مچھروں کی یلغار شہریوں کے بے بسی

117

بارش کے بعد شہر کی ابتر حالت

’’السلام علیکم امی جان‘‘۔
’’وعلیکم السلام بیٹا! آگئے۔‘‘
’’جی امی جان‘‘۔
’’کیسا رہا آج کا دن؟‘‘

’’کوئی خاص نہیں۔ ہمارے ٹیچر بارش کی وجہ سے نہیں آئے تھے، سارا ٹیوشن سینٹر خالی تھا، بس چند ہی لڑکے آئے تھے۔ صرف ایک ٹیچر تھے جنہوں نے سائنس کی کلاس لی۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ14 اگست کی آمد آمد ہے اور برسات بھی، اس لیے چھٹی کرلیتا ہوں، لیکن آپ نے زبردستی بھیج دیا۔‘‘

’’کوئی بات نہیں بیٹا! دیکھو ٹیوشن جانے سے سائنس کی کلاس ہی سہی،کچھ تو پڑھنے لکھنے کو ملا۔‘‘

پڑھائی وڑھائی نہیں ہوئی، پہلے 14 اگست کی مناسبت سے لیکچر دیا گیا، اس کے بعد قومی ترانے اور ملّی نغمے سنائے گئے۔ میرے دوست نے بھی حصہ لیا۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد سائنس کے ٹیچر تو بس مچھروں کی افزائشِ نسل پر ہی بات کرتے رہے۔‘‘

’’اس میں کون سی بُری بات ہے! یہی تو سائنس ہے، اور موسم کے اعتبار سے بہتر بھی۔ مجھے بتاؤ مچھروں سے متعلق وہ کیا معلومات دے رہے تھے؟‘‘

’’کیا بتاؤں، لمبا چوڑا لیکچر تھا۔ ویسے آج صرف 14اگست پر ہی بات ہونی چاہیے تھی۔،،

’’تو بیٹا کرلیتے، یہ تو اچھی بات ہے۔‘‘

’’کیا کرتا! ٹیچر کہہ رہے تھے کہ موسم خراب ہے، اس موسم میں مچھروں کی افزائشِ نسل ہوتی ہے، لہٰذا اس پر بات کرنا بھی ضروری ہے۔‘‘

’’تو پھر انہوں نے کیا بتایا؟‘‘

’’وہ کہہ رہے تھے کہ دنیا میں مچھروں کی 5003 اقسام پائی جاتی ہیں۔ مچھر کی زندگی چار ارتقائی مراحل پر مشتمل ہوتی ہے: انڈا، لاروا، پیوپا، اور مکمل مچھر۔ ان کی افزائش عموماً جوہڑوں، تالابوں، نالیوں یا پانی کے کسی بھی ذخیرے اور پودوں کے پتوں پر ہوتی ہے۔ ان کی زندگی کے پہلے تین مرحلے ایک سے دو ہفتے میں مکمل ہوجاتے ہیں۔ مادہ مچھر ایک ماہ تک زندہ رہ سکتی ہے مگر عام طور پر اس کی زندگی ایک سے دو ہفتہ ہوتی ہے۔ ان کی افزائش اور زندگی میں ماحول کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ بس اسی قسم کی گفتگو کرکے ٹائم پاس کررہے تھے۔‘‘

’’فضول باتیں نہ کرو، یہ تو کام کی باتیں ہیں۔ اور بتاؤ۔‘‘

’’امی جان چھوڑیں،کوئی اور بات کرلیتے ہیں، ویسے بھی مجھے بہت زور کی بھوک لگ رہی ہے۔‘‘

’’نہیں نہیں تم اپنی بات جاری رکھو، میں روٹیاں بناتی ہوں، جو کچھ پڑھا ہے سب سناؤ۔‘‘

’’ماسٹر صاحب نے جو کچھ کہا وہ میں نے کاپی پر لکھ لیا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ مچھروں کی غذا پھلوں اور پھولوں کا رس ہے۔ خون کی ضرورت صرف مادہ مچھر کو ہوتی ہے۔ انڈے دینے کے لیے مادہ مچھر کو فولاد اور پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے جو یہ خون سے حاصل کرتی ہے۔ خون حاصل کرنے کے بعد مادہ مچھر آرام کرتی ہے جب تک کہ یہ خون ہضم نہ ہوجائے اور انڈے تیار نہ ہوجائیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مچھروں کی بعض اقسام مسلسل چار گھنٹے تک اڑ سکتی ہیں اور رات بھر میں یہ بارہ کلومیٹر تک کا سفر طے کرلیتے ہیں۔ ان کی زیادہ اقسام گرم ومرطوب علاقوں میں پائی جاتی ہیں جہاں یہ سارا سال اپنی زندگی کا پہیہ چلاتے رہتے ہیں۔ سرد موسم میں یہ اگرچہ غیر فعال ہوجاتے ہیں مگر مکمل ختم نہیں ہوتے۔

