ڈپریشن یا ذہنی اضطراب سے بچائو کیسے ممکن؟

141

کاشف کراچی کے ایک مصروف علاقے میں رہتا تھا۔ صبح کے وقت وہ دفتر جانے کی تیاری کررہا تھا جب اس کی بیوی سلیمہ نے پوچھا: ’’آج بھی تمہارا موڈ کیوں خراب ہے؟‘‘ کاشف نے ٹالنے کی کوشش کی، مگر اس کے چہرے پر پھیلی جھنجھلاہٹ سب کچھ کہہ رہی تھی۔ ’’بس یار، کچھ نہیں‘‘۔ وہ بوجھل قدموں سے دفتر کی طرف چل پڑا۔

پریشانی نے دفتر میں بھی کاشف کو اپنے کام پر توجہ مرکوز کرنے سے روکا۔ اس کا بس چلتا تو وہ سب کچھ چھوڑ کر کہیں دور بھاگ جاتا، مگر زندگی کا بوجھ اسے کہیں جانے نہ دیتا۔ اس کے ساتھ کام کرنے والے ساتھی سلمان نے پوچھا ’’سب خیریت ہے؟‘‘ کاشف نے مسکرا کر جواب دیا ’’ہاں، سب ٹھیک ہے‘‘۔ مگر اس کے برعکس اُس کا دل ڈوبا ہوا تھا اور بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔

یہ کسی ایک کاشف کی کہانی نہیں ہے بلکہ اب ایک عمومی بات ہے۔ کاشف نے اس صورتِ حال کو کس طرح سنبھالا؟ وہ ٹھیک ہوا یا نہیں؟ یہ ہم آپ کو آگے چل کر بتائیں گے۔ لیکن ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہمارے یہاں ذہنی امراض کی صورتِ حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشرے میں اضطراب، بے چینی اور مایوسی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی زندگی کو بے معنی سمجھتی ہے اور مستقل پشیمانی اور احساسِ جرم میں مبتلا رہتی ہے۔ بات بات پر لڑائی جھگڑا، تُوتُو، مَیں مَیں معمول کی بات بن چکی ہے۔ ہر دوسرا شخص چڑچڑے پن کا شکار نظر آتا ہے، جس سے اس کی ذاتی و پیشہ ورانہ زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کے قریبی عزیز بھی متاثر ہوتے ہیں۔ نتیجتاً معاشرے میں انتشار بڑھ رہا ہے، سکون تباہ ہورہا ہے اور جرم پنپ رہے ہیں۔

موجودہ دور میں سائنس، طب اور نفسیات کی ترقی نے ذہنی امراض اور نفسیاتی مسائل کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ایک چوتھائی لوگ اپنی زندگی کے کسی موڑ پر ذہنی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ شہریوں کی ذہنی صحت کی صورتِ حال اچھی نہیں ہے اور ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ میں سے ایک اور تقریباً 40 فیصد افراد مختلف اقسام کے ذہنی مسائل کا شکار ہیں جن میں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پورے ملک میں ذہنی امراض کے ماہرین کی تعداد لگ بھگ 400 ہے اور صرف 5 اسپتال ہیں، یعنی ہر 5 لاکھ افراد کے لیے ایک ڈاکٹر دستیاب ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دماغی امراض کی سب سے عام قسم ڈپریشن دنیا بھر میں 30 کروڑ افراد کو متاثر کررہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔ اس صورتِ حال کی وجوہات اور اسباب کو جاننا بہت ضروری ہے تاکہ اس مسئلے کا حل نکالا جاسکے۔

پروفیسر ڈاکٹر شوکت علی معالج بھی ہیں اور طب کے استاد بھی۔ جناح اسپتال کے شعبہ نیورولوجی کے سربراہ رہ چکے ہیں، وہ اس ضمن میں بالکل مختلف انداز میں کہتے ہیں کہ ’’معاشرے کے پورے منظرنامے میں مجموعی طور پر اصلاح کی ضرورت ہے۔ آج کے دور میں معاشی مشکلات اور طبقاتی فرق بھی ذہنی امراض کی بڑھتی ہوئی شرح کا سبب ہیں۔ تعلیم، صحت، رہائش اور یوٹیلٹی بلز کے اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ دو لاکھ روپے ماہانہ آمدنی والا بھی اوسط درجے کی زندگی گزارتا نظر آتا ہے۔ اس سے ذہنی دبائو بڑھ رہا ہے اور ذہنی بیماریوں کے ساتھ ساتھ دل کی بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

مقابلے کی دوڑ انسان کو قبر تک لے جاتی ہے۔ آج جو معاشی مسائل ہیں، ان کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ پہلے معاشی مقابلے کا رجحان نہ تھا، غریب اور امیر ایک ہی جگہ مل کر رہتے تھے، امیر غریب کے بچے ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے، طبقاتی تقسیم بہت کم تھی۔

