’’مجھے نہیں لگتا ہے کہ تمھیں پھر سے مقابلہ جیتنے کا موقع ملے گا۔‘‘وسیم نے اجمل سے کہا۔
’’کیا ہم صرف ایک ہی بار کوئی مقابلہ جیت سکتے ہیں؟‘‘اجمل نے وسیم کو ناگواری سے گھورتے ہوئے کہا۔
’’تمھیں تو پتا ہے کہ ہمارے دوست اب نہیں چاہتے ہیں کہ تمھیں کوئی کامیابی ملے اورانھیں پھر سے جیت کی مبارکباد دینی پڑے۔‘‘
وسیم نے اردو کی کتاب کو میز پر رکھتے ہوئے جواب دیا۔
’’تمھارے کہنے کامطلب ہے کہ ہم اپنے ہم جماعت دوستوں کے خوف سے محنت کرنا چھوڑ دیں تاکہ انھیں کامیابی کا موقع مل سکے۔‘‘
اجمل نے خفا ہوتے ہوئے جواب دیا۔
’’میرے دوست! محنت کرنا آپ کا حق ہے اوراس کے لیے آپ کوکسی نے منع نہیں کیا ہے لیکن۔۔۔۔۔۔‘‘
وسیم کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ اجمل نے کہا۔
’’انگور کھٹے ہیں۔‘‘
’’میں سمجھا گیا ہوں تمھارا اشارہ، وہ چوں کہ خود اتنی محنت نہیں کرسکتے ہیں لہذا وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی نہ کرو۔ جو محاورہ تم نے سنایا ہے وہ بھی کچھ ایسے موقع پربولا جاتا ہے۔‘‘وسیم نے جواب دیا تو اجمل مسکرانے لگا اوروسیم کے خاموش ہونے پر بولا:
’’ اللہ تعالیٰ نے سب کو صلاحیتیں دی ہیں اگر کوئی اُن کے بل بوتے پر محنت کرتا رہے گا تو وہ مسلسل کامیاب ہو تا رہے گا کہ محنت کا پھل خدا ہی دیتا ہے۔کسی کو اگر کوئی مقابلہ جتینا ہے تو پھر اُسے محنت بھی اتنی کرنی چاہیے کہ وہ جیت کا حق دار بن سکے۔ یہ تو غلط سوچ ہے کہ کوئی کسی کی خاطر محنت کرنا اس لیے چھوڑ دے کہ وہ کامیاب ہو سکے۔‘‘
’’بس میں تو یہی کہوں گا کہ جب کوئی کامیاب نہ ہو سکے تو وہ کہے گا کہ ’’ انگور تو کھٹّے ہیں۔‘‘
وسیم نے مسکرا کر جواب دیا ۔
کمرہ جماعت میں اردو کے استاد آچکے تھے لہذا دونوں اُن کی جانب متوجہ ہو گئے۔