ڈیجیٹل دہشت گردی

150

اس جدید دور کا ہلاکت خیز اور سرعت پذیر اثر رکھنے والا غیر بارودی، اور ایٹمی ہتھیاروں سے زیادہ مہلک ہتھیار جو پل بھر میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے وہ Digital ہتھیار ہے جو فرد کی انگلیوں کے اشارے سے وار کرتا ہے، جس سے دنیا کی تمام ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ریاستیں ہمہ وقت شدید خطرے سے دوچار ہیں۔

یہ فردِ واحد کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے، اور ایک تنہا فرد پوری ریاست کو اگر چاہے تو اپنی مہارت کے ذریعے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ چھوٹے سے کمرے میں بیٹھا ہوا شخص جس کو عرفِ عام میں ’’ہیکر‘‘ کہتے ہیں، انٹرنیٹ کی اس ہوائی ٹیکنالوجی کے متعدد versions کو استعمال کرکے ریاستوں کو منٹوں میں مفلوج کردیتا ہے۔ اس میں عالمی طاغوت کے ایجنٹ اور انفرادی طور پر کام کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ تمام ممالک بھی ریاستی سطح پر اپنے حریف ممالک کے خلاف اپنے انٹیلی جنس اداروں کے ذریعے وارداتیں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک ہمہ وقت چوکنا رہتے ہیں، انہوں نے سائبر کرائم کے سدِباب کے ادارے قائم کر رکھے ہیں اور اس میں ملوث افراد کو سزا دینے کے لیے قوانین بھی بنا رکھے ہیں۔ اس کے باوجود امریکا، یورپ اور ایشیا کے بڑے چھوٹے تمام ممالک ہر وقت ہیکرز کی وارداتوں سے غیر محفوظ ہیں۔

اب تو دنیا کے تمام ممالک کا ریاستی نظام Digitalize ہو چکا ہے، لہٰذا ملکی سلامتی کو ہمہ وقت شدید خطرات درپیش ہیں۔

چوں کہ تمام نظام ریاست مثلاً بینکنگ، کمیونی کیشن، عسکری اور دفاعی نظام، معیشت، اسٹاک ایکسچینج، فراہمیِ آب کا نظام، ائرپورٹ اور ائر ٹریفک کنٹرول، کاروباری لین دین، انٹرنیٹ جو سٹیلائٹ اور فائبر آپٹکس سے جڑا ہوا ہے جسے SPG کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے، اگر یہ دہشت گردوں کی دست برد میں آجاتے ہیں تو حکومتیں مجبور ہوجاتی ہیں۔ ڈیجیٹل دہشت گرد ڈارک روم میں بیٹھ کر وارداتیں کرتے ہیں جن کو پکڑنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ چوں کہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں مختلف سافٹ ویئر بنائے جا چکے ہیں جن کے تحت انسان کو جانور کی شکل میں پیش کرنا اور اس کی آواز کی ڈبنگ کرنا ماہرین کے لیے لمحوں کا کام ہے۔ ہر طرح کی تحریریں، کیلی گرافی، تمام زبانوں کا اپنی مطلوبہ زبان میں ترجمہ اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ کدو کو چھری سے کاٹنا۔ اس پر طرفہ تماشا یہ کہ سوشل میڈیا فیس بک، انسٹا گرام، واٹس ایپ، ٹوئٹر اور اب ٹک ٹاک نے تو قیامت برپا کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بیٹھے ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار ایکٹیوسٹ رات دن جھوٹی خبروں کے ذریعے ملکی سلامتی کے درپے ہیں۔ کہیں کوئی معمولی واقعہ ہوتا ہے اور یہ ڈیجیٹل دہشت گرد کسی اور جگہ کے واقعات کی آڈیو، وڈیو لنک کرکے فوراً سوشل میڈیا پر وائرل کردیتے ہیں، اور عوام کی حالت یہ ہے کہ بغیر تحقیق کے اس کو لائک اور شیئر کرنا شروع کردیتے ہیں جس سے چند منٹوں میں ایک جھوٹ عوام میں بے چینی پھیلانے کا سبب بن جاتا ہے۔