ان کا کہنا تھا کہ مچھر کسی عام شے کا نام نہیں، بلکہ مچھر دنیا میں انسانوں کا سب سے بڑا قاتل ہے۔ اس سے متاثرہ افراد کی تعداد کروڑوں تک جا پہنچتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال 20 لاکھ لوگ اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں ڈینگی بخار، پیلا بخار، اور ملیریا سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، جن میں زیادہ تعداد افریقی اور ایشیائی لوگوں کی ہوتی ہے۔ بس یہی کچھ پڑھا رہے تھے۔ اب بتائیں اتنے لمبے چوڑے لیکچر سے مجھے کیا حاصل ہوا؟ مجھے تو مچھر بھی اب دہشت گرد لگنے لگا ہے۔‘‘

’’ارے بے وقوف یہ تو انتہائی اہم معلومات ہیں جو سارے معاشرے کے لیے ضروری ہیں۔ دیکھتے نہیں ہو کہ جب موسم بدلتا ہے، خاص طور پر جب برسات آتی ہے تو کس قدر مچھر پیدا ہوجاتے ہیں! اور مچھروں سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تم اس پر ریسرچ کرو یا اسے دہشت گرد کہو۔ جو کچھ بھی مچھروں سے متعلق تمہیں بتایا گیا ہے یہ تمہارے سلیبس کا حصہ ہے۔‘‘

’’امی جان! یہ بات ٹھیک ہے کہ مچھر سے متعلق دیا جانے والا لیکچر میری سائنس کی کتاب کا حصہ ہے، لیکن ان باتوں سے مچھر تو ختم نہیں ہوتے، وہ تو پیدا ہوتے رہیں گے۔ نہ جانے یہ کون سی مخلوق ہے، جتنی بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرلی جائیں، یہ وہیں کے وہیں رہتے ہیں، چادر اوڑھنے پر بھی ان کے حملوں سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا۔ ان کے لشکروں کے سامنے میٹ،گلوب، یہاں تک کہ زہریلے اسپرے تک بے کار ہیں۔ امی جان! لوگ اکثر شکایت کرتے رہتے ہیں کہ ہاتھ، چہرہ، گردن یا جسم کا کوئی بھی حصہ کھلا ہو، فوراً اس پر ہی مچھر آکر بیٹھے گا اور کاٹ کر چلاجائے گا، باقی لوگوں کو کچھ نہیں کہے گا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جن کا خون میٹھا ہوتا ہے اُن کو ہی مچھر کاٹتے ہیں۔ مچھروں کا خاص ہدف مخصوص افراد ہی کیوں ہوتے ہیں؟‘‘

