہم سفر

92

مسلم دور… ساری مسلم پیریڈ کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ سارے مسلمان بادشاہ خود کو فخریہ غازی کہتے تھے اور بت شکن، کافروں کو مارو۔ کتنے مندر گرا کر مسجدیں بنادیں۔

برطانوی دور کو لیجئے… سنیاسیوں اور مولویوں کی بغاوتیں، جہاد کے فتوے، اور حال میں رام کرشن مٹھ کے سوامی وویکا کے ساتھی چیلے چانٹے جو بنگال کے اولین دہشت پسندوں میں شامل تھے۔ انقلابیوں کو اپنے مٹھوں میں پناہ دیتے، خود انڈر گرائونڈ میں کام کرتے۔ اٹھارویں صدی کے سنیاسیوں کی معنوی اولاد… تاریخ کس طرح اس ہلاکت خیز ملک میں متواتر اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔

اور جو ہندوستانی بم نہیں پھینکتے انہیں تقریریں کرنے کا مرض ہے۔ ساری قوم اس عارضے میں مبتلا ہے۔ کپلنگ کو ۱۸۸۸ء میں پانیر نے الٰہ آباد سے غلاظت اور تعفن اور بھیانک راتوں کے شہر کلکتے بھیجا۔ وہاں بابو لوگ جنہیں ہم نے لوکل سلف گورنمنٹ سونپ دی تھی۔ اپنے شہر کی صفائی کے بجائے تقریریں کررہے تھے۔ میونسپل بورڈ اور بنگال لیجسلیٹو کونسل کے نیٹو ممبر بس دھواں دھار تقریریں کررہے تھے۔ نظریات کے بجائے ان حضرات کو کدال اور پھاوڑے سنبھالنے چاہئیں۔ کپلنگ نے انتہائی نفرت سے کہا تھا۔ یہ بات آج تک صحیح ہے۔

تقریریں کرتے ہیں اور بے حد ذہین ہیں۔ اس لیے دماغ قانونی موشگافیوں میں بھی خوب چلتا ہے۔ کاکوری ڈکیتی۔ صرف دس نوجوانوں نے چلتی ٹرین روک کر سرکاری خزانہ لوٹ لیا۔ کمال ہے۔ اس کے ملزمان کے دفاع میں موتی لال نہرو کی جرح میں نے خود سنی تھی۔ پٹنہ اور الٰہ آباد کے یہ سارے طباع قانون داں جو لندن سے قانون پڑھ کر آتے تھے اور اوکس برج کے تعلیم یافتہ لیڈروں کے مقدمے لڑ رہے تھے۔ یہ ہماری بابرکت امپیریلزم کا نتیجہ ہوا۔

انقلابیوں کے گیت… ’’بسے گا ہند پیچھے کو بسے گا انڈمان آگے‘‘۔ نذر الاسلام کے طوفانی گانے، ڈرامے، عوامی ناٹک، گرینڈ ڈیڈ اور ایڈروڈ بارلو کا بنگال ان آتشیں آوازوں سے گونج رہا ہے۔

یہ انقلابی واقعی بڑے جری لوگ تھے۔ اپنی تحریک کے قانون کے مطابق صرف تین چھٹانک چاول اور دو چھٹانک چنا ان کو روزانہ پیٹ بھرنے کے لئے ملتا تھا۔ اور حیرت انگیز صعوبتیں اُٹھا کر یہ ہم سے لڑ رہے تھے۔

اشلوک رٹتے اور نمازیں پڑھتے ہوئے دار پر چڑھتے تھے۔

سوال یہ ہے۔ چارلس بارلو نے پائپ کا گہرا کش لگا کر سرپیچھے ٹکایا کہ آئرش باغیوں نے بھی تو ہمارا ناک میں دم کردیا تھا۔ ان کو ہم اتنا مجرم نہیں سمجھتے، محض اس لیے کہ وہ گورے تھے؟

ستمبر ۱۹۳۹ء میں ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ نافذ کیا گیا کہ یورپ میں ہم ہٹلر کے مقابلے میں بالکل تنہا تھے اور ہندوستان میں ہمیں باغیوں اور مفسدوں کا مقابلہ کرنا تھا۔ گرینڈ ڈیڈ اور ڈیڈ ضرور خوش ہوں گے کہ میں نے اپنی بساط بھر اس قومی کرائسس کے موقع پر اپنے فرائض ادا کئے۔ اپنی حد تک میں نے اپنے اضلاع میں کمیونسٹوں کا قلع قمع کرنے کی کوشش کی۔ بے چارہ بل کینٹ ویل ان کے ایک لیڈر ریحان احمد کو نہ پکڑ سکا اور اس کی سزا میں اسے دور دراز رنگاماٹی تبدیل کردیا گیا۔

