جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ

167

یونانی دور
یونان کا قدیم دین کیا تھا؟ اس کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا۔ اتنا ضرور معلوم ہے کہ پانچویں صدی قبل مسیح سے دو ایک صدیاں پہلے تک یونان میں متصوفین کے چند گروہ تھے جو اپنے اسرار و رموز کو عوام سے پوشیدہ رکھتے تھے، اور ان گروہوں میں داخلہ بھی مشکل سے ملتا تھا۔ یہ اسرار و رموز کیا تھے اور متصوفانہ رموز کے معاملے میں (یعنی علم توحید میں) ان لوگوں کی پہنچ کہاں تک تھی، اس کے متعلق کوئی تحریری ثبوت موجود نہیں۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مشہور فلسفی اور ریاضی دان نیشا غورت ( Phthagoras) کو ان رموز کا خاصا علم حاصل تھا۔ اس کے دور میں فلسفے کو سب سے اونچا مقام حاصل نہیں تھا جو افلاطون کے دور میں حاصل ہوا۔ یونانی زبان میں لفظ’’فلسفہ‘‘ (Philosophy) کے معنی ہیں ’’حکمت سے محبت رکھنا۔‘‘ یعنی اس دور میں فلسفی سے مراد وہ لوگ تھے جنہیں اصل حکمت تو حاصل نہیں تھی مگر اس کے طالب تھے۔ غرض اس دور میں فلسفیوں کو عارف نہیں سمجھا جاتا تھا۔ فلسفیوں اور فلسفے کو سب سے اونچی جگہ افلاطون کے دور میں دی گئی۔

مغربی لوگوں کے نزدیک یونانی فکر کا زریں دور پانچویں صدی قبل مسیح ہے، یعنی سقراط اور افلاطون کا زمانہ اور اس کے بعد چوتھی صدی قبل مسیح ، یعنی ارسطو کا زمانہ ، لیکن دراصل یہ یونانی دین کے زوال کا زمانہ تھا۔ یونانیوں کے جو بھی باطنی علوم تھے وہ افلاطون کو حاصل نہیں ہوئے تھے ، نہ اس کے استاد سقراط کو اور افلاطون کے شاگر دارسطو کو تو یونانی روایت کا صرف خارجی اور ظاہری علم حاصل تھا۔ مغرب کے لوگ افلاطون اور ارسطو کے نظریات کو بلکہ ان دونوں کے ذہن کو متضاد سمجھتے ہیں، لیکن رینے گینوں کہتے ہیں کہ دونوں کے نظریات میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ اسلامی اصطلاح کے مطابق یوں کہہ سکتے ہیں کہ افلاطون کا نقطہ نظر تنزیہی ہے اور ارسطو کا نقطہ نظر نہیں۔ مگر ان دونوں کو علم توحید سے پوری واقفیت نہیں تھی۔

