ایک ایب نارمل کالم نگار کیسا ہوتا ہے؟

164

کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ ایک ایب نارمل کالم نگار کیسا ہوتا ہے؟ کیا اس کے چہرے پر تین آنکھیں اور اس کے چار کان ہوتے ہیں؟ کیا اس کی مونچھیں لمبی اور ڈاڑھی طویل ہوتی ہے؟ کیا اس کے ماتھے پر گینڈے کی طرح ایک سینگ ہوتا ہے؟ کیا وہ سر کے درمیان سے مانگ نکالتا ہے؟ کیا وہ کلین شیو ہوتا ہے؟ کیا اس کا نام یے سے شروع ہوتا ہے؟ جانے دیجیے آپ ان چکروں میں کہاں پڑیں گے۔ ہم آپ کو ایب نارمل کالم نگار کی پہچان کا آسان طریقہ بتائے دیتے ہیں۔ روزنامہ جنگ میں یاسر پیرزادہ کے کالم کے ساتھ جو تصویر شائع ہوتی ہے آپ اسے دیکھ لیجیے اور جان لیجیے کہ ایب نارمل کالم نگار ایسا ہوتا ہے؟ لیکن تصویر تو صرف ایک شہادت ہے یاسر پیرزادہ کا ایک حالیہ کالم بھی ایب نارمل کالم نگار کا اچھا تعارف ہے۔ یاسر پیرزادہ کے اس کالم کا عنوان ہے ’’ایک نارمل ملک کیسا ہوتا ہے؟‘‘ اس کالم میں یاسر پیرزادہ نے کیا لکھا ہے دل اور زبان تھام کر ملاحظہ کیجیے لکھتے ہیں۔

’’ایک عام، سادہ، متوسط درجے کا ملک کیسا ہوتا ہے؟ اس کے شہر وں میں کیا ہوتا ہے، وہاں کے باسی کیا کرتے ہیں، کس طرح رہتے ہیں، اُن کی تفریحات کیا ہوتی ہیں، کاروبار کیسے کرتے ہیں، احتجاج کیسے کرتے ہیں، سوگ میں کیا کرتے ہیں، جشن کیسے مناتے ہیں؟ میں زیادہ دنیا تو نہیں گھوما مگر پھربھی چھبیس ستائیس ملک دیکھ چکا ہوں، ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ بھی اور اسلامی اور غیر اسلامی بھی۔ ہم جدید ملکوں کی بات نہیں کرتے کہ اُن سے موازنہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی غریب اپنی ٹوٹی پھوٹی موٹر سائیکل کا مقابلہ کسی امیر کی مرسڈیز سے کرے۔ لیکن ہم اُن ممالک سے اپنا موازنہ ضرور کرسکتے ہیں جن کے پاس ہماری طرح ٹوٹی ہوئی موٹر سائیکل ہوا کرتی تھی مگر پھر انہوں نے اس کی مرمت کروا لی جس کی وجہ سے اِن ’ممالک‘ کو اب نارمل کہا جا سکتا ہے جیسے کہ انڈونیشیا، ترکی، تھائی لینڈ، بنگلا دیش، ملائشیا۔ چند دہائیاں پہلے تک ہم بھی نارمل ہوا کرتے تھے۔ اُس وقت نہ ہمارے ہر رکشے کے پیچھے کسی پیر کے عرس کا پوسٹر چسپاں ہوتا تھا اور نہ ہماری شام کی تفریحات صرف کڑاہی گوشت کھانے تک محدود ہوتی تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب ہمارے ہاں سال میں دو سو فلمیں بنتی تھیں، موسیقی کی محفلیں ہوا کرتی تھیں، لاہور اور کراچی میں نائٹ کلب ہوا کرتے تھے اور پی آئی اے کی میزبان دوران پرواز مسافروں کو خاص مشروب ’سرو‘ کیا کرتی تھیں۔ آج کل کبھی کبھار وہ پرانے اشتہارات سوشل میڈیا پر دیکھنے کو مل جاتے ہیں جن سے اُس زمانے کے لاہور اور کراچی کی نائٹ لائف کا اندازہ ہوتا ہے۔

