ریڈیو ڈرامہ اور اردو

109

دہلی ایک نشہ ہے۔ چڑھ جائے تو ایسا بڑھتا کہ ہزار ترشی کھاؤ، اترتا ہی نہیں۔ جب مجھے حکم ملا کہ بمبئی جانا ہوگا تو دلی کی گلیاں پہلے سے بھی زیادہ پیاری نظر آنے لگیں۔ پُر خار سہی لیکن پھر بھی دلی میرا آشیانہ تھا۔

یہاں میرے دشمن بہت تھے اور دوست کم لیکن انسانوں کو گنے سے کیا حاصل، اس جنس کو تو لا کرتے ہیں اور وہ بھی دل کی ترازو میں۔

دلی میں لوگ میرے دشمن کیوں ہوئے، اس میں کچھ قصور میراتھا، کچھ لوگوں کا اور کچھ تقدیر کا۔ میرا قصور یہ تھا کہ میں سر پھرا تھا، ہر معاملے میں اپنی منوانا چاہتا تھا۔ بچپن کے زمانے میں گھر میں میری کون سنتا تھا، اب جوانی میں جو مجھے موقع ملا تو بچپن کی ساری کسریں نکالنے لگا۔ جو بات ہو منوا کر چھوڑوں اور اگر نہ مانی جائے تو مار نے مرنے پر تیار ہو جاؤں۔ میں نے کہا، یہ اردو میں تین گھنٹے کے ڈرامے غلط بات ہے، ریڈیو پر اتنے لمبے ڈرامے نہیں ہونے چاہئیں اور پھر یہ کیا ضروری ہے کہ ہر ڈرامے میں گانوں کی بھر مار ہو۔ اسٹیج پر تو یہ گانوں کی بھر مار چل جاتی ہے لیکن ریڈیو پر نہیں۔ ریڈیو کے ڈرامے آدھ آدھ گھنٹے یا پون پون گھنٹے کے ہونے چاہئیں اور وہ بھی بغیر گانوں کے۔

جب یہ مختصر ڈرامے ریڈیو سے نشر ہوئے تو ایک طوفان آ گیا۔ اخبارات نے یک زبان ہوکر کہا، ڈرامہ بغیر موسیقی کے ہو ہی نہیں سکتا اور پھر یہ بھی کہا کہ وہ ڈرامہ ہی کیا جو ڈھائی تین گھنٹے کا نہ ہو۔ مگر ہم اپنی بات پر اڑے رہے۔ اب کیا بتاؤں کہ یہ ہماری ہٹ دھرمی تھی یا وفاداری بشرطِ استواری، بہرحال ہم اپنی منوا کر رہے۔ اس ہٹ کا نتیجہ کہیے یا کچھ اور کہ آج ریڈیو کا ڈرامہ مختصر ہوتا ہے اور وہ بھی بغیر گانوں کے۔ جن لوگوں کو بغیر موسیقی کے ڈراموں پر اعتراض تھا وہ بھی ایک حساب سے بچے تھے۔ اردو ڈرامے کی ابتدا امانت کی اندر سبھا سے ہوئی جس میں گانے ہی گانے تھے۔ اندر سبھا کے بعد جو ڈرامے لکھے گئے ان میں بھی گانوں کی یہ روایت بہت حد تک برقرار رکھی گئی، یہاں تک کہ آج ہماری فلمیں بھی بغیر گانوں کے نہیں بنتیں۔ کہتے تو ہیں کہ ہندوستان میں ایک فلم ایسی بنی ہے جس میں کوئی گانا نہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ فلم کامیاب رہی۔ اب دیکھیے پاکستان میں بھی کوئی فلم ساز ایسا سر پھرا ہوگا یا نہیں جو بغیر موسیقی کے کوئی کامیاب فلم بنا ڈالے۔

موسیقی کی جاذبیت سے مجھے انکار نہیں۔ میں تو موسیقی کا والہانہ حد تک دل دلداہ ہوں لیکن اس کو کیا کہا جائے کہ فلم کے گانے فلم کی کہانی کے خرام میں دخل انداز ہوتے ہیں۔ جہاں کہانی نے ذرا زور پکڑا، وہیں کھٹ گانا آ گیا اور بے چاری کہانی بیچ ہی میں دب دبا کر رہ گئی مگر خیر اب کہیں کہیں ایسی کوشش ہو رہی ہے کہ فلمی کہانی میں گانا ایسے مقام پر آئے کہ کہانی کو آگے چلائے ، نہ یہ کہ چلتی کہانی کو پیچھے لے آئے۔