یونانیوں کے بارے میں ایک تصریح بہت ضروری ہے۔ ہمارے دینی مدارس میں جو علوم فلسفہ یا معقولات کے نام سے پڑھائے جاتے ہیں ان کے بارے میں یورپ کے مستشرقین کو ایک بہت بڑا اعتراض ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عربوں کو افلاطون اور ارسطو کے افکار سے صحیح واقفیت حاصل نہیں تھی۔ الکندی نے جس کتاب کا ترجمہ ’’ارسطو کی الہٰیات‘‘ کے نام سے کیا تھا۔ وہ ارسطو کی کتاب نہیں تھی بلکہ فلاطینوس (Plotinus) کی کتاب تھی۔ الکندی کے بعد فارابی وغیرہ نے افلاطون اور ارسطو کی کتابوں سے واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ مگر مستشرقین کا عمومی اعتراض یہ ہے کہ عرب فلسفی فی الجملہ افلاطون کے افکار کو ارسطو کے نام سے پیش کرتے رہے۔ اول تو اس اعتراض کی حقیقت رینے گینوں کے اس قول سے ہی واضح ہو جاتی ہے کہ افلاطون اور ارسطو میں صرف تنزیہی اور تشبیہی نقطہ نظر کا فرق ہے۔ بہر حال انگریزی تعلیم پانے والوں سے گفتگو کرنے کے لیے علما کو ایک امتیاز پیش نظر رکھنا چاہیے۔ یونانی فلسفیوں کے دراصل دو گروہ یا طبقے ہیں۔ پہلا گروہ تو وہ ہے جس کا تعلق خاص ملک یونان سے ہے۔ اس گروہ کے سب سے مشہور نمائندے افلاطون اور ارسطو میں جن کا زمانہ پانچویں اور چوتھی صدی قبل مسیح ہے۔ دوسرے گروہ کا تعلق شہر اسکندریہ کی اس نو آبادی سے ہے جو یونانیوں نے مصر میں بسائی تھی۔ اس گروہ کے مشہور نمائندے فلاطینوس اور فرفریوس (Porphyry) وغیرہ ہیں۔ اسکندریہ کے فلسفی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے بعد آتے ہیں۔ یعنی ان کا زمانہ پہلی، دوسری، تیسری صدی عیسوی ہے۔ اسکندریہ کے فلسفیوں کو علم توحید افلاطون اور ارسطو کی بہ نسبت زیادہ حاصل تھا۔ عربوں نے فلسفۂ طب نجوم وغیرہ علوم اسکندریہ کے فلسفیوں سے زیادہ حاصل کیے ہیں۔ اسکندریہ کے فلسفیوں کے علوم کو یورپ کے لوگ تو ’’افلاطونیت‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ معقولات کی اصطلاح میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اسکندریہ کے فلسفی اشراقی ہیں، اور یونان کے بیشتر فلسفی مشائی۔

اسکندریہ کے نو افلاطونی فلسفیوں سے یوں تو یورپ کے بھی بہت سے مفکر اثر پذیر ہوئے ہیں، لیکن افکار کے معاملے میں یورپ کی تہذیب پر زیادہ اثر افلاطون اور ارسطو کا ہے۔

لہٰذا افلاطون، ارسطو اور دوسرے یونانی فلسفیوں کے افکار کے وہ نقائص اور خامیاں بیان کی جاتی ہیں جو آگے چل کر رنگ لائیں اور جنہوں نے موجودہ مغربی ذہن کو پیدا کیا۔

-1یونانی فکر لاتعین احدیت اور وراء الوراء کے درجے تک کبھی نہیں پہنچا۔ یعنی مکمل تنزیہ اور توحید یونانی فلسفیوں کو کبھی حاصل نہیں ہوئی۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ یونانی فکر ’’وجود‘‘ کی منزل سے آگے کبھی نہیں جاسکا۔ اسلامی اصطلاح کے مطابق یوں کہہ سکتے ہیں کہ یونانی مفکر عالم حیروت سے اوپر نہیں اٹھ سکے۔

-2حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ افلاطون اپنے مکاشفات میں اٹھ کے رہ گیا اور اسی لئے گمراہ ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یونانی فلسفی عالم حیرت تک بھی نہیں پہنچے ، بلکہ عالم ملکوت یا عالم مثال تک ہی رہ گئے۔ اس لحاظ سے یونانی فلسفہ صحیح معنی میں مابعد الطبیعات نہیں ہے۔ یورپ میں جتنی گمراہیاں آج تک پیدا ہو رہی ہیں ان کی جڑ یہی ہے۔

-3حضرت مجدد صاحب فرماتے ہیں کہ افلاطون نے صفائے نفس ہی کو سب سے بڑی چیز سمجھا اور صفائے قلب تک نہ پہنچ سکا، اسی لیے گمراہ ہوا۔ اس رجحان کو روم کے فلسفیوں نے اور زیادہ تقویت پہنچائی۔ یہی انیسویں صدی میں اخلاقیات کی پرستش کی شکل میں نمودار ہوئی۔

-4ارسطو کو عقل کلی (Intellect) اور عقل جزوی (Reason) کے فرق کا اندازہ تھا، لیکن اس نے دونوں کو گڈمڈ کر دیا ہے۔ سولہویں صدی سے مغرب میں یہ امتیاز ایسا مہم ہونا شروع ہوا کہ آخر اٹھارویں صدی میں (بلکہ سترھویں صدی کے وسط میں) عقلیت کی تحریک یورپ کے ذہن پر قابض ہو گئی۔