یہاں تک لکھنے کے بعد مجھے یوں لگ رہا جیسے میں غلط ٹریک پر چل پڑا ہوں کیونکہ اِس ملک میں ایک نسل ایسی پیدا ہو چکی ہے جس کے نزدیک اِن تمام باتوں کا ذکر کرنا بھی گناہ کبیرہ ہے۔ جس بندے نے یہ ملک اِسلام کے نام پر حاصل کیا تھا اُس کا نام محمد علی جناح تھا اور بطور گورنر جنرل جب وہ کابینہ کے اجلاس کی صدارت کیا کرتا تھا تو اُس اجلاس سے پہلے قرآن پاک کی تلاوت نہیں کی جاتی تھی کہ اُس کابینہ کے کئی ارکان غیر مسلم تھے۔ آج اگر خود جناح صاحب زندہ ہو کر آجائیں اور ایسی کابینہ تشکیل دیں جیسی انہوں نے دی تھی اور اس کا اجلاس بھی ویسے ہی بغیر تلاوت کے منعقد کریں تو اگلے روز اُن پر کفر کا فتویٰ لگ جائے۔ پی آئی اے، نائٹ کلب وغیرہ کی جو مثالیں میں نے دی ہیں وہ قبل از مسیح کی نہیں بلکہ اسی پاکستان کی ہیں جو جناح صاحب نے اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا اور جس کے بننے کے تیس سال بعد تک یہ سب کچھ بغیر کسی روک ٹوک کے ہوتا تھا اور کسی کے جذبات بھی مجروح نہیں ہوتے تھے۔ قائد اعظم نے نارمل انسانوں کے لیے ایک نارمل ملک بنایا تھا جہاں ہر کسی کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی تھی۔ یوں سمجھیں کہ یہ ملک Life, liberty and pursuit of happiness کا مقامی نسخہ تھا۔

آج حال یہ ہے کہ ہم دنیا کا ایک ایسا انوکھا ملک بن کر رہ گئے ہیں، جہاں نارمل انداز میں کوئی بات کرنا یا کام کرنا ایک عذاب بن چکا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک انڈونیشیا ہے، اس کے شہر جکارتہ میں حجاب پہنی عورتیں بھی نظر آتی ہیں اور نائٹ کلب بھی، مساجد بھی ہیں اور مساج پارلر بھی، جو مزاج یار میں آئے۔

ترکی آج کل ہمارا بہت پسندیدہ ملک ہے، نارمل دنیا کا کون سا ایسا کام ہے جو ترکی جیسے اسلامی ملک میں نہیں ہوتا! متحدہ عرب امارات والے بھی ہمارے بھائی ہیں، انہوں نے بھی کلمہ پڑھ رکھا ہے، مگر بقول شخصے ہم تو باؤلے ہی ہو گئے ہیں! (روزنامہ جنگ۔ 3 نومبر 2021ء)

جیسا کہ ظاہر ہے یاسر پیرزادہ نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک ’’ایب نارمل ملک‘‘ قرار دے دیا ہے اور اس کی وجہ سیاسی و سماجی نہیں مذہبی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یاسر پیرزادہ معاذاللہ اسلام کو ایک ’’ایب نارمل نظام خیال‘‘ سمجھتے ہیں۔ فرقے، مسلک، فرد یا جماعت پر تنقید کا جواز ہوتا ہے مگر ایک اسلامی معاشرے میں دین کو ایب نارمل بنا کر پیش کرنے کے عمل کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ چناں چہ اسی لیے ہم نے یاسر پیرزادہ کو ایک ایب نارمل کالم نگار قرار دیا ہے۔