ڈیجیٹل دہشت گرد عسکری تنصیبات اور حساس دفاعی نظام تک رسائی حاصل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں اور کبھی کبھی کامیاب ہوکر حکومتوں کو بلیک میل بھی کیا کرتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا کے ذریعے ملک میں بے چینی اور مایوسی پھیلانے کا کام کیا جارہا ہے۔ فوج کی تنظیم اور کمانڈ اینڈ کنٹرول کے خلاف پروپیگنڈا کرکے سیاسی جماعتیں اپنے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں جس کا رونا آج پاکستانی اسٹیبلشمنٹ رو رہی ہے، اور یہ نام دراصل پاکستانی فوجی ترجمان نے دیا ہے۔ پاکستان میں میڈیا جتنا آزاد ہے اور نجی ٹی وی چینلوں کی جتنی بھرمار ہے دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں۔ شمالی کوریا، چین، روس اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل دہشت گردوں کو لگام ڈال رکھی ہے۔ بھارت کا تمام میڈیا حکومت کے کنٹرول میں ہے اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ بھی ہر وقت خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔ اس کے باوجود ڈیجیٹل ایکٹیوسٹ حکومتی سرپرستی میں دنیا کے مالیاتی نظام اور اسٹاک ایکسچینج پر اثرانداز ہوکر افراتفری پھیلا دیتے ہیں۔ اس بات کا ہر وقت خطرہ موجود رہتا ہے کہ کوئی ڈیجیٹل دہشت گرد بینکنگ سسٹم میں داخل ہوکر کروڑوں ڈالر ہیک نہ کرلے۔ آئے دن عام لوگوں کی بینک آئی ڈیز حاصل کرکے ہیکر لاکھوں کروڑوں روپے کا صفایا کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بینکوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً الرٹ جاری کیا جاتا رہتا ہے۔

تیونس کا ایک نوجوان جو فلسطینیوں کا حامی تھا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں مہارت رکھتا تھا‘ اُس نے اسرائیلی بنکوں سے لاکھوں ڈالر ہیک کرکے فلسطینیوں کو دیے، جس کو بعد میں موساد نے اغوا کرکے سزائے موت دی۔

اب تو ہوائی جہازوں سے لے کر کاریں اور بڑے بڑے صنعتی یونٹ ڈیجیٹلائز ہوگئے ہیں، لہٰذا ہر وقت یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ کہیں ان تمام چیزوں کو ڈیجیٹل دہشت گرد تباہ نہ کردیں۔ یہ بات وثوق سے کہی جاتی ہے کہ نائن الیون میں جو طیارے ٹوئن ٹاورز اور دیگر تنصیبات سے ٹکرائے گئے تھے وہ سب خودکار تھے، اور یہ صہیونی ڈیجیٹل دہشت گرد کارروائی تھی تاکہ مسلم دنیا کو دہشت گرد قرار دے کر تباہ و برباد کیا جائے، اور ایسا ہی ہوا۔ افغانستان، عراق، شام، لیبیا، یمن اور پاکستان میں تباہی جاری ہے۔ ڈرون ٹیکنالوجی نے ہوائی طاقت میں ایک نئی خطرناک صورت پیدا کردی ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ بہت جلد ملک دشمن عناصر اس کو استعمال کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ اب تو خودکش ڈرون طیارے بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔

’’پاناما لیکس‘‘ کو منظرعام پر لانے والے جولین اسانج نے امریکی راز کو افشا کرکے امریکا جیسی سپر طاقت کو تگنی کا ناچ نچاکر رکھ دیا اور معلوم ہوگیا کہ دنیا بھر کے سیاست دان کس طرح اپنے ملک کی دولت لوٹ کر باہر بھیجتے ہیں۔ سوشل میڈیا ایک ایسا نشتر بن چکا ہے کہ اچھے بھلے انسان کی کردارکشی لمحوں میں کرکے اس کی زندگی برباد کردیتا ہے۔