-5 ارسطو نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ انسانی ذہن تصویروں کی مدد سے سوچتا ہے یعنی اس نے فکر اور تخیل کو ایک کردیا ہے۔ یہ اسی کا اثر ہے کہ آج مغرب ’’عقل کلی‘‘ کا مطلب تک نہیں سمجھتا اور مجرد فکر کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

-6 حالانکہ ارسطو پر مغرب کے لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ خالص عقل پر اعتماد کرتا ہے اور تجرباتی طریقہ استعمال نہیں کرتا مگر مشاہدے اور تجربے کو آخری اور فیصلہ کن دلیل سمجھنے کا رجحان خود ارسطو کے یہاں موجود ہے۔

-7یونانی فلسفیوں کی توجہ کا مرکز انسانی معاشرہ تھا نہ کہ مبداء و معاد۔ یعنی دنیا ویت ان یونانی فلسفیوں میں اچھی طرح جڑ پکڑ گئی تھی۔

-8یونانی ہر مسئلے کو انسانی نقطہ نظر سے دیکھنے کے عادی تھے۔ چنانچہ جب پندرہویں اور سولہویں صدی میں یورپ والوں نے یونانی فلسفے پر زور دینا شروع کیا تو اس تحریک کا نام ہی دانسانیت پرستی (Humanism) قرار پایا۔

-9 یونانی فلسفی ہوں یا شاعر سبھی کو تقدیر یا جبر و اختیار کے مسئلے سے گہری دلچپسی تھی بلکہ یونانی کے بہترین ادب کا مرکزی موضوع ہی یہ ہے۔ لیکن چونکہ یونانی ہر چیز کو انسانی نقطہ نظر سے دیکھتے تھے اس لئے ظاہر ہے کہ وہ مسئلے کی تہہ کو نہیں پہنچ سکتے تھے۔

-10یونانی فلسفی روح کی حقیقت سے پوری طرح آگاہ نہیں تھے۔ اس لیے وہ روح اور نفس کو ایک دوسرے میں ملا دیتے تھے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ سترھویں صدی کے بعد سے تو مغرب اس فرق کو بالکل ہی بھول گیا ہے۔ یہاں تک کہ مغربی لوگ ’’عقل‘‘ کی طرح لفظ ’’روح‘‘ کے معنی ذرا بھی نہیں سمجھ سکتے ، بلکہ نفس کو ہی روح خیال کرتے ہیں۔ یونانیوں کے یہاں روح یا عقل ِ کلی کے لیے لفظ تھا Nous آج کل اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے۔ ’’ذہن‘‘ (Mind) نفس کے لیے یونانی لفظ تھا۔ Psyche اس لفظ کو بھی آج کل ’’ذہن‘‘ کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ پھر روح کے لیے لاطینی لفظ تھا Spiritus – آج کل مغربی زبانوں میں لفظ Spirit انگریزی لفظ Soul کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ جس کے معنی ہیں ’’نفس۔‘ ‘ غرض پچھلے تین سو سال سے مغرب نفس کو ہی روح سمجھ رہا ہے۔ یہ ہیں یونانی فکر کی وہ بڑی خامیاں جنہوں نے آگے چل کر مغرب کے ذہن کو نقصان پہنچایا۔