ڈرامے میں گانے کا مقام کچھ ایسا ہی ہے جیسا کہ پرانی نشر میں اشعار کا مقام ہوا کرتا تھا۔ یہاں مولانا ابوالکلام آزاد کی ایک بات یاد آتی ہے۔ ایک دن اپنی ایک کتاب کا ذکر کرنے لگے۔ فرمایا کہ میری اس کتاب کی طرز نگارش باقی کتابوں سے مختلف ہوگی۔ مولانا آزاد اور مختلف طرزِ نگارش؟ بات سمجھ میں نہ آئی۔ اس مختلف طرزِ نگارش سے آپ کی کیا مراد ہے؟ فرمایا پہلی کتابوں کی تو یہ حالت ہے کہ جہاں لکھتے لکھتے کوئی موڑ نظر آیا جھٹ کوئی موزوں شعر لکھ کر جان چھڑائی مگر جس کتاب کا میں تذکرہ کر رہا ہوں اس میں شعر نہیں ہوں گے۔ شعر اور موسیقی ہماری کھٹی میں ہے۔ حضرت عطا اللہ شاہ بخاری کی تقریر دل پذیر شعروں سے مرصع ہوتی تھی اور جب حضرت کوئی شعر لحن سے پڑھتے تھے تو روح تازہ ہو جاتی تھی۔ ہائے وہ درویش نعرہ زن ’’خوش فکر و بذلہ سنج وہنر پرور وغیور‘‘

اب عطا اللہ شاہ بخاری ایسا مقرر اور آغا حشر جیسا اپنے وقت کا کامیاب ڈرامہ نگار کہاں سے آئے، اور پھر ریڈیو وقت کا غلام، اتنا وقت کہاں سے نکالے کہ لمبے لمبے ڈرامے نشر کرے۔ سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ مختصر ڈرامہ لکھے کون؟ ان ڈراموں کو پیش کون کرے؟ ڈراموں میں پارٹ کون کرے؟ یہ ڈرامے لکھے گئے اور اردو میں لکھے گئے، اس لیے لازم آیا کہ وہی لوگ ڈرامے کے متعلق تمام کام کریں جو اردو زبان کی نوک پلک اور اردو زبان کے ادب سے واقف ہیں۔

وہ اردو ہی کیا جس میں عربی اور فارسی کی چاشنی نہ ہو۔ اردو ادب سے واقفیت صرف ان لوگوں کو ہو سکتی ہے جو عربی وفارسی میں بھی کچھ دسترس رکھتے ہوں۔ ان تمام ضروریات کو دیکھا تو ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ کام مسلمان نسبتاً بہتر کر سکتے ہیں۔ اردو کے ضمن میں فارسی عربی کی شد بد رکھنے والے کچھ ہوئے تو یہی رندان، قدح خوار ہوئے۔ ایک ڈرامے پر کیا موقوف ہے۔ ’’اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ‘‘

جہاں اردو کا کوئی کام ہو، نظر انتخاب عام طور پر مسلمانوں ہی پر پڑتی ہے، چناں چہ پروگرام کی کامیابی کے لیے زیادہ تر مسلمان رکھے گئے۔

محکمہ کے ہندوؤں اور مسلمانوں کی تعداد میں سرکاری توازن برقرار رکھنے کے لیے ہم نے انجینئروں کے شعبہ میں مسلمانوں کی نسبت ہندو زیادہ بھرتی کیے۔

مختصر یہ کہ پروگرام کا کام زیادہ تر مسلمانوں کے سپرد ہوا اور انجینئری کا کام ہندوؤں کے۔ یوں بھارت کے دو بڑے فرقوں میں توازن قائم ہو گیا، لیکن پروگراموں میں اردو کے خاص لب ولہجہ سے ہندو حضرات بلبلا اٹھے۔ ہر طرف سے شور ہوا کہ ہندو دھرم خطرے میں ہے۔ دہلی ریڈیو کی زبان بڑی سخت ہے۔ ہندوؤں پر گراں گزرتی ہے۔ اس زبان کو نرم کرنا چاہیے۔ اردو زبان میں نہیں بلکہ پروگرام ہندوستانی زبان میں پیش کرنے چاہئیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب گاندھی جی نے اردو کی جگہ ہندوستانی زبان کا عَلم بلند کر رکھا تھا۔

