خوراک کا عالمگیر بحران

156

ویسے تو خوراک پوری دنیا کا مسئلہ ہے، تاہم اس معاملے میں پس ماندہ ممالک زیادہ الجھنوں سے دوچار ہیں۔ خوراک کی شدید قلت نے اُن کے لیے ایک مستقل دردِ سر کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں خوراک کی قلت شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہے۔ قرضوں میں جکڑے ہوئے ممالک خوراک کے معاملے میں اپنے باشندوں کی ضرورتیں پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ اس حوالے سے مسائل دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ خوراک کی قلت محض فاقہ کشی کا معاملہ نہیں بلکہ یہ تو پوری قوم کے لیے ایک عذاب ہے، کیونکہ خوراک کی شدید قلتکی وجہ سے ایک طرف غذا کم ملتی ہے اور دوسری طرف غذائیت کی بھی نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ پس ماندہ ممالک میں صحتِ عامہ کا معیار انتہائی پست ہے۔ عام آدمی کو ایک طرف تو خوراک کی کمی سے نپٹنا ہوتا ہے اور دوسری طرف اُس کی عمومی صحت بھی ایسی نہیں ہوتی کہ بے فکر ہوجائے۔

جب کسی معاشرے کو غذا اور غذائیت کی کمی لپیٹ میں لیتی ہے تب زندگی دشوار سے دشوار تر ہوتی جاتی ہے۔ آج کی دنیا مسابقت ’’گلا کاٹ‘‘ نوعیت کی ہے۔ کوئی کسی کو بخشنے کے لیے تیار نہیں۔ ترقی یافتہ دنیا اپنی ترقی کو ہر حال میں برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ صدیوں سے جن معاشروں اور خطوں کو مسلا اور کچلا جارہا تھا، جن کے وسائل بٹورے جارہے تھے وہ اب جاگے ہیں، اٹھ کھڑے ہوئے ہیں تو معاملے کی نزاکت دیکھتے ہوئے افہام و تفہیم کے بجائے ترقی یافتہ دنیا وہی سیکڑوں سال پہلے کے ہتھکنڈے اختیار کیے ہوئے ہے۔ جن معاشروں کو صدیوں سے غلامی اور پس ماندگی میں جکڑ کر رکھا گیا تھا وہ اب حق مانگ رہے ہیں تو اُنہیں مزید کچلنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ ہتھکنڈے بدل گئے ہیں، مقاصد تو وہی ہیں۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ ترقی یافتہ ممالک خوراک کے معاملے میں خودکفالت کی منزل میں ہیں مگر باقی دنیا کو خوراک کے بحران سے دوچار رکھے ہوئے ہیں، اور اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ خوراک کی قلت بہت سے خطوں کو پس ماندگی سے دوچار کیے ہوئے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا چاہتی ہے کہ یہ پس ماندگی برقرار رہے۔

کیا دنیا کو واقعی خوراک کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے؟ کیا واقعی دنیا بھر کے لوگوں کو پوری پڑے، اُتنی خوراک پیدا کرنے میں یہ زمین ناکام ہے؟ جو کچھ ہمیں دکھائی دے رہا ہے یا دکھایا جارہا ہے وہ تو یہی کہتا ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں کو جتنی خوراک چاہیے اُتنی پیدا نہیں ہو پارہی۔ یہی سبب ہے کہ خوراک کا بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ خوراک کے بحران کی دو پرتیں ہیں: غذا کی کمی اور غذائیت کی کمی۔ پس ماندہ ممالک کے لوگوں کو اوّل تو خوراک کم مل پارہی ہے، اور جو خوراک مل رہی ہے وہ بھی قابلِ قبول معیار کی نہیں، یعنی اُسے استعمال کرنے سے مطلوب توانائی پیدا یا بحال نہیں ہو پارہی۔