رومی دور:
رومی لوگوں کی توجہ دنیاوی امور پر زیادہ تھی۔ یہ لوگ سلطنت قائم کرنے اور نظم و نسق ٹھیک رکھنے کے ماہر تھے۔ ان کی ذہنی طاقت زیادہ تر قانون سازی اور تنظیمی ادارے بنانے میں صرف ہوتی تھی۔ مغرب کے ذہن پر رومی اثر اتنا شدید ہے کہ جب عیسائیت یورپ میں پہنچی تو اس نے بھی ایک ادارے یعنی کلیسا کی شکل اختیار کرلی۔ اس کے بغیر یورپ میں عیسائیت کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔ پھر عیسوی عقائد بھی قوانین کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ اس قانونی تنظیمی اور انصرامی ذہنیت نے ازمنہ وسطی میں عیسائیت کو استحکام تو ضرور بخشا لیکن یورپ میں عیسائیت کے زوال کا باعث بھی یہی ذہنیت ہوئی کیونکہ روم کے کلیسا میں خارجیت یا ظاہریت بڑھتی چلی گئی اور باطنیت دیتی گئی اور آخر کلیسا کے خلاف بغاوت ہوئی۔ روم کے لوگوں نے فلسفے یا فکر میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ اس معاملے میں یہ لوگ یونان کے مقلد تھے۔ یونانی فلسفے کا بھی انہوں نے صرف خارجی اور ظاہری پہلو لیا، بلکہ صرف وہ اصول اخذ کیے جن کا تعلق فردیا معاشرے کی ظاہری زندگی سے تھا۔ اگر مغرب میں ظاہر پرستی اتنی بڑھ گئی ہے تو اس میں رومی لوگوں کی ذہنیت کا بھی بڑا دخل ہے جسے یورپ کے اکثر لوگوں نے اپنے لیے نمونہ بنایا ہے۔ رومی لوگوں کا اصلی خدا تھا وطن یا قوم فرد سے مطالبہ کیا جاتا تھا کہ وہ اپنی ہر چیز قوم یا وطن یا سلطنت کے لیے قربان کر دے اور اس سانچے میں ڈھل جائے جو معاشرے نے اس کے لیے بنایا ہے۔ یہی ہے وہ بیج جو آگے چل کر مغرب میں قوم پرستی اور معاشرہ پرستی کی شکل میں بارِ آور ہوا۔ روم کے لوگ غالبا دنیا کی تاریخ میں واحد قوم ہیں جنہوں نے تن پر دری اور عیش کوشی کو اصول کی حیثیت سے اپنایا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس کا الٹا رجحان بھی موجود تھا، یعنی نفس کشی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عموماً ایک ہی شخص بیک وقت دونوں راستوں پر چلتا تھا۔

بہر حال رومی فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی اصل مصیبت اس کی خواہشات ہیں۔ اگر انسان خواہشات سے بے نیاز ہو جائے اور خوشی کے وقت خوش نہ ہو اور رنج کے وقت مغموم نہ ہو تو اسے مکمل(باقی اگلے صفحہ پر)

سکون مل سکتا ہے۔ مگر یہ نفس کشی برائے نفس کشی تھی یا قوم کی خدمت کی خاطر کسی اعلیٰ تر چیز کے لیے نہیں ، جیسا کہ حضرت مجدد صاحب نے اپنے مکتوبات میں بار بار فرمایا ہے، ایسی نفس کشی سب سے بڑی گمراہی ہے۔

نفس پروری اور نفس کشی کے متضاد رحجانات مغرب کی پوری تاریخ میں بار بار پہلو بہ پہلو نظر آتے ہیں۔ اگر عیسوی دور کو الگ کر دیں تو یونانیوں سے لے کر آج تک مغرب کے سارے اخلاقی نظریے انہیں دو اصولوں کے درمیان گردش کرتے نظر آئیں گے۔ ازمنہ وسطی میں عیسائی لوگ کم سے کم یہ کہتے تھے کہ اگر نفس کشی کا طریقہ اختیار کریں گے تو جنت ملے گی۔ مگر مغرب کے جو مفکر اخلاقیات کو مذہب سے الگ کر لیتے ہیں، اور پھر نفس کشی کا مشورہ دیتے ہیں وہ نفس کشی کو بجائے خود ایک گراں قدر چیز سمجھتے ہیں۔ علاوہ ازیں مغرب میں ایسے مفکر بھی موجود ہیں جو نفس کشی کو مذہب کا ما حصل سمجھتے ہیں۔ مغربی مفکروں کی ایک تیسری قوم بھی ہے جو کہتی ہے کہ نفس کشی میں جو تکلیف ہوتی ہے اس کا حصول انسانیت کی معراج ہے۔ تکلیف کو بجائے خود گراں قدر سمجھنا۔۔ یہ بھی مغربی ذہنیت کا لازمی جز ہے۔ غرض نفس پروری اور نفس کشی کے اصول رومی تہذیب نے مغرب کو دیے ہیں۔