کامریڈ ریحان کو میں بھی کبھی نہ پکڑ سکا۔ میں خوش ہوں کہ اب حالات بدل چکے ہیں۔ یہ واقعہ ہے کہ مجھے ان لوگوں کو مجرموں کی طرح پکڑنا اچھا نہیں لگتا۔ مگر فرض فرض ہے۔

خدا کرے ایلس خیریت سے ہو۔ گارو ہلز میں ہمیشہ سے مشنریوں کا اثر ہے۔ مگر کمیونسٹ وہاں بھی زور پکڑ چکے ہیں۔ اور وہاں کے جنگلی کمیونسٹ اور سوشلسٹ کے باریک فرق کو نہ سمجھ سکیں گے۔

بلیاؔ میں باغیوں نے آزاد سرکار قائم کرلی۔ یوپی کی سڑکوں پر لڑکے ’’ہمارا بادشاہ کون؟ ابوالکلام آزاد‘‘! کے نعرے لگاتے پھر رہے ہیں۔ آسام میں گولیوں کی بارش ہورہی ہے۔ سبھاش چندر بوس نے رنگون میں بہادر شاہ ظفر کے مزار پر جا کر قسم کھائی ہے کہ وہ ہندوستان کو آزاد کراکر دم لیں گے۔

جیزس کرائسٹ!

چارلس بارلو نے زور سے انگڑائی لی۔ بہت جلد کیا میں بھی کرنل بلمپ کی طرح، ایک کردار ایک ٹائپ میں تبدیل ہوجائوں گا؟

اوکسفرڈ میں ایسے ہی ایک اتوار کی خاموش صبح دریا کے کنارے ٹہلتے ہوئے حسب معمول انڈر گریجویٹ بحث ہورہی ہے۔ میں ٹوری نوجوان ہوں، فریڈ کارٹر بالشویک ہے۔ مسعود علی اور راما ناتھن ہندوستانی قوم پرست۔

’’ہماری قدیم تہذیب‘‘۔ راما ناتھن گرج رہا ہے۔

’’سر…؟ آپ کی قدیم تہذیب؟ وہ بھی حکمراں طبقے اور پروہتوں تک محدود تھی۔ اور اشوک کے عہد کی کلچر یا شاہ جہاں کے عہد کی کلچر کی طرح آج کی برٹش یا مغربی کلچر بھی آپ کے مٹھی بھر طبقے تک ہی محدود ہے‘‘۔ میں جواب دیتا ہوں۔

’’یورپ میں تعلیم عام ہوئی۔ کیونکہ وہ آزاد تھا۔ ہم غلام تھے۔ اس لیے جاہل اور پسماندہ رہ گئے‘‘۔ مسعود علی کہتا ہے۔

’’خوب! آپ کا مغل دور تو آزادی کا دور تھا۔ اس وقت اسکول اور یونیورسٹیاں تھیں؟ ڈیڈ بتاتے تھے کہ جب گرینڈ ڈیڈ اڑیسہ پہلی بار گئے اس وقت وہاں ایک چھپی ہوئی کاغذ کی کتاب موجود نہیں تھی۔

فریڈ۔ غور سے سنو۔ سارے صوبے میں ایک چھپی ہوئی کاغذ کی کتاب موجود نہ تھی۔ پروہت لوگ تاڑ کے پتوں پر کچھ لکھ وکھ لیا کرتے تھے‘‘۔

’’یہ جہالت فیوڈلزم کی کارستانی تھی‘‘۔ بالشویک فریڈ جواب دیتا ہے۔

’’بکواس‘‘۔ میں بات جاری رکھتا ہوں۔ ’’اور سنو۔ جب کلکتے میں ہم نے کتابیں چھاپنا شروع کیں تو اسٹیمروں پر لدے ہوئے ہندو طلبہ چلا چلا کر ان کتابوں کا مطالبہ کرتے تھے۔ مکالے نے کہا تھا کہ یورپ کی کسی لائبریری کا ایک شیلف ہند اور عربستان کے سارے نیٹو لٹریچر پر حاوی ہے‘‘۔

میری سنی اَن سنی کرکے راما ناتھن اپنا وظیفہ شروع کردیتا ہے۔ ’’انیسویں صدی کے پہلے نصف میں سات قحط پڑے جس میں پندرہ لاکھ لوگ مرے۔ دوسرے نصف میں چوبیس قحط پڑے، جن میں ایک کروڑ انسان مرے‘‘۔ پھر سیاہ فام راما ناتھن بڑی شیرینی سے مسکرا کر مجھ سے پوچھتا ہے۔ ’’ہاں۔ وہ ہندوستان کی یونیورسٹیوں کا ذکر تھا؟

’’کبھی نالندہ اور ٹکسلا کا نام سنا ہے؟‘‘ اور اس کے سفید دانت جھلملاتے ہیں۔ گویا بازی جیت لی۔

