ایک انگریز اور فقیر

103

مغل بادشاہ شاہ جہاں جسے تعمیرات کا بے انتہا شوق تھا‘ اپنے 35 سالہ دور ِحکومت میں اس نے ہندوستان میں ایسی ایسی شان دار عمارتیں تعمیر کروائیں جو تاریخ کا حصہ بن گئیں… اس کی تعمیر کردہ عمارتوں میں تاج محل ایک ایسی عظیم الشان عمارت ہے جس کا ساری دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ یہ عمارت فنِ تعمیر کا ایک ایسا شاہکار ہے جس نے دنیا کی تمام تعمیرات کے ماہرین کو متحیرکر دیا ۔

اکبر اور جہانگیر کے بعد شاہ جہاں نے بھی دارالسلطنت آگرہ ہی رکھا مگر کچھ ناگزیر وجوہ کی بنا پر اس نے دارالسلطنت آگرہ سے دہلی منتقل کرنے کا ارادہ کر لیا، لہٰذا اس نے دہلی میں ایک شاندار قلعہ تعمیر کروائی۔ دہلی پہنچنے کے دو سال بعد بادشاہ نے ایک مسجد تعمیر کروانے کا ارادہ کیا۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر گیارہ سو سال حکومت کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس دور کے مسلمان بادشاہوں نے سارے ہندوستان میں ایسی شاندار مساجد تعمیر کروائیں جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ انہیں مساجد کی تعمیر کتنی عزیز تھی۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج کے دور میں مسلمان حکمران اپنے ملکوں میں مندر تعمیر کرواتے ہیں تاکہ ایک بت پرست ملک سے ان کے تعلقات اچھے رہیںاور اسے سیاسی مصلحت کا نام دیتے ہیں۔ مصلحتِ ایزد ی سے بے خبر یہ حکمران اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے۔

دہلی کی جامع مسجد بھی شاہ جہاں کی تعمیر کردہ عمارتوں میں سے ایک ہے۔ یہ مسجد زمین سے اچھی خاصی اونچائی پر واقع ہے جس جگہ مسجد تعمیر ہوئی اس جگہ پہلے ایک پہاڑی ہوا کرتی تھی شاہ جہاں نے 1650 میں اسی پہاڑی پر مسجد تعمیر کروائی۔ پتھروں سے بنی مسجد باہر سے بھی اتنی ہی خوب صورت ہے جتنی اندر سے ہے۔ مسجد کا صحن کافی وسیع و عریض ہے کئی ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ درمیان میں وضو کرنے کا حوض ایک دل کش منظر پیش کرتا ہے۔ مسجد میں داخلے کے لیے تین دروازے ہیں اور ہر دروازے تک پہنچنے کے لیے اچھی خاصی سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ سیڑھیوں کی چوڑائی بہت زیادہ ہے ان سیڑھیوں پر ایک وقت میں کئی سو آدمی ایک ساتھ چڑھ سکتے ہیں۔ سیڑھیوں پر ایک جم ِ غفیر رہتا ہے مختلف اقسام کا کھانا فروخت کرنے والے۔ پانی سے بھری مشک پیٹھ پر لادے ہاتھوں میں چاندی کے کٹورے لیے پانی پلانے والے۔ انگوٹھیاں، گلے کے ہار، ٹوپیاں، مختلف اشیا فروخت کرنے والے اور فقیروں کی ایک کثیر تعداد بیٹھی نظر آتی ہے۔ روزانہ بے شمار سیاح دور دراز علاقوں سے اس خوب صورت مسجد کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں ان میں صرف مسلم ہی نہیں غیر مسلم بھی ہوتے ہیں۔ لوگ مسجد کی تعمیر سے بے انتہا متاثر ہوتے ہیں‘ تصاویر اور وڈیو بناتے ہیں۔ ان موضوعات پرمختلف زبانوں میں کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ خاص طور پرفنِ تعمیر کے ماہرین میں وہ کتابیں بہت مقبول ہوتی ہیں اور ساری دنیا میں ان کتابوں کی پذیرائی ہوتی ہے۔