ازمنہ وسطی عیسوی دور:
یہ دور تقریباً پانچویں صدی عیسوی سے لے کر پندرھویں صدی عیسوی تک ہزار سال پر پھیلا ہوا ہے۔ اس دور کو سمجھنے میں بڑی دشواریاں پیش آتی ہیں۔ پروٹسٹنٹ مذہب رکھنے والے مصنفوں نے پھر اٹھارہویں صدی کے عقلیت پرستوں نے اور انیسویں صدی کے متشککین نے اس دور کے متعلق بڑی غلط فہمیاں پھیلاتی ہیں۔ ان لوگوں نے ازمنہ وسطی کی جو تصویر کھینچی ہے صرف وہی تصویر ہمارے علماتک پہنچی ہے۔ اس لیے جب عیسائیوں سے مناظرے کی ضرورت پیش آتی ہے تو ہمارے علما عموماً وہی باتیں دہرا دیتے ہیں جو پروٹسٹنٹ مصنفین نے لکھی ہیں۔ اس میں ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ جو اعتراضات علما عیسائیت پر کرتے ہیں وہی اعتراض مسلمان نوجوان علما پر وارد کرنے لگتے ہیں۔ مثلاً علماپاپائیت کو برا کہتے ہیں تو جدید تعلیم یافتہ نوجوان کہنے لگتے ہیں کہ ہمارے علما نے بھی پاپائیت قائم کردی ہے۔ علما رہبانیت کی تنقیص کرتے ہیں تو نوجوان کہتے ہیں ہمارے علمابھی رہبانیت سکھاتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ مسئلہ بہت نازک ہے اور اس میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ پہلے ازمنہ وسطی کی وہ تصویر پیش کی جاتی ہے جو پروٹسٹنٹ مصنفوں، عقلیت پرستوں اور لادینوں نے کھینچی ہے ان لوگوں نے اس زمانے کا نام ”ظلماتی دور“ رکھا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس دور میں بادشاہوں، نوابوں اور پادریوں نے مل کر عوام کو اپنے شکنجے میں کس رکھا تھا۔ پادری علم کے ٹھیکیدار بن بیٹھے تھے، اور عوام کو علم سے محروم کر دیا تھا۔ دینی معاملات میں پوپ نے سارا اختیار خود سنبھال لیا تھا، جس چیز کو سفید کہہ دیا وہ سفید ، جس چیز کو سیاہ کہہ دیا دہ سیاہ عوام کو فکر کی آزادی حاصل نہ تھی بلکہ علم کی پرچھائیں تک عوام پر نہ پڑنے پاتی تھی ، کلیسا سائنس کا خاص طور سے مخالف تھا۔ جہاں بھی کسی نے کوئی نیا خیال پیش کیا اسے فورا سزا دی گئی۔ چنانچہ لوگ سوچنے سے بھی ڈرتے تھے اور ذہن کو زنگ لگ رہا تھا۔ (ہمارے تجدد پسند بھی آج کل یہی کہتے ہیں کہ ہمیں علماسائنس میں ترقی نہیں کرنے دیتے) پادری عیش پسند ہو گئے تھے اور عوام کو طرح طرح سے لوٹتے تھے۔

یہ تصویر بڑی حد تک خیالی ہے۔ پچھلے ساٹھ ستر سال کے عرصہ میں ازمنہ وسطیٰ کے بارے میں جو تحقیق ہوئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات نواب اور زمیندار کاشت کاروں پر ظلم تو ضرور کرتے تھے ، لیکن فی الجملہ انسانی رشتوں کا جو احترام اس دور میں تھا وہ مغربی معاشرے میں پھر کبھی نہیں رہا۔ یہ بات کمیونزم کے بانی کارل مارکس نے بھی تسلیم کی ہے۔ معاشی اعتبار سے کاری گروں اور پیشہ وروں کو پوری آزادی حاصل تھی، اور پیشہ ورانہ پنچائتیں (Guilds) ہر پیشے کے کام کا پورا انتظام کرتی تھیں۔ اس معاشی نظام میں اتنا عدل تھا کہ بعض اشتراکی جماعتیں معاشرے کی تشکیل اسی پنچائیتی نظام کے نمونے پر کرنا چاہتی ہیں۔ رہا پوپ کے اقتدار کا معاملہ تو پرانی دستاویزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عموماً پوپ بادشاہوں کو جبر و ظلم سے روکتے تھے اور عوام کے حقوق کی نگہداشت کرتے تھے۔ کلیسا کے نظام میں بہت سی خرابیاں ضرور آگئی تھیں، لیکن وہ اتنی زبردست اور بنیادی نہیں تھیں جتنی پروٹسٹنٹ اور عقبلیت پرست مصنفین نے پیش کی ہیں۔

