آم پھلوں کا بادشاہ ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ یہ لاتعداد ذائقے اور اقسام میں دنیا کے کئی ممالک میں کاشت کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہالہ منصورہ جانا ہوا تو ایک منفرد، خوش شکل، ذائقے میں چونسہ کے قریب آم کھانے کا موقع ملا، بلکہ میرا تو کہنا تھا کہ یہ لال چونسہ ہے، لیکن بتایا گیا یہ سینسیشن آم ہے۔
کیا ذائقہ تھا… نہ ترش اور نہ بہت زیادہ میٹھا، بلکہ ڈاکٹر سے مشورہ کرلیا جائے تو یہ میرے خیال میں شوگر کے مریضوں کے لیے بھی موزوں ہے۔ ویسے بھی آم کا گلائسمک انڈیکس 51 ہوتا ہے جو دیگر پھلوں کے مقابلے میں کم شمار ہوتا ہے، اور اسے کم مقدار میں ذیابیطس کے مریض کھا سکتے ہیں، لیکن معالج سے مشورہ ضروری ہے۔
جب سینسیشن آم پک جاتا ہے تو اس کی جلد کا رنگ سرخ، گلابی اور پیلا ہوتا ہے۔ جلد پر سرخ اور پیلے رنگ کی جھلک آم کو ایک دلکش اور دیدہ زیب شکل دیتی ہے۔ جلد کے اندر کا گودا گہرا پیلا یا سنہری ہوتا ہے، جو رس سے بھرپور اور نرم ہوتا ہے۔
اس کی شکل لمبوتری ہوتی ہے۔ اس کا وزن بڑے اچھے درخت میں عموماً 300 سے 500 گرام کے درمیان ہوتا ہے۔
درخت پر لگے آم کی خوبصورتی بھی لاجواب تھی، میرا بیٹا سعدی تو آم کے ایک درخت سے دوسرے درخت کی طرف دوڑ میں لگا تھا۔ ویسے بھی کھیت، کھلیان، جنگل جانے کا موقع مل جائے تو کراچی میں رہنے والوں کے لیے یہ کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا، کیونکہ وہ تو کنکریٹ کے جنگل میں رہتے ہیں، جہاں ٹریفک کا شور، دھواں، آلودگی ہی آلودگی اور فضا مٹیالی ہوگئی ہے۔ خیر بات دور تک نکل گئی، یہاں کہنا یہ ہے کہ بلاشبہ منصورہ ہالا جس کے ساتھ بہت بڑا دینی مدرسہ بھی ہے، اب پہلے سے زیادہ سرسبز اور خوب صورت ہوچکا ہے، جہاں ٹیوب ویل لگادیا گیا ہے اور دعا فاؤنڈیشن نے ایک چھوٹا سا حوض بنادیا ہے جو سوئمنگ پول کا کام دے رہا ہے، جس میں نہانے سے جولائی کی سخت گرمی میں بہت سکون ملا۔ ویسے اگر یہاں باقاعدہ فارم ہاؤس بن جائے تو میرا خیال ہے کراچی سے لوگ بھاگ بھاگ کر خوشی خوشی آئیں، اور یہ بھی مدرسے کی آمدنی کا ایک ذریعہ بن جائے۔
بات سینسیشن آم کی ہورہی تھی، تو اس کی تاریخ یہ ہے کہ یہ ایک مشہور اور اعلیٰ معیار کا لال آم ہے۔ یہ اپنی منفرد خوشبو، ذائقے اور شکل کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔
سینسیشن آم کی ابتدا امریکا کی ریاست فلوریڈا میں ہوئی تھی۔
یہ 1920ء کی دہائی تھی۔ یہ آم جلد ہی اپنی خوبصورتی اور لذیذ ذائقے کی بنا پر مقبول ہوتا چلاگیا۔ سیاحت کے شوقین افراد اور ماہرین نے دنیا بھر میں تجربات شروع کردیے اور پھر دیگر ممالک میں بھی اس کی کاشت شروع ہوگئی اور یہ مشہور ہوتا چلا گیا، اور اب فروغ پارہا ہے۔
سینسیشن آم کی کاشت جن ممالک میں ہوتی ہے، ان میں امریکا، میکسیکو، برازیل، بھارت، پاکستان اور دیگر گرم آب و ہوا والے ممالک شامل ہیں۔
سینسیشن آم کی کئی اقسام ہیں، ان میں معمولی فرق ہوسکتا ہے، جیسے رنگ، سائز اور ذائقے میں، لیکن تمام اقسام کی بنیادی خصوصیات یکساں ہوتی ہیں۔
جیسا کہ میں نے کہا یہ ذائقے میں عمدہ اور انتہائی مناسب میٹھا ہوتا ہے، اس کا گودا رس دار اور نرم ہوتا ہے، گٹھلی بہت چھوٹی ہوتی ہے اور اس میں ریشے بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ آم کھانے میں انتہائی لذیذ ہوتا ہے۔ اس کی خوشبو بھی بہت خوشگوار ہوتی ہے جو اسے دیگر آموں سے ممتاز بناتی ہے۔
پاکستان کے سینسیشن آم کا ذائقہ الگ اور زیادہ اچھا ہے۔ بس کھانا شرط ہے۔
پاکستان میں سینسیشن آم کی کاشت کچھ عرصے سے صوبہ پنجاب اور سندھ کے چند علاقوں میں کی جارہی ہے۔ ان علاقوں کی آب و ہوا اور مٹی آم کی کاشت کے لیے موزوں ہوتی ہے، جس کی وجہ سے یہاں کے آم اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں۔ سندھ میں خیرپور کے بعد ہالا میں تجربہ کامیاب رہا ہے اور کہا یہ جارہا ہے کہ اسے کراچی میں بھی لگایا جاسکتا ہے، اور یہ پھل بھی خوب دے گا بلکہ گملوں میں بھی لگ سکتا ہے، کیونکہ اس کے درخت پستہ قد ہوتے ہیں۔
