’’اُف اللہ… وہ پھر آگئیں، اب کسی کی خیر نہیں۔‘‘ زبیدہ آپا کو آتے دیکھ کر صبا کا تو جیسے دل بیٹھنے لگا۔
زبیدہ آپا کی زبان ایسی قینچی کی طرح چلتی کہ ہر ایک کا دل کاٹے ڈالتی۔ کسی کی مزاج پرسی کرتیں تو کہتیں ’’ہاں بھئی کیسی ہو؟ زندہ بھی ہو کہ نہیں؟ ارے توبہ ہے تم تو عید کا چاند بن گئیں۔‘‘
’’وہ اصل میں آپا! گھر میں مصروفیت بہت زیادہ تھی نا، اس لیے میں…‘‘ وہ بے چارہ ہکلاتا ہی رہ جاتا مگر آپا نہ چوکتیں۔
’’ہاں ہم تو جیسے فالتو بیٹھے ہیں نا… بھئی ہمارا بھی گھر بار ہے، سڑک پر تھوڑی پڑے ہیں… یا اللہ خیر۔‘‘
جو ان کے ہاتھ لگ جائے… سمجھو وہ گیا!!!
’’اور ہاں بھابھی بیگم! آپ کے گھر نواسا ہوا تو ایک فون کرنے کی بھی توفیق نہ ہوئی آپ کو… ہم تو جیسے غیر ہوگئے۔‘‘
’’نہیں آپا! وہ اصل میں شبنم کی ٹانگوں میں درد ہورہا تھا تو اس کا سب کام…‘‘
’’اے لو! یہ تو آپ نے بتایا ہی نہیں کہ آپریشن ہوا ہے… ارے میں آتی تو 10 ٹوٹکے بتاتی… ہماری بچی خیر سے رہتی۔ بس مٹھائی گھر بھیج کر جان چھڑائی جیسے۔‘‘
’’ارے آپا! آپ کو گھر جاکر دیکھنا بھی تو تھا نا۔‘‘ ان کی بہن بولی۔
’’ارے تم تو رہنے دو۔ تم نے کون سا بتا دیا کہ تمہاری بچی کا اے ون گریڈ آیا ہے… کون سا ہم حسد کرنے والے تھے، دُعا ہی دیتے۔‘‘
’’ارے آپا! صرف اے ون نہیں، اس کی تو تیسری پوزیشن تھی… پورے کراچی میں دھوم مچی تھی، آپ نے اخبار میں تو دیکھی ہوگی تصویر۔‘‘
’’بس یہی کسر رہ گئی ہے کہ سامنے کے بچوں کی خبریں اخبار میں دیکھتے پھریں… مٹھائی دے کر سلام کرنے بھیجنا تھا… تمہیں کہاں تمیز رکھ رکھاؤ کی…؟ ارے توبہ ہے ذرا جو بڑوں کا لحاظ ہو… تبھی تو بچوں کو بھی ڈھنگ نہ آئے۔ پاس سے گزر جاتے ہیں تقریبات میں بھی۔‘‘
کتنا سنیں گے بے چارے سننے والے؟ کوئی تو بڑبڑا ہی لیتا: ’’ہاں خود کے بچوں کو بڑی تمیز ہے، وہ تو سلام کرنا دور کی بات ہے، نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ ہم تو خود ہی انہیں دیکھ کر ہائے ہائے کرتے رہ جاتے ہیں۔‘‘
’’کیا کہہ رہی ہو، ذرا زور سے بولو… کیا دَم نہیں ہے جو آواز نہیں نکل رہی…؟‘‘
’’کیا کہیں، آپ سے توبہ ہی بھلی۔‘‘اب تو بڑبڑانے کی ہمت بھی نہ رہی، بس آنکھیں بول رہی تھیں… کیسے کیسے لوگ ہمارے دل کو جلانے آ جاتے ہیں۔
ابھی کل کی بات تھی، ثریا کے گھر پہلی بیٹی ہوئی، ثریا کی طرح حسین۔ ہر کوئی تعریفیں کررہا تھا۔ آپا گئیں تو بولیں: ’’ہائے رنگ تو دیکھو بالکل انگریزوں جیسا لگ رہا ہے… بھئی ذرا نمک نہیں شکل پر… اور آنکھیں دیکھو کتنی بڑی بڑی ہیں، سارے چہرے پہ صرف آنکھیں ہی نظر آرہی ہیں۔‘‘
اُس کی دادی نے اس بات کا اتنا برا مانا کہ سمدھن سے شکایت کی۔ وہ بے چاری کیا کہتی…! مسکرا کر بولی:
’’وہ بہن! آپا کی ایسی ہی عادت ہے، پر دل کی بری نہیں ہیں وہ۔‘‘
’’ہاں آپ رہنے دیجیے بہن! دل کس نے چیر کر دیکھا ہے؟ سب معاملہ تو زبان ہی کا ہے۔ ہم تو وہی جانتے ہیں جو کانوں سے سنا… باقی دل رکھیں وہ اپنے پاس۔‘‘ ان کی اتنی خوب صورت بہو کی حسین بیٹی تھی، بھلا چپ کیسے رہتیں ؟
’’ارے نغمہ! کہاں جا رہی ہو؟‘‘اپنے دروازے پر کھڑی آپا نے پڑوسن کو آواز لگائی۔
’’بس ذرا مارکیٹ جا رہی تھی۔‘‘
’’گھر میں بچی کو اکیلا بٹھا کر روز روز کہاں پھرتی ہو؟ زمانہ اچھا نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں وہ تو پڑھنے میں لگی ہے، بس ابھی آجاؤں گی بیس، پچیس منٹ میں۔‘‘
’’ارے بیس منٹ تو بہت ہوتے ہیں، برائی آنے میں تو ایک لمحہ نہیں لگتا۔‘‘
’’توبہ ہے آپا! آپ بھی بس… عاجز آگئی ہوں ان کی ہر وقت کی تاک جھانک سے۔‘‘
’’کیا کہہ رہی ہو؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’سنو ثمینہ! تم نے رشتہ طے کردیا بیٹی کا، دیکھا بھی، جانچا بھی لڑکا کیسا ہے ؟ بھئی ہم تو دعا ہی دیتے ہیں مگر دھیان رکھنا آج کل طلاقیں بہت عام ہورہی ہیں۔‘‘
’’ توبہ کریں آپا! اچھی بات منہ سے نکالیں۔ خدا کا نام لیں۔‘‘
’’ارے میں کون سا تمہاری بیٹی کو گھر بٹھا رہی ہوں؟ میں نے تو ایک بات کہی ہے۔‘‘
ان کو کون منہ لگائے… کون اپنے گھر بلائے… ہر کوئی ان سے جان چھڑائے۔ مگر وہ چاہیں کہ ہر کوئی انہیں سب کچھ بتائے۔ ایک زبان کا کرشمہ… کیا کیا رنگ دکھائے؟ بس رہے نام اللہ کا۔