ہم تینوں نائو میں جا بیٹھتے ہیں۔ مسعود علی پتوار سنبھالنا ہے۔

اب راما ناتھن کہہ رہا ہے۔ ’’اگر تم لوگ نہ آئے ہوتے تب بھی ہندوستان مغربی علوم سے بہرہ ور ہوجاتا۔ ٹیپو سلطان شہید اور راجہ رام موہن رائے دونوں فرانس کے مداح تھے‘‘۔

’’گوڈ آل مائٹی۔ ٹیپو صاحب تو سخت اینٹی ہندو تھے۔ اب ہمارے مقابلے پر ایک ہیرو کی ضرورت محسوس ہوئی، تم چالاک لوگوں نے اسے اور سراج الدولہ کو ہیرو بنالیا۔ دونوں اینٹی ہندو تھے معاف کرنا مسعود۔ اولڈ چیپ‘‘۔

’’ہماری تاریخ تم لوگوں نے مسخ کی ہے‘‘۔ راما ناتھن غراتا ہے۔ ’’ہم نے تمہیں انگریزی زبان کے ذریعے متحد کیا‘‘۔ میں جواب دیتا ہوں۔ ’’تم اور مسعود ایک دوسرے سے انگریزی میں بات کیوں کرتے ہو…؟‘‘ کنارے پر کھڑی ایک حسین لڑکی ہاتھ ہلاتی ہے۔ وائلٹ! ہم کشتی کھیتے، ہنستے بولتے کشتی کا رُخ اس کی طرف موڑ لیتے ہیں… وائلٹ جو اب میری بیوی ہے۔

خدا کرے وائلٹ خیریت سے ہو۔

وہ اب آہستہ سے اُٹھ کر میز تک گیا اور تصویر دیکھنے لگا۔ ڈارلنگ۔ تم اس وقت نیم تاریک لندن کے کس پب میں کس فوجی کے ساتھ بیٹھی ہوگی۔ بیر کامک تمہارے ہاتھ میں بھی ہوگا۔ مگر کس کی معیّت میں؟

یہ حسین عورت مجھ سے تین بار بے وفائی کرچکی ہے۔ اُوٹی میں، فلورنس میں، ہیٹ فیلڈ میں، وائلیٹ مائی لَو۔ تم یہ بھی جانتی ہو میں نے تم سے کتنی بار بے وفائی کی۔

موڈرن میرج۔
اور یہ جنگ کا زمانہ ہے۔ اور جنگ میں سب کچھ روا ہے۔ اس محفوظ و مامون ہماری زندگی میں اچانک کیسا زلزلہ آگیا۔ جنگ، بغاوت، تباہی۔

ٹام۔ ٹام نو سال کا ہوگیا۔ میرا پیارا بیٹا۔ کیا میں تم سب کو زندہ دیکھ سکوں گا؟

امریکن بہت دلکش ہوتے ہیں۔ برطانوی عورتوں کے لیے۔ وائلٹ تم ہمیشہ سے فلرٹ رہی ہو۔ بلیس یورلٹل ہارٹ، MAC کے یونیفارم میں کتنی بھلی معلوم ہورہی ہے۔ میری بیوی۔ ابن شیریڈن کی طرح دلفریب۔

اس وقت کیا کررہی ہو، ڈارلنگ؟ سینٹ جاننر ووڈ کا کوئی میئوز؟ کوئی کنٹری اِن یا ہمارے اپنے گھر کا… ۱۴؎ اینڈریوز کریسنٹ کا بیڈ روم…؟

یہ سب جانتے ہوئے بھی تم پر عاشق ہوں، جانِ من۔ اور تم بھی میری اس کمزوری سے واقف ہو۔

اس نے بیرکامگ زور سے میز پر پٹخ دیا۔ باہر بارش کا زور بڑھ چکا تھا۔

بنگال کی برسات، ملیریا، مچھر، کیچڑ، تعفن، طوفان، سانپ، مینڈک۔ اس برسات کے لیے ٹیگور اور سارے بنگالی شاعری کرتے کرتے مرے جاتے ہیں۔

اس وقت میں بے حد اینٹی انڈین ہورہا ہوں۔

وائلیٹ۔

لاچار غصے سے پھر میرا خون کھول رہا ہے۔ مجھے اس سے اتنی نفرت ہے۔ اتنا عشق ہے۔ یہ آج تک معلوم نہ تھا۔

کمبخت خط بھی نہیں لکھتی۔ شاید میں اس کے لیے مرچکا ہوں۔ شاید وہ یہ سمجھتی ہے کہ باغیوں نے مجھے بھی قتل کردیا ہوگا۔