ڈیجیٹل دہشت گردی تو حریف ممالک ایک دوسرے کے خلاف کرتے ہیں اور ہر ملک اس کے خلاف اپنا دفاعی نظام بھی رکھتا ہے، مگر ہم جانتے ہیں کہ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے، اُس کی تمام تر کوششوں کا محور یہ ہے کہ انسان کو خدا بے زار کرکے اپنی پرستش کرائے اور انسانوں کو مادر پدر آزاد زندگی گزارنے کا خوگر بنادے۔ وہ یہ کام زمین پر آدم کے آنے کے بعد سے ہی کررہا ہے۔ اسی شیطانی حربے کو روکنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام بھیجے اور آخر میں ختم الرسل امام الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جامعیت اور اکملیت کے ساتھ آخری کتاب قرآنِ مقدس کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ اب نہ کوئی نبی اور نہ کوئی رسول آئے گا، اور نہ کوئی کتاب نازل ہوگی۔ اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے تو وہ کاذب اور لعنتی ہوگا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے سے پہلے ہی شیطان یہود و نصاریٰ اور ہنود کو مشرک بنا چکا تھا۔ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اسلام کی برکتوں کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا کا ہر تیسرا فرد مسلمان ہے۔

انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز میں سائنسی ترقی کے بعد جب سے سنیما اور فلم سازی کا آغاز ہوا شیطان نے اس آلے کے ذریعے انسانوں میں ایسی بے راہ روی پھیلائی کہ امریکا و یورپ سمیت سب کو اپنے جال میں پھنسا لیا۔ انٹرنیٹ، فلموں، ڈراموں اور ٹی وی کے ذریعے ذہنوں کو مسخر کرنا شروع کردیا، اور آج عالم یہ ہے کہ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں رشتوں کا تقدس بھی باقی نہیں رہا۔ لیکن آج انسانی حرمت کے تمام دائرے اس سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے پامال کیے جا رہے ہیں۔ روایتوں میں آتا ہے کہ نوح علیہ السلام نے بددعا اُس وقت کی جب ایک چھوٹے بچے نے آپ کو پتھر مارا تھا۔ آج سوشل میڈیا اس قدر مہلک وبا کی صورت اختیار کر گیا ہے کہ دو تین سال کے بچے بھی اس کے عادی ہوچکے ہیں۔ جہاں تک بے راہ روی کا سوال ہے توساٹھ سال کا بوڑھا اور چھ سال کا بچہ ایک جیسے ذہنی انتشار کا شکار ہیں۔

میری نظر میں سب سے تباہ کن ڈیجیٹل دہشت گردی یہی ہے کہ انسان کو انسانی وصف سے دور کرکے حیوان بنادیا جائے۔ مسلم دنیا کے سوا تمام ممالک میں ہم جنسی جیسے حیوانی فعل کو ریاست کی قانونی سرپرستی حاصل ہے جس کا اظہار کھلے عام سوشل میڈیا کے ذریعے چوبیس گھنٹے جاری ہے اور اسے انسانی حقوق کا نام دے کر ادارہ اقوام متحدہ اس کی سرپرستی کررہا ہے۔ آج تک کسی حیوان کو اپنے ہم جنس کے ساتھ بدفعلی کرتے نہیں دیکھا، مگر آج کا انسان قومِ لوط پر نازل ہونے والے عذاب کو دعوت دے رہا ہے۔ آج اربوں انسانوں کے پاس اسمارٹ فون موجود ہے جس پر ہر طرح کی معلومات اور زندگی کے تمام شعبوں کے لیے رہنمائی تو موجود ہے مگر اس کے ذریعے جو انسانیت کُش فلمیں اور دیگر حیا سوز مواد ہر وقت نشریات کی صورت جاری ہے اس نے انسان کو انسان کی نظر میں رسوا کردیا ہے۔