اقوامِ متحدہ کے تحت کام کرنے والے ادارے گلوبل فوڈ پالیسی نے اپنی تازہ ترین رپورٹ (برائے 2024ء) میں لکھا ہے کہ دنیا بھر میں خوراک کا بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اس بحران کی کئی تہیں یا پرتیں ہیں۔ پس ماندہ ممالک کے لیے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ حکومتیں اپنے عوام کو اُن کی بنیادی ضرورت کے مطابق خوراک فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ اِس کی بہت سی وجوہ ہیں اور کوئی بھی وجہ ایسی نہیں کہ نظرانداز کردی جائے۔ معیشتوں کا باہمی تصادم بھی خوراک کے مسئلے کو مزید پیچیدہ بناتا جارہا ہے۔ بہت سے خطے طبعی طور پر اس قابل ہی نہیں کہ زیادہ یا کافی خوراک پیدا کرسکیں۔ اُنہیں خوراک درآمد کرنا ہی پڑتی ہے۔ جب وہ خوراک خریدنے عالمی منڈی کا رُخ کرتے ہیں تو خوراک کے دام بڑھ جاتے ہیں۔ بہت سے صنعتی ملکوں کا یہی حال ہے۔ وہ دنیا بھر کے پس ماندہ خطوں سے اچھا خاصا اناج خرید لیتے ہیں۔ پھلوں اور سبزیوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ جب بڑے، متمول ممالک بڑے پیمانے پر خوراک خریدتے ہیں تو پس ماندہ ممالک کے لیے خوراک کا بحران مزید شدت اختیار کرلیتا ہے کیونکہ اُن کی پیدا کردہ اچھی خاصی خوراک تو برآمد کردی جاتی ہے۔

گلوبل فوڈ پالیسی کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں کم و بیش 2 ارب افراد کو اس وقت خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ یہ قلت اِس شکل میں ہے کہ وہ ایسی خوراک نہیں لے پارہے جو اُن کی صحت کا معیار بلند رکھے۔ گلوبل فوڈ پالیسی کے انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں ایسے کئی خطے ہیں جن کے لوگ خوراک کی شدید قلت کے باعث صحت کے معاملے میں بھی پیچیدگیوں کا سامنا کررہے ہیں۔

گلوبل فوڈ پالیسی کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں یومیہ خوراک کا عمومی معیار یہ ہے کہ ہر شخص کو کم از کم 400 گرام سبزیاں اور پھل ملنے چاہئیں۔ اس معیار کے مطابق خوراک لینے کی صورت میں انسان اس حد تک صحت مند رہ سکتا ہے کہ اپنے حصے کا کام ڈھنگ سے کرے، معاشی سرگرمیوں میں اچھی طرح حصہ لے۔

پس ماندہ ممالک کا حال یہ ہے کہ اُن کے باشندوں کو اس کم از کم یومیہ معیار کے مطابق بھی خوراک فراہم کرنا ممکن نہیں ہو پارہا۔ افریقا کے بیشتر ممالک میں کم از کم یومیہ خوراک کے معیار کے مطابق چل پانا ممکن نہیں ہو پارہا۔ کروڑوں بچے غذا اور غذائیت کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ اُن کے لیے ڈھنگ سے جینا ممکن نہیں ہوپارہا۔ یہی سبب ہے کہ اُن کی صحت کا معیار گرتا جارہا ہے اور وہ بہت کوشش کے باوجود ڈھنگ سے جینے میں ناکام ہیں اور اُن میں اموات کی شرح دن بہ دن بلند سے بلند تر ہوتی جارہی ہے۔ اس حوالے سے ترقی یافتہ دنیا کو جو کردار ادا کرنا چاہیے وہ ادا نہیں کیا جارہا۔

خوراک کی قلت جب صحتِ عامہ کے معیار پر اثرانداز ہوتی ہے تب کام کرنے کی لگن کم ہوتی جاتی ہے۔ کسی بھی قوم میں کچھ کردکھانے کا جذبہ اور ولولہ اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ اچھا کھا، پی رہی ہو۔ خوراک کی قلت سے صحتِ عامہ کے متاثر ہونے کی صورت میں کام کرنے کا جذبہ بھی سرد پڑتا جاتا ہے۔ ایسے معاشروں میں لوگ نیم دِلانہ انداز سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اُن کے لیے کام کرنے کی لگن تو دور کی بات ہے، زندہ رہنے کی بھرپور لگن بھی برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوتا جاتا ہے۔