دنیا کا کوئی معاشرہ ایسا نہیں جو ’’نارمل‘‘ اور ’’ایب نارمل‘‘ کے تصورات کا حامل نہ ہو۔ ایک مسلم معاشرے کا نارمل اور ایب نارمل شخصی اور انفرادی رائے سے نہیں اسلام کی بنیاد پر طے ہوتا ہے۔ اسلام کے نزدیک ایک خدا پر ایمان سب سے نارمل بات ہے اور کفر اور شرک کے تصورات ایب نارمل ہیں جنہیں ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کے نزدیک توحید اتنی اہم ہے کہ ایک لاکھ 24 ہزار انبیا توحید کی تبلیغ کے لیے دنیا میں معبوث کیے گئے۔ ہر نبی نے کفر اور شرک کو ضلالت، گمراہی اور ایب نارمل تصورات قرار دے کر مسترد کردیا اور کافروں اور مشرکوں کے خلاف جدوجہد کی۔ یاسر پیرزادہ اگر رسول اکرمؐ کے زمانے میں ہوتے تو وہ معاشرے پر پہلے سے غالب تصورات کے ساتھ ہوتے۔ وہ کہتے نارمل تو کفر اور شرک ہے اسلام تو نامانوس اجنبی ہے یہی ایب نارمل ہے۔ اگرچہ توحید کا تصور ہندوئوں کی مقدس کتابوں میں بھی موجود ہے مگر ہندوازم کو انحرافی رویوں کا شکار ہوئے صدیاں بیت گئی ہیں اور اب ہندو معاشرے میں شرک کو بھی نارمل تصور کی حیثیت سے قبول کرلیا گیا ہے۔ عیسائیت بھی کبھی سچا مذہب تھا اور وہ بھی ایک خدا کے تصور پر کھڑی تھی مگر عیسائیت نے تثلیث ایجاد کرلی اور اب وہ سیدنا عیسیٰؑ اور حضرت جبرائیلؑ کو بھی خدا کی خدائی میں شریک تصور کرتی ہے۔ یہ تصور اب عیسائیت کا ’’نارمل‘‘ تصور ہے۔ اس کے برعکس مارکسزم یا کمیونزم خدا اور مذہب کا منکر تھا اس کے لیے خدا پر ایمان لانا ایک ’’ایب نارمل بات‘‘ تھی۔ چناں چہ کمیونزم جب تک دنیا میں موجود رہا وہ ایک بے خدا معاشرے کے تصور کو نارمل بنا کر پیش کرتا رہا۔ جدید مغرب کی سیکولر تہذیب میں خدا اور مذہب دونوں انسان کے ’’عہد جہالت‘‘ کی یادگار ہیں۔ جدید مغرب کا تصور یہ ہے کہ انسانی تاریخ چار ادوار میں منقسم ہے۔ انسانیت کی تاریخ کا پہلا دور جادو کا دور تھا۔ پھر انسان نے ترقی کی تو مذہب کا زمانہ آگیا۔ انسان کا مزید ارتقا ہوا تو اس نے فلسفہ کا عہد خلق کرلیا مگر انسان کا ارتقا یہاں رک نہیں گیا۔ انسان کا سفر جاری رہا اور آج کا عہد سائنس کا عہد ہے۔ اب صرف سائنس اور اس کے عقائد درست اور نارمل ہیں اور اس کے سوا جو کچھ ہے وہ ’’ایب نارمل‘‘ ہے۔ مگر یاسر پیرزادہ نے نارمل اور ایب نارمل کی تقسیم مذہبی اور غیر مذہبی کی بنیاد پر نہیں کی۔ ان کا اصرار یہ ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں جو شخص خدا کو ماننا چاہے خدا کو مانے جو خدا کا کھلا انکار کرنا چاہے وہ مسلمان ہونے کے باوجود خدا کا کھلا انکار کرے۔ ایک شخص شراب نہیں پیتا تو نہ پیے مگر دوسرا شخص شراب پینا چاہے تو اسے شراب پینے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ان کے نزدیک تضادات میں غرق معاشرہ اور ملک ہی نارمل قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایسا معاشرہ جو تضادات سے بلند ہو کر خود کو اسلام سے پوری طرح ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرے ان کے نزدیک ایک ایب نارمل معاشرہ ہے۔

بدقسمتی سے یاسر پیرزادہ نارمل اور ایب نارمل کے سلسلے میں صرف غلبے کو واحد معیار بناتے ہیں۔ ان کی نظروں میں دنیا کی تمام ائرلائنز شراب سرو کرتی ہیں۔ چناں چہ دنیا کا ’’نارمل‘‘ یہی ہے۔ پی آئی اے بھی کبھی مسافروں کو شراب دیا کرتی تھی اس لیے اس وقت ہمارا معاشرہ نارمل تھا مگر اب پی آئی اے مسافروں کو شراب نہیں پلاتی اس لیے ہمارا معاشرہ ایب نارمل ہوچکا ہے۔ یاسرپیرزادہ کے اس اصول کو درست مان لیا جائے تو سود کھانا بھی نارمل بات ہے اس لیے کہ پوری دنیا کا نظام سود پر چل رہا ہے۔ دنیا میں کروڑوں لوگ زنا کررہے ہیں اس لیے زنا بھی نارمل بات ہے۔ اس کے برعکس جو سود نہیں لیتا اور زنا نہیں کرتا وہ ’’ایب نارمل‘‘ ہے۔ یاسر پیرزادہ کے اس تصور کو آگے بڑھایا جائے تو یاسر پیرزادہ کہیں گے اگر پورا ملک اندھا ہوگیا ہے اور ایک شخص کی دونوں آنکھیں کام کررہی ہیں تو اندھا ’’نارمل‘‘ ہے اور آنکھیں رکھنے والا ’’ایب نارمل‘‘ ہے۔ معاشرے میں ہر شخص رشوت لے رہا ہے چناں چہ تمام لوگ نارمل ہیں لیکن جو شخص رشوت نہیں لیتا وہ ’’ایب نارمل‘‘ ہے۔

