مہک کا راز

98

تیسرا سوال یہ ہے کہ اقراری ملزم سے کیا آپ نے اس کی کال کوٹھڑی میں سوالات کئے تھے یا جیلر کے کمرے میں اورآخری سوال یہ ہے کہ کیا اس سے ہم بھی تنہائی میں کچھ سوالات پوچھ سکتے ہیں وہ بھی اس طرح جیسے طلبہ کا کوئی گروپ اپنے کسی اسائنمنٹ کے لیے کسی قیدی سے ملنا چاہتا ہو۔
جائے وادات کے حوالے سے تو میں تمہیں جواب دے ہی چکا ہوں رہی یہ بات کہ تم دونوں وہاں کچھ دن قیام کرنا چاہتے ہو تو اس کا اتنظام بھی کچھ اس انداز میں کرنا ہوگا کہ تم دونوں کسی انکوائری کے لیے لیے نہیں بلکہ طالبعلموں کے نقطہ نظر سے وہاں قیام کرنا چاہتے ہو۔
مجرم سے کال کوٹھڑی ہی میں ملاقات ہوئی تھی البتہ جیلر صاحب نے پہلے اپنے آفس میں ہمیں دس منٹ بٹھا کہ رکھا تھا اور اہل کار سے کہا تھا کہ وہ مجرم کی کال کوٹھڑی کی صفائی کر آئے۔ اس نے جب آکر اطلاع دی تو جیلر خود ہمارے ہمراہ گئے تھے۔ ان پر بھی میری طرح یہی دباؤ ہے کہ آپ اس کی بے گناہی کسی نہ کسی طرح مگر ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ ثابت کریں۔
کیا آپ یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ اس مجرم کا نمبر کیا تھا۔
اس کا نمبر 1103 تھا، یہ سن کر بھی دونوں نے اسی خفیہ چھٹی حس کے ذریعے ایک دوسرے کو دیکھا کیونکہ جس کال کوٹھڑی سے گزرتے ہوئے وہ دونوں چونکے تھے اور پھر پلٹ کر کچھ دیر وہاں رکے تھے وہاں اسی نمبر کا مجرم قید تھا۔
انسپکٹر حیدر علی کے جوابات اس دوران رکے بغیر جاری رہے۔ انہوں نے قیدی سے ملاقات کے لیے بھی اتنا کہا کہ وہ اس کے لیے بھی کوئی ایسا انتظام کریں گے کہ جیل انتظامیہ کو کسی قسم کا کوئی شبہ نہ ہو سکے۔
سوالات تو اور بھی کئی غور طلب تھے لیکن کیونکہ ابھی تک ان کو سرکاری سطح پر کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی تھی اس لیے جمال اور کمال نے فی الحال ایسا ذہن نہیں بنایا تھا کہ وہ لازماً اس کیس کا کوئی حل ضرور نکال کر رہیں گے البتہ نہ جانے کیوں قیدی نمبر 1103 سے ایک بار اور ملنے میں دلچسپی ضرور رکھتے تھے۔ بات تھی بھی ایسی کہ قیدی سے دوسری بار ملاقات جیسے ان کو بار بار ایسا کرنے پر اکسا رہی تھی۔
جب وہ انسپکٹر حیدر علی کے کہنے پر جیل کے اس حصے کی جانب جارہے تھے جہاں خطرناک مجرموں کو مضبوط جنگلوں والی کوٹھڑیوں میں مقید رکھا جاتا تھا تو قیدی نمبر 1103 کے قریب سے گزرتے ہوئے انھیں ایک عجیب سی مہک نے چونکا دیا تھا۔ بہت ہی عجیب سی مہک تھی۔ نہ تو اس کو بد بو کہا جا سکتا تھا اور نہ ہی خوشبو۔ نہ تو وہ مہک ذہن پر خوشگوار تاثر چھوڑ رہی تھی اور نہ ہی اس سے ناگواری محسوس ہو رہی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ویسی مہک دیگر مجرموں کی کوٹھڑیوں سے کیوں آتی محسوس ہو رہی تھی۔ بس یہی تجسس بار بار اکسا رہا تھا کہ ایک ہی مرتبہ سہی، قیدی نمر 1103 سے ایک ملاقات اور ہو جائے تو اچھا ہے۔
