تم بھی کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جاؤ گے۔
جاتے سورج کی زرد کرنیں شفق کے گہرے سمندر میں غرق ہو رہی ہوتی ہیں۔
عین اسی لمحے کسی اور ساحل پر طلوع ہو کر صبح نو کا پیغام دیتی ہیں۔
اے عظیم قائد۔
آپ بھی امہ کے افق پر دمکنے والا ایک آفتاب مہتاب تھے۔ رات کے فرزندوں کا گمان ہے کہ یہ سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا ۔
وہ کیا جانیں کہ غروب ہوتے سورج نے کون کون سی بستیوںکن کن قریوں میں کیسے کیسے دلوں پر دستک دی ہے۔
آج تاریخ کی نبض تھم سی گئی ہے۔
ہم اپنے لیڈر ,روحانی پیشواعظیم مجاہد کو چشم نم کے ساتھ رخصت کرتے ہیں۔
وہ جس میں روایتی لیڈروں والی کوئی بات تھی نہ قاہری نہ ساحری۔
انھوں نے جنت کے جھروکوں سے انھیں دیکھا ہوگا جنہوں نے ان کے جسد خاکی کو ادب سے سمیٹ کر شہدا کے قبرستان میں دفن کرنے کی تیاری کی ہوگی۔
ان کی روح نے ان نوجوانوں کے سسکیاں بھی سنی ہونگی جو ان کے جوتے کپڑے اور خون الود خاک اٹھا کر لے گئے اور اس مقدس اثاثے کو اپنے سامنے رکھ کر وفا کی قسم پھر کھائی ہوگی۔
ان کی موت ہم جیسی ہزاروں زندگیوں سے عظیم ہے۔
ہم زمین کے بوجھ۔جینے کے لیے جیتے ہیں۔
وہ مرے کب۔ وہ تو امر ہوگئے۔
آج فلسطین میں نوجوان مرد عورتیں اپنے وطن کی آزادی کے لیے یوں جانیں پیش کر رہے ہیں جیسے ہم اپنے مہمانوں کو چائے پیش کرتے ہیں۔
یہاں آنکھوں سے آنسو خشک ہو چکے ہیں۔
آپ کے جانے سے رنج و غم کے پہاڑ اس امت پر ٹوٹ پڑے۔
شل ہو جائیں وہ ہاتھ جن کے لیے آپ کی جان لینا آسان ہوگیا۔
اگر آج دیواریں بھی آپ کے مقام اور حیثیت کو جانتی ہوتیں تو ان کے دل بھی موم ہو جاتے۔
ظالموں نے آپ کو ہم سے چھین لیا۔
ہمارے پاس کھونے کو بچا ہی کیا تھا۔
ستارے کو ہم سے چھین لیا لیکن اس کی روشنی ختم نہیں کر سکتے۔
آپ اپنی ذات میں ایک امت تھے۔
آپ تو ان بلندیوں پر تھے جہاں ہماری نگاہیں تعاقب سے بھی عاری ہیں۔
اے امت مسلمہ کے عظیم قائد۔
آپ ہمیں بتا کر گئے کہ۔
غلامی کی سیاہ رات میں راستہ کیسے تلاش کیا جاتا ہے۔ جنت کی طرف جانے والا راستہ کون سا ہے ۔
اسلام کا پرچم تھام کر کیسے کفر کے لیے بھیانک خواب بنا جاتا ہے ۔
آپ نے تو بتایا کہ آزادی کے سفر کہاں سے کیسے شروع کرتے ہیں۔
فرعون آپ کی تاک میں تھا مگر آپ کو تو قدرت نے ید بیضا سے نوازا تھا۔
آپ تو شہادت کے متوالے تھے۔
آپ نے نواسہ رسول ﷺ کی تاریخ دہرائی۔
پورے خاندان کو اس راستے میں پیش کر دیا۔
ہر شہادت پر شکر ادا کیا۔
آپ کی زندگی موت کی پرواہ کیے بغیر اپنی منزلیں طے کرتی رہی۔۔۔
آپ نے بتایا اسلام صرف عبادت ہی نہیں بلکہ سیادت قرآن، تلوار اور اذان ہے۔
آپ نے بتایا کہ باطل کے دور عروج میں اپنی قوت ایمانی سے کیسے عزت کے مقام پر سرفراز ہوا جاتا ہے۔
وہ خاص آنکھیں جو شہداء کے لاشوں پر اشکبار نہیں ہوتیں۔وہ خاص سینے جو پے درپے جدائیوں پر پھٹ نہیں جاتے ۔
اپ کے دل میں نسب ایمان تو پہاڑوں سے زیادہ اٹل تھا ۔
بچھڑنے والے عظیم قائد۔
وفا کے راستے کا ہر مسافر گواہی دے گا کہ۔
آپ مداہنت پسند تھے نہ مفاہمت پسند۔
دین فروش تھے نہ غیرت فروش۔
آپ تو امت کے شاہین بچوں کو جہاں بینی اور جہاں بانی کا سبق سکھا کر گئے ہیں۔
مسلمانوں کے حقیقی رہنما اور قائد۔
آپ کی قدآور شخصیت کے جانے سے امت کو جو دھچکا لگا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔
آپ کی ہمہ جہت اور ہمہ پہلو شخصیت قدرت کا خصوصی انعام اور تحفہ تھی۔
آپ فرد واحد تو نہیں تھے آپ تو شجاعت کا استعارہ تھے ۔
ہاں۔ ہم شہیدوں کی موت پر مرثیے نہیں لکھتے۔
ہم بیت المقدس کے دروازوں پر اللہ کے شہ سواروں کو مبارک باد دیتے ہیں۔
اے اسلام کے شہ سوارو! تم امت کا مان ہو۔
تم اپنی غلیلوں سے جو پتھر مارتے تھے وہ اسرائیلی ٹینکوں کو ہی نہیں ہماری بے حسی کو بھی لگتے تھے۔
ہمارا ایمان ہے کہ آج کے دن حماس کو سوائے قوت کے اور کچھ نہیں ملا ۔
آپ کے خاندان کے عظیم الشان قربانیوں اور 40 ہزار شہداء کے پاک لہو کی برکت سے لاکھوں ہنیہ پیدا ہوں گے۔ان شاءاللہ
دنیا کے باضمیر انسان اپ کو رخصت کر کے چین سے نہیں بیٹھ سکیں گے۔
اب نئی صف بندی ہوگی۔
الوادع اے امّہ کے عظیم قائد۔
ہماری پاس صرف چشم تر ہے جو ہمارے ایمان کی واحد گواہ ہے۔
میرا لاشہْ پامال دیکھو ذرا زندگی ہی تو ہے
ہاں یہی زندگی ہے میرے دوستو!
میں نے سوچا تھا یہ
گر نہ دین مبیں پر یہ ہوتی فدا اور کس کام آنی تھی یہ زندگی؟ اور پھر یہ ہوا
قید دنیا سے جب میں نکلنے لگا بندگی کا سفر جب میں طے کر چکا
میں نے دھیرے سے یہ ساتھیوں سے کہا
”میں شہید اب ہوا“
پھر گواہی کا کلمہ زباں پر میری لمحہ واپسیں خود رواں ہو گیا ایک ستارہ تھا میں کہکشاں ہو گیا