گلوبل فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے جاری کی جانے والی گلوبل فوڈ پالیسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خوراک کے بحران نے کئی دوسرے بحرانوں کو جنم دینا شروع کردیا ہے۔ ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ خوراک کی قلت سے صحتِ عامہ کا معیار خطرناک رفتار سے گررہا ہے۔ بہت سے لوگ پیٹ بھرنے کے لیے کچھ بھی کھانا شروع کردیتے ہیں۔ سستی غیر معیاری اشیا کھانے سے اُن کے جسم میں شدید پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پس ماندہ ممالک میں شدید افلاس کے ہاتھوں غیر معیاری اشیا کھانے کا رجحان پنپ رہا ہے۔ یہ رجحان موٹاپے کو جنم دے رہا ہے اور موٹاپے کے بطن سے بہت سی طبی پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں۔ یہ بات باقی دنیا کو بہت عجیب لگتی ہے۔ طنز بھی کیا جاتا ہے کہ جنہیں کھانے کو نہیں مل رہا وہ موٹے ہوتے جارہے ہیں۔ موٹاپے کا تعلق زیادہ کھانے سے نہیں بلکہ غیر معیاری کھانے سے ہے۔ اگر کوئی شخص انتہائی غیر معیاری چیزیں کھاتا رہے تو اُس کے لیے موٹاپے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ جسم میں پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں، اور یوں جسم پھولنے لگتا ہے۔ افریقا کے بیشتر ملکوں میں بچے انتہائی لاغر دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا خوراک کی شدید کمی کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ اگر اِن بچوں کو غیر معیاری چیزیں کھلائی جاتی رہیں تو یہ بھی موٹے ہوتے جائیں گے۔

گلوبل فوڈ پالیسی کے لیے رپورٹ مرتب کرنے والی ڈاکٹر پوریما مینن کہتی ہیں کہ دنیا بھر میں ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کے 2 ارب 20 کروڑ سے زائد افراد موٹاپے کا شکار ہیں اور اِن میں سے 40 فیصد کو ہائی بلڈ پریشر کا عارضہ لاحق ہے۔ یہ لوگ اکثر پریشان اور مشتعل رہتے ہیں، بات بات پر پھٹ پڑتے ہیں، کسی بھی معاملے میں زیادہ تحمل کا مظاہرہ نہیں کر پاتے، اور یوں ان کی زندگی شدید عدم توازن کا شکار رہتی ہے۔

گلوبل فوڈ پالیسی کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں عام آدمی میں وٹامنز کی کمی دور کرنے کی کوششیں کمزور پڑتی جارہی ہیں اور دوسری طرف موٹاپے کا گراف بلند تر ہوتا جارہا ہے جو اس بات کی واضح ترین علامت ہے کہ اِن ملکوں میں ناکافی اور ناقص خوراک کی وجہ سے صحتِ عامہ کا مسئلہ بھی انتہائی نوعیت کا ہوچکا ہے۔

انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے 41 محققین کے فراہم کردہ حقائق، اعداد و شمار اور سفارشات پر مبنی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں انتہائی پس ماندہ ممالک کے لیے خوراک کا کافی حد تک انتظام کرنا لازم ہے۔ بصورتِ دیگر خوراک کا عالمگیر بحران دو سے ڈھائی ارب افراد کی زندگی کو انتہائی کس مپرسی کی حالت میں چھوڑ دے گا۔

رپورٹ میں متمول ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ تیسری دنیا کے ممالک میں خوراک کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اپنا کردار پوری ایمان داری سے ادا کریں۔ ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں خوراک کے بحران کو مؤثر طور پر حل کرنے کے لیے سالانہ 1300 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں متعلقہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ دنیا کو بھی اپنا کردار عمدگی سے ادا کرنا ہے۔

