بزمِ محبانِ ادب کی محفلِ دوستاں

80

دانش گاہ اقبال گلستان جوہر کراچی میں سعدیہ حریم کی صدارت میں بزمِ محبانِ ادب کے زیر اہتمام محفلِ دوستاں کے نام سے ایک پروگرام منعقد ہواجس میں انجم عثمان اور افتخار ملک ایڈووکیٹ مہمانان خصوصی تھے۔ مہمانانِ اعزازی میں انیلہ نعمان اور طلعت نثار شامل تھیں۔ عفت مسعود نے نظامت کے فرائض انجام دینے کے علاوہ تمام شرکائے محفل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ گیٹ ٹو گیدر سے ہمیں ذہنی آسودگی حاصل ہوتی ہے‘ ہم ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہوتے ہیں جب کہ مشاعرہ ہماری مشرقی اقدار کا اہم باب ہے‘ یہ وہ ادارہ ہے جو کہ ہر معاشرے کے لیے لازمی ہے۔ ہمارا ملک پاکستان کئی زبانوں کی آماج گاہ ہے‘ ہم ہر علاقائی زبان کے حق میں ہیں لیکن اردو ہماری قومی زبان ہے ہم اس ترقی میں حائل تمام دشواریاں دور کرنا چاہتے ہیں۔ مہربانی کرکے آپ اردو کی ترویج و اشاعت میں بھرپور کردار ادا کریں۔ کشور عروج نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ہم نے آج محفلِ دوستاں اس لیے سجائی ہے کہ ہم اس کے تحت مشاعرہ‘ موسیقی اور بہت سے ادبی مکالمے ترتیب دیں گے۔ سعدیہ حریم نے صدارتی خطبے میں کہا کہ ہر شاعر نے اپنے اشعار سنا کر خوب داد حاصل کی‘ آج کی شاعری میںگل بلبل کے افسانے ختم ہو چکے ہیں‘ اب ہمارے کلام میں معاشی مسائل‘ حالات حاضرہ بھی شامل ہو چکے ہیں جب کہ شاعری میں غمِ جاناں بھی لکھا جا رہا ہے۔ شاعر اپنے معاشرے کا سفیر ہوتا ہے‘ وہ لوگوں کو نیک کام کی تلقین کرتا ہے اور برائیوں سے بچاتا ہے جو لوگ مشاعرے آرگنائزر کر رہے ہیں وہ زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں میں انہیںسلام پیش کرتی ہوں۔

عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ وہ اردو زبان و ادب کی خدمت کے لیے ہر تنظیم کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ دبستان کراچی زندہ دل انسانوں کا شہر ہے‘ یہاں ہر قبیلے کی نمائندگی موجود ہے جب سے کراچی میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے کراچی کے ادبی ادارے بھی بہت سرگرم ہیں‘ تواتر کے ساتھ ادبی تقریبات ہو رہی ہیں جو کہ خوش آئنداقدام ہے۔ شاعری تو ہمارا سرمایہ ہے‘ ہم چاہتے ہیں کہ جینوئن شعرا کی حوصلہ افزائی ہو‘ انہیں زندگی کی سہولیات میسر ہوں‘ ان کے مسائہل حل کیے جائیں۔ افتخارملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ آج کی محفل میں خواتین کی اکثریت ہے۔ کشور عروج بہت اچھی شاعرہ ہونے کے علاوہ بہترین پروگرام ترتیب دیتی ہیں۔ انیلہ نعمان نے بہت اچھی غزل ترنم کے ساتھ پیش کی میں انہیں مبارک باد دیتا ہوں۔ آج کی تقریب ایک شان دار پروگرام ہے جس کی یادیں ہمارے ذہنوں میں زندہ رہیں گی۔ اس موقع پر انتظامیہ مشاعرے کی جانب سے تمام خواتین و حضرات کو مختلف تحائف پیش کیے گئے اس موقع پر سعدیہ حریم‘ انجام عثمان‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ یاسر سعید صدیقی‘ حنا سجاول ایڈووکیٹ‘ کشور عروج اور عفت مسعود نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ مسعود وصی‘ جاوید صدیقی اور فاروق عرشی بھی اس تقریب کے مہمانوں میں شامل تھے۔

