ہجرت کے زخم

129

خالہ امانت سارے محلے کی خالہ تھیں۔ پینسٹھ کے سن کو چھوتی مگر ایک دم فٹ۔ خالہ بی بی کو حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنے کا بہت شوق تھا۔ اس لیے محلے کے نوجوان انہیں ’’خالہ بی بی سی‘‘ کہتے۔ وہ محلے کی عورتوں کو حالاتِ حاضرہ سے باخبر رکھتیں۔

1985ء کی بات ہے، اُس زمانے میں محلے میں آنا جانا رہتا تھا۔ دن میں ایک آدھ گھنٹے لازمی عورتوں کی بیٹھک جمتی۔ خالہ خود تو فارغ البال تھیں اور ان کے شوہر کا انتقال بہت عرصہ پہلے ہوچکا تھا۔

اب ان کا کام رشتے کروانا تھا۔ یہ کام وہ فی سبیل اللہ کرتیں۔ پاکستان کو وجود میں آئے 38 سال ہوگئے تھے۔ ابھی تو تقسیم کے زخم بھی کچے تھے۔ ہجرت کے سفر میں بلوائیوں نے خاصی بچیاں اٹھالی تھیں جن کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔

بہت سے بچھڑے ہوئے لوگوں کا پتا کئی کئی سال بعد چلا۔ جب کسی بچھڑے کی خبر ملتی تو لوگ پاکستان سے ان کو ڈھونڈنے جاتے۔

میں امی کے پاس بیٹھی قرآن مجید کا اپنا سبق یاد کررہی تھی کہ خالہ امانت دروازہ کھول کر ہانپتی کانپتی داخل ہوئیں اور امی سے مخاطب ہوکر بولیں ’’بشریٰ ایک بہت اہم خبر ہے۔ تم نے مجھے بتایا تھا نا، کہ تم ریاست مالیر کوٹلہ سے ہجرت کرکے آئی ہو۔‘‘

امی نے کہا ’’جی خالہ…!‘‘

’’میری ایک پرانی جاننے والی زینب مجھے بازار میں ملی تھی۔ اُس نے بتایا کہ میری بیٹی جسے بلوائی اٹھاکر لے گئے تھے، وہ مل گئی ہے۔ سکھوں نے اس کو اغوا کرکے مالیر کوٹلہ میں ہندوئوں کے ہاتھ فروخت کردیا تھا۔ پہلے تو اس کو بہت عرصہ قید میں رکھا، پھر اس کی شادی اپنے بیٹے دیپک سے کردی۔ دیپک پکی عمر کا تھا۔ میری بیٹی قرآن کریم پڑھی ہوئی تھی اور لکھنا پڑھنا جانتی تھی۔ اُس کا شوہر دیپک بہت ظالم تھا۔ کئی سال اس کو گھر میں قید رکھا۔اس سے کلثوم کے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ بڑا بیٹا رام اور چھوٹا بیٹا کنہیا۔ اس کا نام بھی کلثوم سے سرسوتی کردیا تھا۔ زبردستی اس سے پوجا پاٹ کرائی جاتی۔ اس کی ساس کے انتقال کے بعد اسے کچھ آزادی ملی۔

اپنی نند کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لیے وہ پندرہ برس بعد گھر سے نکلی۔ اس کی نند حیدرآباد میں مقیم تھی۔ پھر کلثوم کو یاد آیا کہ اس کے چچا بھی حیدرآباد میں ہی رہتے تھے۔ پہلے اس نے چچا کا گھر ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر اس کو یاد ہی نہ آیا۔

پھر ایک دن بازار میں اس کا ماموں زاد انور اس کو ملا۔اس نے کلثوم کو پہچان لیا۔ وہ بولا تم زندہ ہو۔ پھپھو اور پھوپھا تمہیں تلاش کرکے تھک گئے، پھر وہ ہجرت کر گئے، اس کے بعد بھی پھوپھا تمہیں تلاش کرنے کئی بار انڈیا آئے مگر ناکام ہوکر روتے ہوئے واپس گئے۔

اور اب اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا، بچے شادی شدہ ہوگئے تو کلثوم نے انہیں فون کیا انڈیا سے، تو زینب کے میاں اور زینب نے ایمبیسی کے ذریعے مقدمہ کرکے اس کو پاکستان بلوا لیا۔‘‘
خالہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے… اور امی کی آنکھیں بھی اشک بار تھیں۔ ان کی آنکھوں میں اپنی بیٹی سے ملنے کی تڑپ تھی ساتھ ہی چہرے پر ایک عجیب ویرانی چھائی تھی۔ آج بھی خالہ کا آنسو بہاتا اداس چہرہ ذہن میں موجود ہے۔ سوچتی ہوں نہ جانے ایسی کتنی بچیاں ہجرت کے دوران بھینٹ چڑھی ہوں گی۔

حصہ