دو دن گزر چکے تھے لیکن انسپکٹر حیدر علی کی جانب سے زمیندار کی زمینوں اور قیدی نمبر 1103 سے وزٹ اور ملاقات کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں دکھائی دی۔ ایک رات سونے سے قبل ان کو اپنے سابقہ پرنسپل ملک کرم داد کا خیال آیا۔ گزشتہ سال ہی وہ ریٹائرڈ ہو چکے تھے۔ نہ جانے انھیں کیسے ان کو ”پربت کی رانی اور پربت کی رانی کا انجام” والے کیس کی خبر ہو گئی تھی۔ وہ بے شک بہت عرصے ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی میں کسی بڑے عہدے پر فائز رہے تھے لیکن کبھی اس سے زیادہ نہیں بتاتے تھے کہ وہ بس ایک طویل عرصے اہم مہمات میں شامل رہے ہیں۔ تو کیا وہ اب بھی ان کے ساتھ وابستہ ہیں یا ان کے تعلقات اب بھی خفیہ ایجنسی والوں کے ساتھ قائم ہیں۔ اگر نہیں تو ان کو اتنی اہم اور خفیہ مہم والے کیس کی خبر کیسے ہوئی۔ انھیں یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ ایک شب وہ جمال اور کمال کے گھر ٹھیک اس وقت آئے تھے جب جمال، کمال اور فاطمہ مہم میں مصروف تھے۔ ان کے والدین کو کئی دن سے ان کی کوئی خیر خیریت پتا نہیں چل رہی تھی۔ جمال اور کمال کے والد ان کے سابقہ پرنسپل ملک کرم داد سے واقف تھے۔ جس طرح جمال اور کمال اپنے والد صاحب کی مصروفیات کی جانب سے ہر دم مشکوک ہی رہتے تھے اور پورے یقین کے ساتھ آج تک یہ بات نہیں سمجھ سکے تھے کہ آیا ان کے والد صاحب پر محکمے والے اکثر اتنا اعتماد کیوں کرتے ہیں کہ اہم ترین مہمات میں اکثر وہ جمال اور کمال کے ساتھ کیوں ہوتے ہیں اسی طرح جمال اور کمال کو یہ خبر ”پربت کی رانی کا انجام” والی مہم کے اختتام پر ہوئی تھی کہ ان کے سابقہ پرنسپل ملک کرم داد ان کے گھر محض یہ بتانے اور اطمینان دلانے آئے تھے کہ ان کے بچے ٹھیک ٹھاک ہیں۔ دونوں نے سوچا کہ وہ انسپکٹر حیدر علی کے موجودہ کیس میں اپنی دلچسپی ظاہر کریں۔ ممکن ہے کہ ان کے توسط سے کچھ اجازتیں مل ہی جائیں۔ ان کو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اس کیس کی بہت ساری گتھیاں سلجھا سکتے ہیں اور اس بات کا قوی امکان محسوس کر رہے ہیں کہ قیدی نمبر 1103 کو نہ صرف بے گناہ ثابت کر سکتے ہیں بلکہ وہ اصل مجرم کے خلاف بھی بہت سارے ثبوت و شواہد جمع کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
ان دنوں ان کے والد صاحب کسی ضروری کام سے دارالحکومت گئے ہوئے تھے اور اب تک انہوں نے واپسی کا کوئی شیڈول نہیں دیا تھا ورنہ تو اس قسم کی اجازتیں شاید ان کے لیے کبھی مسئلہ نہیں بن سکتی تھیں کیونکہ وہ اچھی طرح جان چکے تھے کہ ان کے والد صاحب ہمیشہ ان کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیا کرتے تھے۔ بہر حال دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ آنے والی کل سابقہ پرنسپل سے ملاقات ضرور کریں گے اور اگر مناسب ہوا تو اپنا مدعا بھی ان کے سامنے ضرور پیش کریں گے۔(جاری ہے)

حصہ