عابد شیروانی ایڈووکیٹ کا فکرِ اقبال مذاکرہ اور مشاعرہ

عابد شیروانی ایڈووکیٹ ہر ماہ اپنی رہائش گاہ پر علامہ اقبال کے حوالے سے مذاکرہ اور مشاعرہ آرگنائز کر رہے ہیں اس سلسلے میں چوتھا پروگرام 22 جولائی کومنعقد ہوا۔ اس پروگرام کے دو حصے تھے۔ مذاکرے کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل نے کی جس میں نسیم انجم مہمان خصوصی تھیں اور ثبین الدین حسینی مہمان اعزازی تھے۔ رضوان اقبال نے تلاوتِ کلامِ مجید کی سعادت حاصل کی اور مقصود اویس نے نعت رسولؐ پیش کی۔ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے نظامت کے فرائض انجام دیے اس کے علاوہ انہوں نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ آج کے پروگرام کا مقصد یہ ہے کہ ہم علامہ اقبال کے فکری رجحانات اور ان کے کلام کے اسرار و رموز سے آگاہ ہوں اس سلسلے میں ہم ماہانہ بنیادوں پر تقاریب سجا رہے ہیں۔ ڈاکٹر علامہ اقبال جیسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ انہوںنے ساری دنیا میں اسلامی سوچ کے فروغ میں بھرپور حصہ لیا۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانانِ عالم کو خوابِ غفلت سے جگایا‘ انہیں زندہ رہنْ کے ہنر بتائے۔ علامہ اقبال نے ’’شکوہ‘ جوابِ شکوہ‘‘ لکھ کر نسلِ آدم کے معاملات روشن کیے‘ عبد اور معبود کے تعلق پر روشنی ڈالی۔ حضرت اقبال نے پاکستان کے قیام میں گراں قدر خدمات انجام دیں‘ ان کے خطبے تحریک پاکستان کا اہم مرکز ہیں۔ عابد شیروانی نے مزید کہا کہ آج کے مذاکرے کا موضوع ہے ’’اقبال اور سنتِ ابراہیمیؑ‘‘ ہمیں اس بات کا علم ہے کہ حضرت ابراہیمؑ ایک جلیل القدر پیغمبر تھے انہوں نے دینِ اسلام کی اشاعت میں زندگی گزری ان کی سنت کی پیروی میں مسلمان قربانی کی رسم ز ندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ہر سال عیدالاضحی کے موقع پر اللہ کے نام پر لاکھوں جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ قیامت تک چلے گا۔ خورشید احمد نے کہا کہ قربانی کا لفظ عربی سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں ’’اللہ کا قرب۔‘‘ جس شخص کو اللہ کا قرب نصیب ہوگا وہ دین و دنیا میں انتہائی معزز ہوگا۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ قربانی کا سلسلہ حضرت آدمؑ کے بیٹوں ہابیل اور قابیل سے شروع ہوا ہے۔ دونوں نے اللہ کی راہ میں قربانی پیش کی۔ ہابیل کی قربانی کو شرف قبولیت حاصل ہوا جب کہ قابیل کی قربانی ناکام ہوئی اور قابیل نے ہابیل کا قتل بھی کیا جو کہ اس دنیا میں پہلا قتل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے قربانی کا مطالبہ کیا انہوں نے حضرت اسماعیلؑ کو قربان کرنے کے لیے زمین پر لٹایا‘ ان کے گلے میں چھری چلائی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایک دنبہ بھیج دیا جوکہ حضرت اسماعیل ؑ کے بجائے ذبح ہوا۔ ہم اس قربانی کی سنت ادا کر رہے ہیں۔

نسیم انجم نے کہا کہ اس وقت علامہ اقبال کے فکری رجحانات کو اپنانے سے ہم ترقی کر سکتے ہیں‘ ہمارے اندر وحدتِ اسلامی کا فقدان ہے جس کے نتیجے میں ہم منتشر ہوکر رہ گئے ہیں‘ ہمارا قومی شیرازہ بکھر رہا ہے‘ ہم تنزلی کا شکار ہیں‘ ہمیں چاہیے کہ ہم متحد ہو جائیں اور قربانی کے اصولوں پر عمل کریں۔

پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل نے کہا کہ عابد شیروانی نے فکرِ اقبال کو عام کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے‘ ہم ان کے ساتھ ہیں‘ ان کی نشستوں میں شہر قائد کے بہت سے اہم افراد شامل ہو رہے ہیں‘ یہ سلسلہ ترقی کرے گا۔ فکری نشست کے بعد مشاعرہ ہوا جس کی صدارت سلمان صدیقی نے کی۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ اور راقم الحروف ڈاکٹر نثار اس تقریب میں مہمانانِ خصوصی تھے۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ آج علامہ اقبال کے ایک مصرع ’’رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے‘‘ پر مشاعرے کا اہتمام کرکے عابد شیروانی نے علامہ اقبال کے نظریات کو روشنی بخشی ہے۔ ہم علامہ اقبال کے کلام سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ اس موقع پر سلمان صدیقی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ اسماعیل اختر ہاشمی‘ تنویر سخن‘ کشورعروج‘ حمیدہ کشش اور کاوش کاظمی نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔

حصہ