جدید ٹیکنالوجی جیسے کہ آئی پیڈ، موبائل، ٹی وی، اور الیکٹرانک گیمز بچوں کو زیادہ متاثر کررہے ہیں اور اس کا دبائو والدین پر بھی ہے۔ سادہ متحرک طرزِ زندگی کی جگہ سہل پسندی اور مادی خواہشات نے لے لی ہے۔ بچوں میں بچپن کی خوشی ختم ہوگئی۔ ہم کپڑے بغیر استری کے پہن لیتے تھے، پتنگ لوٹنا بہت بڑی خوشی ہوتی تھی۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہوتی تھیں۔ اب تو کسی بات پر خوشی ہی نہیں ہوتی۔ یہ رویہ بچوں ہی نہیں بلکہ بڑوں میں بھی ذہنی بے چینی اور انتشار کی وجہ بن رہا ہے۔‘‘

ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ مرض تو تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے، پھر کیا کیا جائے؟ ڈاکٹر شوکت کہتے ہیں ’’مغربی دنیا نے ذہنی امراض کی روک تھام اور علاج میں بہت ترقی کی ہے۔ وہ لوگ پرہیز کی طرف گئے، اور ورزش اور غذا کا اس میں اہم کردار ہے۔ ہمارے لیے بھی یہ مشعلِ راہ ہے کہ اگر ان بیماریوں سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں تو ورزش کرنے کے ساتھ ساتھ صحت مندانہ غذا استعمال کی جائے۔‘‘

ہمارے یہاں یہ صورتِ حال صرف بڑوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ بچوں میں بھی پھیل گئی ہے بالکل اسی طرح جس طرح مغرب میں پھیل چکی ہے۔ ڈاکٹر شوکت کے مطابق کہانی تو ماں کے پیٹ سے شروع ہوجاتی ہے۔تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بچے ماں کے پیٹ میں بھی دماغی اثرات لیتے ہیں۔ گھر میں لڑائی جھگڑے کے بچے پر ماں کے پیٹ میں بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ماں کے دودھ سے پرورش پانے والے بچے زیادہ متحمل مزاج ہوتے ہیں اور ان میں چڑچڑاپن کم ہوتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟وہ کہتے ہیں ’’سادہ طرزِ زندگی کو اپنایا جائے، فزیکل ایکٹیوٹی اور آئوٹ ڈور سرگرمیوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ذہنوں میں یکسوئی پیدا ہو۔ سادہ غذا کا استعمال زیادہ کریں، پیدل چلنے کو رواج دیں اور جسمانی طور پر خود کو مضبوط بنائیں،اسی طرح سب سے اہم مذہب اور روحانیت کا ذہنی امراض کی روک تھام میں اہم کردار ہے۔ دینی اذکار سے ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے جو کہ کارکردگی کو بہتر بناتا ہے۔‘‘

ہم نے ابتدا میں کاشف کی کہانی کی مثال دی اور اس کی پریشانی جو ہر دوسرے گھر کی کہانی ہے، بیان کی۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ذہنی امراض میں اضافہ پہلے سے زیادہ ہے اور ہماری سماجی، معاشی و سیاسی صورتِ حال نہ بدلی تو معاملہ مزید بدتر ہوجائے گا، لیکن اس صورت میں کیا کرنا چاہیے اور کس سے رہنمائی ضروری ہے؟ اس میں بھی جو بات اہم ہے وہ بیماری کو بیماری سمجھنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کاشف جیسی صورتِ حال کا ہر دوسرا نہ سہی، پانچواں فرد تو شکار ہوگا، لیکن جب وہ اسے بیماری نہیں سمجھے گا تو علاج کی طرف کیسے جائے گا! اور یہ رہنمائی کسی زیادہ جاننے والے سے ہی لی جاسکتی ہے۔ اسی لیے کاشف نے فیصلہ کیا کہ وہ ماہر نفسیات سے ملاقات کرے گا۔ اُس نے سرکاری اسپتال میں ایک نیورولوجسٹ کا وقت لیا، ان کے پاس گیا اور اپنا مسئلہ بتایا۔ ڈاکٹر نے کاشف کا معائنہ کیا اور کہا ’’کاشف! تمہیں اپنی حالت بہتر بنانے کے لیے طرزِ زندگی میں کچھ تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ سادہ زندگی گزارو، فزیکل ایکٹیوٹی کرو، اور نماز کو اپنی زندگی کا حصہ بنائو۔‘‘

پھر ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے کاشف نے اپنے روزمرہ کے معمولات میں تبدیلیاں کیں۔ اس نے سادہ غذا کا استعمال بڑھا دیا، اور ہر شام پیدل چلنے کی عادت اپنا لی۔ اس نے دینی اذکار اور روحانی مشقوں کو بھی اپنی زندگی میں شامل کیا،وقتی طور پر کچھ دوائیں بھی ڈاکٹر کی دی ہوئی استعمال کیں۔بیوی سلیمہ نے بھی کاشف کی مدد کی اور ان دونوں نے مل کر ایک نئی اور مثبت طرزِ زندگی کا آغاز کیا۔

کاشف نے محسوس کیا کہ اس کی زندگی میں بہتری آ رہی ہے۔ اس کی بے چینی کم ہو گئی اور وہ خود کو زیادہ پُرسکون محسوس کرنے لگا۔ دفتر میں اس کی کارکردگی بہتر ہوئی اور اس کے تعلقات میں بھی بہتری آئی۔ کاشف نے جان لیاکہ ذہنی صحت کی بحالی کے لیے طرزِ زندگی میں مثبت تبدیلیاں کتنی ضروری ہیں۔

حصہ