شیطان اب تیزی سے مسلم نوجوانوں کو اپنا آلۂ کار بنارہا ہے۔ اس کی تازہ مثال عرب دنیا ہے جہاں دولت کا سیلاب آنے کے بعد حیرت انگیز وسائلِ زندگی میسر ہیں۔ آج عرب دنیا کے ہر نوجوان کے پاس قیمتی ترین آئی فون موجود ہے جس کے استعمال سے سوشل میڈیا کی آزادی کے بعد سرزمینِ نبی کا تشخص بری طرح پامال ہورہا ہے۔ آج سعودی عرب جس پر پوری دنیا کے مسلمان فخر کرتے ہیں، یورپی تہذیب کا ایسا دلدادہ ہوگیا ہے کہ پورے ملک میں شراب خانے، نائٹ کلب اور سنیما گھر کھل گئے۔ ڈیجیٹل دہشت گرد مکہ اور مدینہ کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں اور حرمین کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔ اللہ ہمیں وہ دن دکھانے سے پہلے اپنے پاس بلا لے۔ متحدہ عرب امارات میں مندر بن گئے اور بتوں کی پرستش شروع ہوچکی ہے۔ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرب ِقیامت مشرق سے جزیرہ عرب میں بت داخل ہوں گے اور کچھ قبائل بت پرستی کرنے لگیں گے۔ یہ بات درست ثابت ہوگئی۔ ہمارے آقاؐ کا ہر فرمان سچا ہے۔

انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے ہوا کی لہروں پر قابو پالیا ہے، اور اب تو مصنوعی انسانی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ 7D-Hologram کی ایجاد کے بعد دجال کے ظہور کا وقت قریب ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ہر چیز جو بظاہر مصنوعی ہوگی، مگر انسان اس کو اصلی سمجھ کر ایمان لائے گا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال جب ظاہر ہوگا تو مسلمان صبح کو مسلمان ہوگا مگر شام تک وہ دجال پر ایمان لاکر کافر ہوچکا ہوگا۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت بھی اسی طرح کی ڈیجیٹل دہشت گردی کے ذریعے کی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹس میں آیا ہے کہ جب اسماعیل ہنیہ اپنے بیٹے سے فون پر گفتگو کررہے تھے اسی وقت اسرائیل نے ان کو ٹریس کرکے سیلف پروپیلڈ گائیڈڈ میزائل کے ذریعے شہید کیا۔ ماضی میں چیچنیا کے صدر جعفر داؤد کو روسیوں نے بھی ایسے ہی شہید کیا تھا۔

یہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی جہاں انسانوں کی بھلائی میں معاون و مددگار ہے، وہیں باعثِ ہلاکت اور باعثِ ننگ بھی ہے۔ اس نے انسانوں کے حقیقی رشتوں کو بھی پامال کردیا ہے۔ دوستی یاری اور محبت و ہمدردی سب کو مصنوعی بنادیا ہے۔ ہزاروں لڑکیاں سوشل میڈیا اور دیگر ایپس کے ذریعے محبت کے جال میں پھنس کر اپنی زندگی برباد کررہی ہیں۔ ہزاروں لڑکے ’’ہنی ٹریپ‘‘ میں پھنس کر بلیک میل ہورہے ہیں، حریف ملکوں کے جاسوسی ادارے بھی ہنی ٹریپ کا استعمال کرتے ہیں۔

بنکوں کے فراڈ سے لے کر مالیاتی اور کاروباری بلیک میل کا سلسلہ عروج پر پہنچ چکا ہے، لیکن سب سے بڑی دہشت گردی نسلِ نو کو شکم اور شہوت کی دلدل میں پھنسانا ہے جو سرعت کے ساتھ جاری ہے۔ اس ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں جاپان سب سے آگے ہے اور اس کے اثرات یہ ہیں کہ ان کی پوری زندگی مشینی ہو چکی ہے۔ حتیٰ کہ اب وہ اپنی ازدواجی زندگی سے بھی فرار حاصل کر رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ چالیس تا پینتالیس فیصد جاپانی شادی کرنے سے انکاری ہیں، اب وہ ڈیجیٹل وائف رکھ رہے ہیں۔

نیند بھی نیلام ہو جاتی ہے انٹرنیٹ کے بازار میں
اتنا آساں نہیں اس عادت سے توبہ کرنا
یہ محبتوں کا آلہ ہے نسلِ نو کو پھنسانے کے لیے
جس طرح مچھلی کو کانٹے میں پھنسایا جاتا ہے

حصہ