معاشرے میں بیش تر لوگ کوٹھے پر طوائف کا مجرا سننے جاتے ہیں چناں چہ وہ نارمل ہیں۔ کچھ لوگ مجرا سننے نہیں جاتے وہ ایب نارمل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر معاشرے کا غالب رجحان ہی سب کچھ ہے تو پھر کسی مذہب اور اخلاق کی ضرورت ہی کیا ہے؟ آخر یاسر پیرزادہ کھل کر اسلام کی مذمت کیوں نہیں کرتے کیوں کہ پاکستانی معاشرے میں جو بھی تغیرات آئے ہیں وہ مذہب کا نتیجہ ہیں۔ کسی فرد یا جماعت کی کوششوں کا حاصل نہیں ہیں۔

یاسر پیرزادہ نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے قائداعظم کی مثال پیش کی ہے۔ قائداعظم، عظیم انسان تھے مگر رسول اکرمؐ قائد اعظم سے پچاس ہزار ارب گنا بڑے ہیں۔ چناں چہ ہم سب مسلمان رہنمائی کے لیے اسوئہ رسولؐ کی طرف دیکھتے ہیں۔ اسوئہ قائداعظم کی طرف نہیں۔ مسلمانوں میں رہنمائی کے سلسلے میں حسب مراتب کا ایک نظام موجود ہے۔ ہم پہلے اسوئہ رسولؐ کی طرف دیکھتے ہیں، پھر صحابہ کو اپنے لیے رہنما بناتے ہیں۔ صحابہ کے بعد تابعین کی طرف دیکھا جاتا ہے اور تابعین کے بعد تبع تابعین سے رجوع کیا جاتا ہے اور پھر دین کے مستند شارحین ہمارے لیے رہنما قرار پاتے ہیں۔ ویسے یاسرپیرزادہ بتائیں تو کہ قائداعظم نے کہاں شراب اور مجرے کی تعریف کی ہے اور مسلمانوں کو ان سے ’’استفادے‘‘ کا حکم دیا ہے؟ قائداعطم نے تو صاف کہا ہے کہ ہمیں آئین بنانے کی ضرورت نہیں ہمارے لیے قرآن رہنمائی کے لیے موجود ہے۔

یاسرپیرزادہ نے نارمل ملکوں کی حیثیت سے انڈونیشیا، ترکی اور متحدہ عرب امارات کا ذکر کیا ہے۔ جہاں شراب پر بھی پابندی نہیں جہاں نائٹ کلب بھی پائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک اسلامی معاشرے کا معیار انڈونیشیا، ترکی اور متحدہ عرب امارات ہیں یا قرآن و سنت کی روشنی میں ترتیب پانے والا معاشرہ؟ مسلمان رہنمائی کے لیے ’’حاضر و موجود‘‘ کو دیکھیں یا ’’مطلوب و مقصود‘‘ کو دیکھیں؟ معاشرہ اصولوں کی بنیاد پر خلق ہوتا ہے یا حاضر موجود کی بنیاد پر۔ مگر ایک انسان بیمار ہوتا ہے تو ہم اس کا ’’علاج‘‘ کرتے ہیں یا اس کی بیماری کو ’’نمونہ ٔ عمل‘‘ بنالیتے ہیں؟ اسلام کے معیار مطلوب کو دیکھا جائے تو ترکی انڈونیشیا اور متحدہ عرب امارات کے معاشرے ’’بیمار‘‘ اور ’’ایب نارمل‘‘ ہیں مگر یاسرپیرزادہ بیماری کو صحت ’’ایب نارملٹی‘‘ کو ’’نارمیلٹی‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ یاسرپیرزادہ جیسے لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مغرب کو مسلم دنیا کے لیے معیار بنانا چاہتے ہیں مگر وہ اپنی مغرب زدگی کا اعتراف نہیں کرتے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ ان تمام حقائق کے باوجود وہ ملک کے سب سے بڑے اخبار میں پوری جرأت کے ساتھ اسلام پر حملے کرنے میں آزاد ہیں۔

حصہ