اب اگر اس ہندوستانی زبان کی کوئی ڈکشنری ہوتی، ہندوستانی زبان میں کوئی ادب موجود ہوتا تو ہم بھی کہتے کہ چلو بھائی ہم ہندوستانی زبان ہی اختیار کر لیتے ہیں لیکن اس مفروضہ زبان کو ہم کیوں کر اختیار کرتے جس کا نہ کوئی ادب تھا، نہ کوئی فرہنگ، نہ کوئی باپ تھا، نہ کوئی ماں۔ جو لوگ زبان کو آسان بنانے کے لیے برسوں سے چلا رہے ہیں ان کے شعور پر جنسی آتی ہے اور ان کی جہالت پر رحم۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ مشکل لفظ وہ ہوتا ہے جو ہم نہ جانیں، اور جو لفظ ہم جانیں وہ مشکل نہیں رہتا۔ شاعر ہو یا ادیب، بہت ڈھونڈ کے ایسا لفظ لاتا ہے جو اس کے مفہوم پر حاوی ہو۔ اب یہ اس کے بس کا روگ نہیں کہ اس لفظ کو بنا کر کوئی کانگر یسی لفظ رکھ دے اور اپنا مطلب بھی ادا کر جائے۔ آج تمہیں برس سے ان لوگوں نے یہ رٹ لگا رکھی ہے کہ آسان زبان لکھو۔ خود تو یہ حضرات نئے لفظ سیکھتے نہیں البتہ اہلِ قلم سے کہتے ہیں کہ جو لفظ تم نے سیکھ رکھے ہیں ان کو بھول جاؤ۔ یہ حضرات مہینہ بھر میں ایک نیا لفظ بھی سیکھ لیتے تو آج نو سو نئے الفاظ جانتے اور انھیں یہ کہنے کی نوبت ہی نہ آتی کہ آسان زبان لکھو۔

اہل علم اس بے انصافی کا رونا کس کے آگے روئیں۔ میرے انگلستان کے قیام کے دوران میں ٹی ایس ایلیٹ مجھ پر بہت مہربان تھے۔ یہ انگریزی زبان کے عظیم ترین شاعر ہیں اور ان کو نوبل پرائز مل چکا ہے۔ میرے یہاں کبھی کبھی تشریف لایا کرتے تھے۔ ان دنوں انھوں نے ایک نئی نظم لکھی تھی جس کا دنیا بھر میں چر چا تھا۔

ایک دن میرے پاس آئے تو میں نے عرض کیا کہ اس نئی نظم کے چند اشعار میری سمجھ میں نہیں آئے۔ ذرا ان اشعار کا مطلب بتا دیجیے۔ فرمایا مطلب بیان کرنے سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ میں نے ان اشعار میں کہا ہے، اس کو مختلف الفاظ میں بیان کروں۔ اگر مختلف الفاظ مل سکتے تو وہ میں الفاظ کیوں استعمال کرتا جو ان اشعار میں استعمال کیے گئے ہیں۔ شعر تو ایک باغ ہے، باغ کو سمجھنا کیا، باغ تو محسوس کیا جا سکتا ہے اور بس۔ لفظوں کی بحث بہت لمبی ہے۔ اس کو کسی اور صحبت پر اٹھا رکھتا ہوں اور پھر اسی موضوع کی طرف لوٹتا ہوں جس کا تعلق ریڈیو کی زبان سے تھا۔ ریڈیو کے ڈراموں کی زبان کو آسان بنانے کے لیے کرشن چندر اور اوپندر ناتھ اشک کا تعاون حاصل کرنا آسان تھا مگر غزلوں کی زبان کو کیا کرتے۔ ایسا مائی کا لال شاعر کہاں سے آتا جس کے خیالات تو غالب کے ہوں مگر زبان راجندر سنگھ بیدی کی۔ کانگریسی ہندوستانی زبان کے حامیوں نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو غزل کو فار خطی دے دو اور غزل کے بجائے گیت نشر کرو۔ انھوں نے یہ کہہ تو دیا کہ گیت نشر کرو مگر یہ نہ فرمایا کہ گیت لکھے گا کون؟ اس تمام برصغیر میں حفیظ جالندھری کے سوا کون تھا جس کے گیت میں موسیقی بھی ہو اور شاعری بھی۔ اس سے میری مراد یہ نہیں کہ باقی لکھنے والوں کے گیتوں میں یا تو صرف شاعری ہوتی تھی یا صرف موسیقی۔ان حضرات کے گیتوں میں کچھ بھی نہ تھا ، نہ موسیقی نہ شاعری، نالے کو پابندِ نَے کرنے کا سہرا حفیظ ہی کے سر رہا ہے۔

پروگرام کے شعبے میں مسلمانوں کی کثرت، زبان کا وزن، کانگریسی ہندوستانی کا کھوکھلا پن۔ سب نے مل کر مجھے بہت سے تیروں کا ہدف بنا دیا۔ اس پر اضافہ ہوا سرکار کی ناراضی کا۔ بس پھر کیا تھا‘ مجھے بوریا بستر سنبھال کر بمبئی جاتے ہی بنی۔

حصہ