بلندی کا راز

90

’’میں کئی دنوں سے دیکھ رہا ہوں کہ تم غباروں کو بڑے دھیان سے اڑتا ہوا دیکھتے ہو؟‘‘
غبارے بیچنے والے شخص نے اسکول کے گیٹ کے پاس کھڑے طالب علم سے کہا۔
وہ ایک غبارے کو طالب علم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگا۔
‘‘یہ غبارہ میری طرف سے مفت لے لو۔‘‘
‘‘مجھے اِس کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘طالب علم نے خود اعتمادی سے جواب دیا۔
‘‘آپ ہر رنگ کے غبارے کو ہوا میں چھوڑتے ہیں لیکن اْس بڑے کالے غبارے کو کبھی نہیں چھوڑا ہے۔‘‘
طالب علم نے ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔طالب علم کی بات نے غبارے بیچنے والے کو حیران کردیا۔ اْس نے طالب علم کو غور سے دیکھا تواْس کا رنگ کالا تھا۔ وہ اُس کی گہری بات کو سمجھ گیا۔وہ کالے غبارے کو ہوا میں چھوڑتے ہوئے بولا:
‘‘ہوا میں اڑنے کے لیے کسی خاص رنگ کی نہیں بلکہ اْس قوت کی ضرورت ہوتی ہے جو آپ کوبلندی کی طرف لے جائے۔‘‘
طالب علم کو اپنا جواب مل چکا تھا۔
وہ خاموشی سے اپنی اسکول بس کی جانب بڑھنے لگا۔
…٭…
چند دن پہلے طالب علم کواسکول میں طنز سننے کوملا تھا کہ وہ کالی رنگت کا حامل ہے اورپڑھائی میں بھی سست ہے تو وہ کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔اُسے سمجھ آگئی تھی کہ کامیابی کے لیے رنگت سے زیادہ محنت اورکوشش کی ضرورت ہے اوریہی عنصراُسے دوسرے بچوں کا ہم پلہ بنا سکتا ہے کہ محنت اورتوجہ سے سستی کو چستی میں بدلا جا سکتا ہے۔طالب علم نے تہیہ کرلیا تھا کہ اسے بھی دوسروں کی طرح نہ صرف تعلیمی میدان بلکہ عملی زندگی میں کامیاب بننا ہے کہ اُسے بلندی تک پہنچنے کا راز مل چکا تھا۔

حصہ