میں جس واقعہ کا ذکر کرنا چاہ رہا ہوں وہ ان دنوں کی بات ہے جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت ہوا کرتی تھی ایک انگریز انگلستان سے دہلی آیا اسے اس تاریخی جامع مسجد دیکھنے کا اشتیاق تھا۔ مسجد کی سیڑھیوں پر چڑھتے وقت اس کی نظر ایک بوڑھے فقیر پر پڑی جو سر جھکائے خاموش بیٹھا تھا۔ انگریز کو اس بوڑھے فقیر پر ترس آیا وہ رُکا اور اپنے کوٹ کی جیب سے بٹوا نکال کر کچھ سکے اس فقیر کے کشکول میں ڈال دیے اور آگے مسجد کے دروازے کی جانب بڑھ گیا۔

انگریز کے چلے جانے کے بعد بوڑھے فقیر کی نظر ایک بٹوے پر پڑی جو اس کے سامنے پڑا ہوا تھا فقیر نے بٹوا اٹھایا اور یہ خیال کیا کہ یقینا یہ بٹوا اسی انگریز کا ہو سکتا ہے جس نے کچھ دیر قبل اس کے کشکول میں سکے ڈالے تھے ۔ وہ بٹوا ہاتھ میں لیے مسجد میں داخل ہوا اور اس انگریز کو تلاش کرتا رہا مگر وہ نہ ملا شاید وہ کسی اور دروازے سے باہر جا چکا تھا۔ فقیر پڑھا لکھا تو تھا نہیں اس نے کسی اجنبی پڑھے لکھے شخص کو بٹوا دکھایا کہ شاید اس سے کوئی رہنمائی مل سکے۔ بٹوا کھولنے پر اس انگریز کی تصویر اور ہوٹل کا ایک کارڈ برآمد ہوا اجنبی نے فقیر کو بتایا کہ یہ انگریز فلاں ہوٹل میں مقیم ہے اور ہوٹل یہاں سے قریب ہی ہے۔

فقیر بٹوا ساتھ لیے اس ہوٹل تک پہنچ گیا استقبالیہ پر بیٹھے شخص نے فقیر سے اس طرح بے دھڑک اندر آنے کی وجہ دریافت کی۔ فقیر نے بٹوا کھول کر اس انگریز کی تصویر دکھائی اور دریافت کیا کہ کیا یہ شخص اس ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہے اور اگر اس وقت موجود ہے تو میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔ استقبالیہ پر بیٹھا شخص کچھ حیرت اور کچھ تذبذب کا شکار ہوا مگر پھر اس کے دل میں خیال آیا کہ ہو نہ ہو کوئی بات اہم ضرور ہے لہٰذا اس نے انگریز کو بلوا لیا فقیر نے انگریز کو دیکھتے ہی پہچان لیا۔

فقیر اپنی زبان میں بولتا رہا اور انگریز اپنی زبان میں استقبالیہ پر بیٹھا شخص ترجمہ کرتا رہا۔ فقیر نے بٹوا انگریز کے ہاتھ میں دیا یہ کہتے ہوئے کہ ’’کیا یہ بٹوا آپ کا ہے؟‘‘ انگریز نے جواب دیا ’’ہاں یہ بٹوا میرا ہے۔‘‘ فقیر نے کہا اس کے اندر رکھی ہوئی رقم دیکھ لیجیے کم تو نہیں ہے۔ انگریز نے ایک نظر بٹوا کھول کر دیکھا اور کہا رقم پوری ہے۔

فقیر نے کہا یہ بٹوا اس وقت آپ کے ہاتھوں سے گر گیا تھا جب آپ نے مسجد کی سیڑھیوں پر میرے کشکول میں سکے ڈالے تھے‘ میں نے آپ کو مسجد کے اندر تلاش کرنے کی پوری کوشش کی مگر آپ جا چکے تھے۔ یہ کہہ کر فقیر نے رخصت چاہی۔

انگریز نے اسے روکا اور بٹوے سے ایک بڑی رقم نکال کر فقیر کو دینا چاہی یہ کہتے ہوئے کہ یہ تمہارا انعام ہے ۔

فقیر نے رقم لینے سے انکار کر دیا اور کہا یہاں آنے کا قطعی یہ مقصد نہیں تھا کہ میں آپ سے انعام حاصل کروں۔ انعام تو روزِ ِقیامت میں اپنے اللہ سے حاصل کر لوں گا۔ میں تو آپ کی امانت آپ کو پہنچانے اس لیے آیا ہوں کہ حشر کے دن میرا نبی ؐ آپ کے نبی (حضرت عیسیٰ ؑ) کے سامنے شرمندہ نہ ہو۔

حصہ