خوراک کے عالمگیر بحران کو ختم کرنا اس لیے بھی لازم ہے کہ پس ماندہ ممالک میں صحتِ عامہ سے متعلق پیچیدگیاں باقی دنیا کو بھی متاثر کرسکتی ہیں کیونکہ اِن ممالک کے لوگ دوسرے ملکوں میں بھی جاتے ہیں۔ معاشی بہتری کے لیے ترکِ وطن بڑھتا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ اِدھر سے اُدھر جارہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بیماریاں پھیلنے کا بھی خدشہ توانا تر ہوتا جارہا ہے۔

دنیا بھر میں خوراک سے متعلق امور کے ماہرین بارہا خبردار کرچکے ہیں کہ خوراک کا بحران ڈھائی ارب سے زائد زندگیوں کو داؤ پر لگا سکتا ہے۔ خوراک کی شدید قلت سے دوچار معاشروں میں معاشرتی سطح پر بھی شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ انسان کو اگر پیٹ بھر کھانا نہ ملے تو زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ ایسے میں انسان اپنے حصے کا کوئی بھی کام دل جمعی سے نہیں کرسکتا۔ یوں معاشرے میں انتشار پھیلتا ہے۔ عمومی صحت کا گرتا ہوا معیار مسائل کی شدت بڑھا رہا ہے۔ پس ماندہ ممالک کے لوگ معاشی سرگرمیوں میں زیادہ جوش و خروش اور دل جمعی سے حصہ نہیں لے پاتے۔ اِس کے نتیجے میں اُن کی مجموعی پیداوار بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔

پاکستان جیسے ممالک میں خوراک کی قلت ہے بھی اور نہیں بھی۔ ملک کی آبادی کو جتنی خوراک درکار ہے وہ اللہ کی طرف سے عطا کی جارہی ہے۔ یہ انسانوں کا گھٹیا پن ہے کہ وافر خوراک کے ہوتے ہوئے بھی خوراک کا بحران پیدا کرتے ہیں، چیزوں کے دام بلا جواز طور پر بڑھاتے جاتے ہیں۔ آج پاکستان میں سبزیوں کے دام اِتنے بڑھ گئے ہیں کہ پھلوں کے نرخ پیچھے رہ گئے ہیں۔ اناج بھی کسی جواز کے بغیر مہنگا کردیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے کہ متعلقہ مشینری اپنے حصے کا کام کرنے کے بجائے اپنی جیب بھرنے میں مصروف ہے۔

خوراک کا بحران پاکستان میں بھی وہی اثرات پیدا کررہا ہے جو دیگر خطوں میں پیدا کررہا ہے۔ غربت کی چکی میں پسنے والے ناقص اشیا کھانے سے موٹاپے کا شکار ہورہے ہیں، اور یوں صحت کے حوالے سے اُن کی الجھنیں بھی بڑھتی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے جامع پالیسی مرتب کرکے بے داغ حکمتِ عملی کے تحت بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ناکافی و ناقص خوراک کے ہاتھوں پاکستان میں بھی موٹاپے سمیت صحتِ عامہ کے متعدد مسائل ابھر رہے ہیں۔ ہائی بلڈ پریشر کا عارضہ بھی عام ہے۔ لوگوں میں تحمل بھی کم ہوتا جارہا ہے۔ حالات کا دباؤ زندگی کا تیاپانچا کررہا ہے۔ اس معاملے میں اب تاخیر کی گنجائش نہیں۔ لازم ہے کہ جو کچھ بھی کیا جائے، تیزی سے کیا جائے۔

خوراک کا عالمگیر بحران بین الاقوامی اداروں پر بھاری ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، انتہائی پس ماندہ خطوں کے لوگوں کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بنانے کے لیے کچھ ایسا کریں جو اُن کے لیے خوراک کا بھی اہتمام کرے اور بہتر معاشی امکانات کا بھی۔

حصہ