نیکی فائونڈیشن کے زیراہتمام مشاعرہ

62

نیکی فائونڈیشن ایک خدمتِ خلق ادارہ ہے جس کی وائس چیئرمین عفت مسعود ایک شاعرہ ہیں انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر ایک مشاعرہ آرگنائز کیا جس میں رونق حیات صدر مشاعرہ تھے۔ فیاض علی فیاض اور افتخار ملک ایڈووکیٹ مہمانان خصوصی تھے۔ مہمانانِ اعزازی میں پروفیسر مرزا سلیم بیگ اور فاروق اطہر شامل تھے۔ عفت مسعود نے نظامتی فرائض کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ نیکی فائونڈیشن بھی اردو زبان و ادب کی ترقی میں اپنا حصہ شامل کر رہی ہے۔ کراچی کی تمام ادبی تنظیموں پر لازم ہے کہ وہ آپس کے اختلافات بھلا کر متحد ہو جائیں اور دبستان کراچی کو آگے بڑھائیں۔

رونق حیات نے صدارتی خطاب میں کہا کہ ہم نیاز مندانِ کراچی کے پلیٹ فارم سے تمام قلم کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل ہیں‘ ہم نظر انداز قلم کاروں کو اسٹیج فراہم کر رہے ہیں‘ ہم تمام ادب نواز دوستوں کے ساتھ ہیں‘ ہمارا منشور یہ ہے کہ ہم اردو ادب کی ترقی کے لیے کام کریں۔ اردو ہماری قومی زبان ہیں لیکن ہم سندھی زبان کی پروموشن بھی چاہتے ہیں۔ علاقائی زبان کی ترقی میں قومی زبان کی ترقی مضمر ہے۔ اردو ادب ایک بین الاقوامی تحریک بن چکی ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا کے علاوہ تمام عرب امارات میں اردو زبان ترقی کر رہی ہے لیکن ہمارے ملک میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ نہیں مل پا رہا اس کی رکاوٹیں ختم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ آج کے مشاعرے میں بہترین کلام سامنے آیا ہے میں مشاعرے کے منتظمین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

پروفیسر مرزا سلیم بیگ نے کہا کہ ان کا بنیادی تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے لیکن ہم دبستان کراچی کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں۔ حیدرآباد کی شاعری اور کراچی کی شاعری کے مضامین تھوڑے سے الگ الگ ہیں لیکن غزل گوئی میں حیدرآباد بھی کسی سے کم نہیں تاہم کراچی تو شاعری کا سمندر ہے جہاں بہترین اساتذہ کرام موجود ہیں اور غزل کی ترقی ہو رہی ہے لیکن نظمیہ مشاعرے اب ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ وہ نیکی فائونڈیشن سے متاثر ہیں۔ اب یہ ادارہ اردو شاعری کی ترقی میں بھی شامل ہو گیا ہے‘ آج بھی اچھا پروگرام منعقد کیا گیا ہے میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ شاعری روح کی غذا ہے‘ فنون لطیفہ کی تمام شاخوں میں شاعری ہی سب سے زیادہ مقبول ہے۔ ہم شاعری کے ذریعے زندگی کے تمام مسائل پر آواز بلند کرتے ہیں‘ ہمارا فرض ہے کہ ہم سچائیاں رقم کریںو۔مشاعرے میں ڈاکٹر رانا خالد محمود نے تلاوت کلامِ مجید کا شرف حاصل کیا‘ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے نہایت عمدہ ترنم سے نعتِ رسولؐ پیش کی۔ مسعود احمد وصی نے کلماتِ تشکر ادا کیے اور نیکی فائونڈیشن کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ مشاعرے میں رونق حیات‘ فیاض علی فیاض‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ فاروق اطہر‘ ریحانہ روحی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ مقبول زیدی‘ تنویر سخن‘ ڈاکٹر رانا خالد محمود‘ شاہد اقبال‘ عتیق الرحمن‘ یاسر سعید صدیقی‘ منصور ساحر‘ ثبین سیف‘ چاند علی چاند‘ کشور عروج‘ ہما ساریہ‘ زوہیب خان اور عفت مسعود نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