ہالا میں سینسیشن آم کاشت کرنے والے عمر فاروق بھٹو کہتے ہیں کہ درخت محبت مانگتے ہیں، ان کو بہتر نشوونما کے لیے مخصوص دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے… اس میں باقاعدہ پانی دینا، کھاد ڈالنا اور بیماریوں سے بچاؤ کے لیے مناسب اقدامات کرنا شامل ہیں۔ درختوں کی شاخوں کی کٹائی اور کیڑوں سے بچاؤ بھی اہم ہے تاکہ درخت صحت مند رہیں اور بہترین پھل دیں۔
سینسیشن آم میں بھی مختلف غذائی اجزاء شامل ہوتے ہیں جو صحت کے لیے مفید ہیں۔ ان میں وٹامن اے، وٹامن سی، وٹامن ای، فائبر، پوٹاشیم اور اینٹی آکسیڈنٹس شامل ہیں۔ یہ اجزاء جلد کی خوبصورتی، آنکھوں کی صحت، قوتِ مدافعت کی مضبوطی اور نظامِ ہضم کی بہتری کے لیے مفید ہیں۔ کیونکہ ہالا میں یہ تجربہ ڈاکٹر فیاض عالم کا ہے، اس لیے اُن کا کہنا ہے کہ ہالا میں ہم نے جو آم کاشت کیے ہیں اس کا ٹیسٹ کروانے جارہے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ آم ذائقے کے ساتھ صحت کے لیے کیسا ہے اور کیا شوگر کے مریضوں کے لیے مستقبل میں اہم ہوسکتا ہے؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ دعا فائونڈیشن نے اکتوبر 2019ء کے بعد سے اب تک منصورہ کی زرعی زمین پر مختلف پھلوں کے 20 ہزار سے زیادہ درخت لگائے ہیں، ان میں آم کے 8 ہزار درخت بھی شامل ہیں جن میں سندھڑی، سفید چونسہ اور سینسیش ورائٹیز کے درخت شامل ہیں۔ ہم نے یہاں آم کی کاشت کے جدید طریقے متعارف کروائے ہیں جیسا کہ ہائی ڈینسٹی اور الٹرا ہائی ڈینسٹی فارمنگ۔
ہائی ڈینسٹی میں ایک ایکڑ میں سندھڑی کے 440 درخت، جبکہ الٹرا ہائی ڈینسٹی میں ایک ایکڑ میں سینسیشن کے 1350 پودے لگائے گئے ہیں۔ یہاں دو ایکڑ پر 2700 پودے موجود ہیں جو اگست 2022ء میں لگائے گئے تھے اور ان میں سے کئی سو درختوں پر اس وقت بھی پھل لگا ہوا ہے۔ سینسیشن کو لیٹ ورائٹی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس کا پھل جولائی اور اگست میں تیار ہوتا ہے۔ اس کی شیلف لائف بھی سندھڑی اور چونسہ سے زیادہ ہوتی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ سینسیشن آم کی عالمی منڈی میں بھی بڑی مانگ ہے۔ اپنی خوشبو، ذائقے اور خوبصورت رنگ کی وجہ سے یہ آم بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی مقبول ہے اور مختلف ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔
سینسیشن آم ایک اعلیٰ معیار کا آم ہے جو اپنی منفرد خصوصیات، ذائقے اور غذائیت کی بنا پر دنیا بھر میں مقبول ہے۔ ماہرین کی آراء، فصل کی پیداوار، بیماریوں سے بچاؤ اور برآمد کے حوالے سے معلومات اس کی اہمیت اور قدر میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔
کیوں نا زوال پذیر معیشت کے دور میں اس طرح کے پروجیکٹس کو فروغ دیا جائے، لوگوں میں شعور اجاگر کیا جائے کہ وہ زراعت اور اس سے متعلقہ کاروبار کی طرف آئیں، کسان کے لیے سہولت اور آسانی پیدا کی جائے۔ یہ پاکستان میں آم کی دو سو اقسام میں سے صرف ایک کی بات ہے کہ سینسیشن آم کی کاشت کامیابی سے کیے جانے کا تجربہ ہوچکا ہے، اور یہاں کے لوگ اس کے ذائقے اور خوشبو سے خوب لطف اندوز ہورہے ہیں۔
پاکستان کے سینسیشن آم کی برآمد بھی کی جاتی ہے۔ آم کو بین الاقوامی منڈیوں میں بڑے پیمانے پر پہنچانے کے لیے آئندہ تین سالوں میں پلاننگ کرنی چاہیے کیونکہ وہاں اس کی بڑی مانگ ہوتی ہے۔ برآمدی آم کی پیکنگ اور معیاری جانچ پر خاص توجہ دے کر اور عالمی منڈی کے مطابق اس کا معیار برقرار رکھ کر ہم اپنے کسان اور معیشت کو بہت فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