اسی طرح یہ کہنا بھی سراسر غلط ہے کہ یہ تاریکی اور جہالت کا دور تھا۔ چونکہ سولہویں صدی سے لوگوں نے ازمنہ وسطیٰ کی کتابیں پڑھنی چھوڑ دی تھیں، اس لیے یورپ کے لوگوں کے لیے اور خصوصاً انگلستان کے لوگوں کے لیے اپنا پر انا ادب اجنبی ہو کے رہ گیا تھا۔ ازمنہ وسطیٰ کے ادب کے بارے میں زیادہ تر تحقیق بیسویں صدی میں ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ازمنہ وسطیٰ میں یورپ کی تہذیب نے جو لطافت اور علو حاصل کر لیا تھا وہ اسے پھر کبھی حاصل نہیں ہو سکا۔ ہمارے علمائ کو خصوصاً اور مسلمانوں کو عموماً یہ بات تسلیم کرنے میں جھجکنا نہیں چاہئے کیونکہ ازمنہ وسطی کے مغربی ادب اور علوم پر عربوں کا گہرا اثر ہے، طب نجوم فلسفہ وغیرہ میں تو یونانیوں کے بعد عرب مصنفوں کو ہی سند مانا جاتا تھا۔ رازی ابن سینا امام غزالی یہ نام یورپ میں اسی طرح مشہور تھے جس طرح مسلمانوں میں۔ بارہویں صدی میں فرانس کے جنوبی علاقے یعنی پر دوانس (Provence) میں جس شاعری کا آغاز ہوا وہ عربی اثرات ہی کا نتیجہ تھا۔ بلکہ تازہ ترین تحقیق سے تو پتہ چلا ہے کہ عربی شاعری کا اثر نویں صدی عیسوی سے شروع ہو گیا تھا، بلکہ آئرلینڈ تک پہنچ گیا تھا جو اندلس سے خاصے فاصلے پر ہے۔ خالص عقل کے میدان میں ازمنہ وسطی کے مفکرین کا یہ حال تھا کہ ارسطو کی منطق میں جو خامیاں تھیں وہ ان لوگوں نے دور کی ہیں۔ یونانی فلسفہ اس دور میں بھی پڑھا جاتا تھا البتہ یہ لوگ فلسفے کو اپنے دین کے تابع رکھنا چاہتے تھے۔ بارہویں صدی میں مغرب پر سب سے شدید اثر ابن رشد کا تھا۔ عیسوی دنیا کا سب سے بڑا دینی مفکر سینٹ ٹامس اکوائناس سمجھا جاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ تیرہویں صدی میں اس نے ابن رشد کے فلسفے کوشکست دے کر عیسوی الہٰیات اور دینیات کو ارسطو کے فلسفے کی بنیاد پر قائم کیا۔ دینی علوم کے سلسلے میں ہمیں ایک بات ضرور یاد رکھی چاہیے۔ ایک عام مسلمان بھی اس بات سے واقف ہے کہ دین کے دو پہلو ہیں، ظاہر اور باطن، شریعت اور طریقت مگر مغرب باطنی پہلو کے صحیح معنی بھول چکا ہے، اور اس کا مطلب جذبات کی پرورش سمجھتا ہے یا زیادہ سے زیادہ وجد و حال اور مکاشفات۔ مگر ازمنہ وسطیٰ میں یورپ کے عیسائیوں کے پاس ظاہری علوم بھی تھے اور باطنی علوم بھی۔ باطنی علم یا علم توحید ان لوگوں کے یہاں ایسی مکمل صورت میں تو نہیں تھا، جیسے ہمارے یہاں تصوف ہے ، مگر تھا ضرور۔ اس بات کی صریح شہادتیں موجود ہیں کہ عیسائیوں نے اس علم توحید میں مسلمان صوفیا سے استفادہ کیا تھا۔ مثلاً تیرہویں اور چودہویں صدی میں حضرت ابن عربی کی تعلیمات یورپ کے متصوفانہ حلقوں میں اتنی مقبول تھیں کہ کلیسا نے انہیں اپنا حریف سمجھا اور ان پر پابندی لگا دی۔ باطنی علوم پر عیسائیوں نے جو کتابیں لکھی تھیں ان میں سے بیشتر تو کلیسا نے جلا دیں اور کچھ پرانے کتب خانوں میں بند پڑی ہوں گی۔ اس لیے کوئی دستاویزی شہادت ایسی نہیں ملتی (کم سے کم آسانی سے نہیں ملتی) جس سے پتا چل سکے کہ اس معاملے میں عیسائیوں کی پہنچ کہاں تک تھی۔ بہر حال اتنی بات مصدقہ ہے کہ صلیبی جنگوں کے دوران میں عیسائیوں نے مسلمانوں سے باطنی علوم حاصل کیے تھے۔ اس کی بین شہادت یوں ملتی ہے کہ رومن کیتھلک لوگ جن دینی عالموں کو سب سے اونچا درجہ دیتے ہیں ان میں سے ایک رچرڈسین وکٹر (Richard St. Victor) ہے۔ یہ شخص اسکاٹ لینڈ کا تھا، مگر فرانس میں سین وکتور کی خانقاہ سے متعلق تھا۔ کہتے ہیں کہ اس خانقاہ میں باطنی علوم سے متعلق ایک کتاب تھی جسے روز پڑھنا لازمی تھا اور اس کتاب میں وہ علوم تھے جو عربوں سے اخذ کر کے یکجا کر دیئے گئے تھے۔ اس شخص نے لاطینی میں دو کتابیں لکھی ہیں۔ The Major Benjamin اور The Minor Benjaminیہ کتابیں تمثیلی رنگ میں حضرت یوسفؑ اور اُن کے بھائیوں کا قصہ پیش کرتی ہیں اور ان کا موضوع ہے ”من عرف نفسہ فقد عرف ربسہ“ ان کتابوں سے اتنی بے اعتنائی برتی گئی ہے کہ لاطینی سے فرانسیسی میں ترجمہ ابھی حال ہی میں ہوا ہے۔ دو کتابوں سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ ازمنہ وسطی کے باطنی علوم اسلامی تصوف سے کتنے مشابہ تھے۔ (جاری ہے)