سلام گزار ادبی فورم کی مجلسِ مسالمہ

تقدیسی ادب نے مسلمانانِ عالم پر علم و آگہی کے سینکڑوں باب منکشف کیے‘ ہر زمانے میں شہیدانِ کربلا کو خراج عقیدت پیش جاتا رہا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ کربلا ایک ایسی درس گاہ ہے جس نے دین ِ اسلام کے منشور کو جلا بخشی۔ تمام مسلمان شعرا نے کربلا پر اشعار کہے ہیں اسی تناظر میں کراچی کی ایک ادبی تنظیم سلام گزار ادبی فورم انٹرنیشنل ہر ماہ پابندی کے ساتھ طرحی مجلس مسالمہ کا اہتمام کرتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس تنظیم نے اکیڈمی ادبیات پاکستان کے تعاون سے ایک مسالمہ ترتیب دیا جس کی مجلس صدارت میں ساجد رضوی اور پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی شامل تھے۔ اختر سعیدی اور خالد معین مہمانانِ خصوصی تھے۔ تنویر سخن نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ مقبول زیدی نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ وہ اکیڈمی ادبیات کے شکر گزار ہیں کہ جنہوں نے ہمیں مشاعرے کے لیے جگہ فراہم کی بلاشبہ کراچی مرکز سندھی اور اردو زبان کی پروموشن میں اپنا حصہ شامل کر رہا ہے یہاں سندھی اردو مذاکرے‘ تنقیدی نشستیں‘ تقاریبِ پزیرائی اور مشاعرے آرگنائز کیے جا رہے ہیں۔ آج کا مشاعرہ ایک موضوعاتی مشاعرہ ہے جس میں حضرت امام حسینؓ اور کربلا‘ مرکز و محور ہیں۔ اسلام کی ترویج و ترقی میں حضرت امام حسینؓ کی قربانیاں شامل ہیں۔ آپؓ نے یزید کی بیعت نہیں کی اپنی جانوں کو قربان کرکے فقید المثال لائحہ عمل ترتیب دیا۔ یہ واقعہ حق و باطل کے درمیان حدِ فاصل ہے یزیدی فوج نے حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کو شہید کر دیا لیکن یزید کی بیعت حاصل نہ کرسکیں کربلا کا پیغام تمام دنیا کے لیے مشعل راہ ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ دوسری اقوام بھی حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کرتی ہیں۔ آپ کے اقدام سنہرے حروف سے لکھے ہوئے ہیں۔ آج تک آپ کے اس عمل کا کوئی نعم البدل سامنے نہیں آیا۔ ہم حسینی فلسفے کو اپنائیں اور آج کے یزیدں کے خلاف نبرد آزما ہوں۔ آیئے ہم عہد کریں کہ متحد ہو کر اپنے دشمنوں کا مقابلہ کریں گے۔اردو تنظیم فرینڈ پاکستان کے روحِ رواں ساجد رضوی نے کہا کہ حضرت امام حسینؓ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ ہمارے نبیؐ نے فرمایا کہ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔ تمام مسلمانوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ آلِ رسول سے محبت کریں۔پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ سلام گزار ادبی تنظیم بھی قابل مبارک باد ہے کہ یہ لوگ غمِ حسین کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں‘ یہ تنظیم پورے پاکستان میں فعال ہے۔ کراچی میں اس کے سربراہ مقبول زیدی ہیں۔ اس تنظیم کا منشور یہ ہے کہ حضرت امام حسینؒ کی تعلیمات کو عام کیا جائے۔ کربلا کا میدان حضرت امام حسینؓ اور ان کے رفقا کی لازوال داستانیں سناتا ہے۔ ظلم و استبداد کے خلاف حضرت امام حسینؓ کی قربانیاں لازول ہیں‘ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔ آیئے ہم عہد کریں کہ ہم اسوۂ رسول پر عمل پیرا ہوں گے اور حضرت امام حسینؓ کے جذبہ جہاد کو زندہ رکھیں گے۔محمد اقبال دھیراج نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ اکادمی ادبیات کراچی نے ادبی اداروں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں‘ اب یہاں ہر ہفتے کوئی نہ کوئی ادبی پروگرام ہوتا ہے۔ وہ تمام شرکائے محفل کے شکر گزار ہیں۔اس مسالمے میں ساجد رضوی‘ ڈاکٹر شاداب احسانی‘ اختر سعیدی‘ خالد معین‘ نسیم کاظمی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ زاہد حسین جوہری‘ مقبول زیدی‘ ریحانہ احسان‘ اہم اعظمی‘ نظر فاطمی‘ افضل شاہ‘ عروج واسطی‘ تنویر سخن‘ نسیم شیخ‘ دلشاد خیال ایڈووکیٹ‘ شائق شہاب‘ افسر علی افسر‘ ظفر بلوچ‘ عثمان زائر‘ ذوالفقار حیدر پرواز‘ تاج علی رانا‘ ہما ساریہ اور عفت مسعود نے کلام پیش کیا۔

حصہ