مما۔ آنٹ میٹی۔

اُس نے آنٹ مٹیلڈا کی تصویر پھر اپنے سامنے رکھی اور سرہلانے لگا۔

آنٹ میٹی تم نے بھی اتنے دنوں سے خط نہیں لکھا۔ مگر اُن کے ہاتھ میں رعشہ ہے۔ ٹھیک سے قلم نہیں پکڑ سکتیں۔ آنٹ میٹی تم ایک زمانے میں کتنی خوب صورت تھیں۔ اپنی یہ پرانی تصویر دیکھو۔

وائلیٹ۔ ایک دن تم بھی بوڑھی ہو جائو گی۔ یہ نہ بھولو۔ تم نے آنٹ میٹی کو کسی ہوم میں ڈال دیا۔ تا کہ آزادی سے عیش کرو۔ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔ میں ہندوستانی ہوں۔ میں سخت دل انگریزوں کی طرح کبھی بوڑھے ماں باپ اور رشتے داروں کو گھر سے نکال کر کسی ہوم میں پھینکنا برداشت نہیں کرسکتا۔

اب اس کے آنسو بہنے شروع ہوئے۔ اب تک وہ کتنی شراب چڑھا چکا تھا۔

خداوند۔ اگر تو واقعی کہیں موجود ہے، وائلیٹ کو، ٹام اور کیرل کو، آنٹ میٹی کو، ایلس کو، ان سب کو اپنی حفاظت میں رکھ۔

اولڈ پیپلز ہوم۔
کسی دن شاید میں بھی، مجھے بھی ٹام اور اس کی بیوی گھر سے نکال کر اولڈ پیپلز ہوم میں ڈال دیں گے۔ بے چارہ بڈھا جو ہر وقت ہندوستان کے متعلق بڑبڑاتا اور آہیں بھرتا ہے۔ (نرسیں آپس میں کہیں گی)

تم آنٹ میٹی کی طرح مفلوج اور بوڑھی ہوجائو گی۔ اور تمہاری بہو تمہیں ہوم میں پھینک دے گی۔

اسی برسات میں، میں نے وائلیٹ کے ساتھ اپنی لانچ پر پدما کے کیسے رومانی سفر کیے ہیں۔ اسٹیمر پر ہم ہنی مون کے لیے سندر بن گئے تھے۔ اسٹیمر کا کیا نام تھا…؟ کِنگ فِشر۔

آج ہماری شادی کو پورے گیارہ سال ہوگئے۔ یارک شائر کی تازہ وارد لڑکی، شروع شروع میں کیسی حیرت سے یہاں کی ہر چیز کو دیکھتی تھی۔

۳۱ء ہماری شادی کا پہلا سال، باریسال میں، جہاں میں نے دنیش چندر سرکار کو پکڑوایا۔

میں نے دنیش چندر سرکار کو پکڑوایا۔
میں نے دنیش چندر سرکار کو پکڑوایا۔
میری سروس کا سب سے نمایاں کارنامہ۔

سیاہ آنکھوں والا دلکش، میرا ہم عمر نوجوان، میرے سامنے کٹہرے میں کھڑا تھا۔ ممکن تھا کہ وہ اوکسفرڈ میں میرا ہم جماعت ہوتا۔ کشتی کھیتے ہوئے مجھ سے بحثیں کرتا۔ مگر وہ کال کوٹھری میں جانے سے قبل میرے سامنے کھڑا تھا۔ مجھے معلوم تھا وہ بڑا جید انٹلکچوئل ہے۔ میں اس سے کچھ نہ کہہ سکتا تھا۔

جس روز اس کی اپیل ہائی کورٹ سے مسترد ہوئی مجھے بے حد۔ کتنا… بے حد دُکھ ہوا تھا کیوں؟ وہ بالآخر میری قوم کا جانی دشمن تھا۔ اگر میں نے اسے نہ پکڑا ہوتا تو اس نے مجھے ہلاک کردیا ہوتا… مجھے اس کی اپیل مسترد ہونے کا بڑا رنج ہوا تھا۔

جس روز علی پور جیل میں اسے پھانسی ہوئی، اسی روز ہمارے یہاں ٹام پیدا ہوا تھا۔

منجو آیا، وائلیٹ کی منہ چڑھی اس سے کہنے لگی۔ میم صاحب، ہم ہندو لوگ آواگون میں بیلیو کرتا ہے۔ شکر ہے کہ دنیش بابو کی پھانسی کے دو گھنٹے پہلے ٹام بابا پیدا ہوا۔ اگر تھوڑا منٹ بعد پیدا ہوتا تو بہت سا ہندو لوگ بولتا کہ دنیش بابو نے بدلہ لینے کے لئے آپ کے گھر میں جنم لیا ہے۔

واٹ اے ہوربل تھوٹ… بے چاری وائلیٹ نے ذرا سا کانپ کر کہا تھا۔
(جاری ہے)

حصہ