بہر حال پوپ اور بادشاہ دونوں باطنی علوم کے مخالف ہو گئے اور چودھویں صدی سے طریقت کمزور پڑنے لگی، جس شخص کی زبان پر حضرت ابن عربی کا نام آجاتا تھا اسے فور اگر فتار کر لیا جاتا تھا، کہتے ہیں کہ جو معدودے چند متصوفین یورپ میں بچے تھے وہ اٹھارویں صدی کے وسط میں ہجرت کر گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائیوں کے پاس محض ” ظاہری ” علوم رہ گئے اور دین کا باطنی پہلو بالکل ختم ہو گیا۔
دین کے یہ ظاہری علوم بھی صرف رومن کیتھلک لوگوں کے پاس رہ گئے ہیں اور یہ بھی روز بروز زوال پذیر ہیں۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ ازمنہ وسطیٰ کے دینی فکر میں ایسی کیا کمزوریاں تھیں جن کی وجہ سے جدیدیت ” بڑی آسانی سے عیسائیت پر غالب آگئی اور گمراہیاں بڑھتی ہی چلی گئیں اور مغرب کا ذہن مسخ ہوتا چلا گیا:
-1 عیسائیت دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں دینی رہنماو ¿ں کی تنظیم حکومت کے انتظامی شعبوں کی طرح کی گئی تھی۔ روم کا کلیسا قائم ہی ہوا تھا رومی سلطنت کے نمونے پر۔ جس طرح یہ نا ممکن ہے کہ حکومت کے محکموں میں تھوڑی بہت خرابیاں پیدا نہ ہوں، اسی طرح کلیسا کے عہدے داروں میں بھی اخلاقی خرابیاں آگئیں۔ پہلے تو لوگوں نے اصلاح کا مطالبہ کیا۔ یہ ایک طرح کی سیاسی بحث تھی ، لیکن آخر اعتقادات میں بھی تبدیلی شروع ہو گئی اور پروٹسٹنٹ مذہب نمودار ہوا جو دراصل ”جدیدیت “ کی بنیاد ہے۔
-2 پوپ اور بادشاہوں کے درمیان اقتدار کے جھگڑے ہونے لگے اور بہت سے بادشاہوں نے پروٹسٹنٹ تحریک کی حمایت کی۔ اس سیاسی کشمکش نے کلیسا کو کمزور کردیا اور پروٹسٹنٹ ملکوں میں تو کلیسا بادشاہوں کا غلام بن گیا۔
-3 کلیسا نے باطنیت کی سخت مخالف کی۔ چنانچہ سولہویں صدی کے آخر تک عیسائیت میں صرف ظاہر ہی ظاہر رہ گیا۔ گویا عیسائیت کی جان ہی نکل گئی۔
-4ازمنہ وسطیٰ کے دینی مفکر فلفے کو دین کے تابع تو ضرور رکھنا چاہتے تھے ، لیکن ان کے یہاں تفلسف اور عقلیت کا رنگ خاصا نمایاں تھا یہی رحجان آگے چل کر اتنا بڑھا کہ دین سے آزاد ہونے کا دعویٰ کرنے لگا۔
-5یونانی فلسفے کی طرح ازمنہ وسطی کی الہیات بھی ”وجود ” کی منزل سے آگے نہیں جاسکی۔ یعنی ان مفکروں کو مکمل تنزیہ کبھی حاصل نہیں ہو سکی۔ اسی لیے وہ تنزیہ اور تشبیہ کے درمیان امتیاز قائم نہیں کر سکے۔ تشبیہ سے گر کر ”فطرت پرستی“ میں پڑ جانا بالکل آسان ہے جو آگے چل کر ہوا۔
-6سینٹ ٹامس اکو ائناس نے عیسوی دینیات کو ارسطو کے فلسفے پر اس طرح قائم کیا تھا کہ ارسطو عیسوی دینیات کا انکار ہے۔ سولہویں صدی کے آخر میں یہی ہوا۔ کو پرٹیکس اور کیپلر نے بطلیموسی نظام سے انحراف کیا تو عیسائیت کی دنیا میں زلزلہ آگیا۔ سترھویں صدی کے شروع میں تیلی لیونے سائنس کے دو ایک نئے اصول دریافت کیے تو ان کی رد بھی عیسوی دین پر نہیں بلکہ ارسطو پر پڑتی تھی۔ لیکن لوگ یہی محسوس کرتے تھے کہ ارسطو گیا تو عیسوی دینیات بھی گئی اور جب لوگوں کو ارسطو کی طبیعات پر شک پیدا ہوا تو ساتھ ہی عیسائیت پر بھی ایمان کمزور پڑ گیا۔
Form ہے تو ایک بے ضرر سا لفظ لیکن اس لفظ نے گمراہی کو ترقی دینے میں بڑی آسانیاں فراہم کی ہیں۔ افلاطون نے کہا ہے کہ کائنات میں جتنی چیزیں ہیں ان کا نمونہ عالم مثال میں موجود ہے۔ اس نمونے کو وہ عین ” کہتا ہے اور حقیقت اسی “عین ” کے اندر سمجھتا ہے، مادی شے میں نہیں۔ ازمنہ وسطی کی الیسات اور فلسفے میں ”عین “ کے لیے لفظ Form استعمال کیا گیا۔ ان لوگوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ مادی چیز نہیں ہے، مگر اس لفظ کے معنی ہیں۔ صورت۔ چنانچہ یہ لفظ سب سے پہلے کسی مادی چیز کا تصور پیش کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ اس لفظ کا اصلی مفہوم تو غائب ہونے لگا اور مادی مفہوم غالب آتا گیا۔ اس طرح مادیت کے نشو و نما میں اس لفظ نے بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔

حصہ