’’بیٹا! مچھر تو ہمیشہ سے ہی ہوتے ہیں۔ پہلے دور میں لوگ کھلی جگہوں پر سویا کرتے اور مچھر دانی کا استعمال کرتے تھے۔ گاؤں دیہات میں تو آج بھی مچھروں کو بھگانے کے لیے پتّے وغیرہ جلا کر دھونی دی جاتی ہے۔ جب بھی موسم تبدیل ہوتا ہے ان کی افزائشِ نسل میں اضافہ، اور موسم میں سختی آتے ہی ان کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ تم نے دیکھا ہوگا کہ پچھلے دنوں سخت گرمی تھی اس لیے مچھر نہ تھے۔ اب تو سائنس نے بڑی ترقی کرلی ہے، ساری دنیا کے صحت کے اداروں نے بڑا کام کیا ہے، ہمارے ملک کے قومی ادارہ برائے صحت کا شمار بھی ایسے ہی اداروں میں ہوتا ہے جو صحتِ عامہ کی خدمات کے لیے پیش پیش ہیں۔ یہ ادارہ گزشتہ 50 برس سے صحت کے شعبے میں تحقیق، تشخیص، بیماریوں کی روک تھام، علاج،ادویہ (ویکسین) کی تیاری اور عوام میں بیماریوں سے آگاہی و شعور پیدا کرنے کے لیے اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ حال ہی میں اس ادارے نے مچھروں سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی روک تھام اور مچھروں کی اقسام کی درست معلومات حاصل کرنے کے لیے ’’ماسکیٹوز الرٹ پاکستان‘‘ کے نام سے اینڈرائڈ موبائل ایپلی کیشن متعارف کروائی ہے۔ اس ایپ کے ذریعے شہری اپنے علاقوں میں موجود مچھروں کی تصاویر بناکر اَپ لوڈ کرسکتے ہیں۔ ایپ کے ذریعے ملنے والی تصاویر اور معلومات کے ذریعے مچھروں کی اقسام کی نہ صرف میپنگ ہوسکے گی بلکہ ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی روک تھام کے لیے بھی بروقت اقدامات کیے جاسکیں گے۔ اس کے علاوہ مختلف علاقوں میں موجود مچھروں کی افزائش کی جگہوں کی بھی نشاندہی ہوسکے گی۔ اور جہاں تک خون میٹھا ہونے اور مخصوص افراد کو ہی کاٹنے کا تعلق ہے تو ایسا نہیں ہے، مچھر تو سب کو ہی کاٹتے ہیں۔ سائنس دانوں نے یہ بات آج سے تقریباً تیس سال پہلے دریافت کرلی تھی کہ مچھر ہمیں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی وجہ سے ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ہم کہیں بھی ہوں، مچھر وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ اس لیے کہ ہم سانس لیتے ہیں اور اس عمل کے دوران کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔ جہاں دوستوں کی محفل سجی ہو، شام کو صحن میں گھر والے اکٹھے بیٹھے ہوں، یا پھر ایسے ہی کسی مجمع میں مچھروں کے حملہ آور ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ کیونکہ جتنے زیادہ لوگ ہوں گے اتنی ہی زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کریں گے، یوں مچھروں کے لیے انسانوں کو تلاش کرنا آسان ہوجاتا ہے اور وہ ان کا خون پینے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ مچھروں کے اندر کاربن ڈائی آکسائیڈ کو محسوس کرنے کی صلاحیت قدرتی طور پر بہت زیادہ ہوتی ہے۔ بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سانس جتنی ناخوشگوار ہوگی، مچھروں کے کاٹنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے، یعنی جو لوگ اپنے منہ کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے وہ مچھروں کا زیادہ شکار بنتے ہیں۔ مچھروں سے بچنے کے لیے سانس تو روکی نہیں جاسکتی، البتہ منہ کی صفائی کرکے ان کے حملے کو روکا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ پوری آستین والے کپڑے پہنیں اور جسم پر مچھر بھگائو لوشن لگائیں، تیل کا استعمال کریں، روشن دانوں اور کھڑکیو ں پر ایسی جالی لگائیں جس سے مچھر کا گزر نہ ہوسکے، چھتوں پر، خاص طور پر صحن میں سوتے وقت مچھر دانی کا استعمال کرنے سے مچھروں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔‘‘

خالد کی والدہ نے اپنے بیٹے کو مچھروں سے بچائو اور ان کی افزائشِ نسل کے بارے میں تو بتادیا، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بارش کے بعد شہر میں کچرے کے ڈھیروں سے اٹھتی بدبو، سڑکوں پر کھڑے سیوریج کے گندے پانی میں پیدا ہوتے حشرات الارض کی بڑھتی ہوئی نسل کے خاتمے کے لیے کون کام کرے گا؟

یہاں سے منتخب نمائندے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں مصروف ہیں، سیاسی بیانات اور الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ساری صورتِ حال میں شہری یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ایک دوسرے پر گند اچھالنے والے شہر کاگند کب صاف کریں گے؟ شہر کی ابتر صورتِ حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کل میرا گزر ناظم آباد کے علاقے جہانگیر آباد سے ہوا۔ سرسید کالج کی جانب جاتی اس سڑک کو دیکھ کر انتہائی دکھ ہوا۔ جگہ جگہ سے ٹوٹی سڑک پر گہرے گڑھے بے حس انتظامیہ کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ سیوریج کے پانی سے بھرے گڑھوں میں گرتی گاڑیوں سے مدد کو پکارتے زخمی حکومت کو بددعائیں دے رہے تھے۔ عوام پوچھتے ہیں کہ کب تک… آخر کب تک اس شہر پر بے حسی کے بادل منڈلاتے رہیں گے؟ وہ دن کب آئے گا جب اس شہر کو اس کا جائز حق ملے گا؟

حصہ