جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ

147

نئی اور پرانی گمراہیاں
اسلامی تاریخ میں بلکہ ہر مذہب کی تاریخ میں طرح طرح کی گمراہیاں، بدعتیں ، شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ ہمارے علما فرماتے ہیں کہ مغربی تعلیم سے متاثر ہونے والے لوگ کوئی ایسا شبہ یا اعتراض نہیں لا سکتے جس کا جواب ہمارے پاس نہ ہو۔ یہ بات سو فی صدی درست ہے۔ گمراہی کی جتنی بھی نئی شکلیں سامنے آئی ہیں یا آسکتی ہیں وہ بنیادی طور پر وہی ہیں جن سے اسلامی علما کو تاریخ میں پہلے بھی واسطہ پڑ چکا ہے۔ علما کو ان کا جواب دینا بہت آسان ہے۔ مگرنتی گمراہیاں چند باتوں میں اختصاص اور امتیاز رکھتی ہیں، جن کو نظر میں رکھے بغیر علما کے جواب موثر نہیں ہو سکتے:

-1پہلے گمراہیوں کا دائرہ بہت ہی محدود ہو تا تھا، رقبے کے لحاظ سے بھی اور گمراہوں کی تعداد کے لحاظ سے بھی علما جیسے ہی ان گمراہیوں کی نوعیت واضح کرتے تھے ، یہ گمراہیاں یا تو بالکل غائب ہو جاتی تھیں یا ان کا زور ٹوٹ جاتا تھا۔ مگر نئی گمراہیوں کا دائرہ عالمگیر ہے اور ان سے مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر مذہب کے لوگ متاثر ہو رہے ہیں، پھر ان گمراہیوں کا دائرہ اثر اور دائرہ کار روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

-2پہلے گمراہیاں خود مسلمانوں کے اندر ہی سے پیدا ہوتی تھیں، لیکن نئی گمراہیاں مغرب سے آئی ہیں، پھر ان کے پیچھے یورپ کی مالی اور فوجی طاقت بھی رہی ہے۔ علاوہ ازیں یہ گمراہیاں اپنے ساتھ سائنس کی ایسی ایجادات بھی لائی ہیں جو نفسانی خواہشات کو تسکین دینے والی ہیں اور عام لوگوں کو بھونچکا کر دیتی ہیں۔ چنانچہ لوگ ذہن سے کام نہیں لیتے، حسی مشاہدات کو عقلی دلیل سمجھتے ہیں۔ اس لیے جب علما اعتراضات کا جواب دیتے ہیں تو قرار واقعی اثر نہیں ہوتا۔

-3 یورپ کا ذہن پچھلے چھ سو سال سے (یعنی چودھویں صدی عیسوی سے بتدریج مسخ ہوتا رہا ہے اور صداقت کو سمجھنے کی صلاحیت کھوتا رہا ہے۔ یورپ نے چھ سو سال میں جتنی گمراہیاں پیدا کی ہیں ان سب نے ایک ساتھ ہمارے اوپر حملہ کیا ہے۔ اس لیے ایک عام مسلمان کا ذہن اسلام سے عقیدت کے باوجود اس ریلے کی تاب نہیں لاسکتا۔ ایک گمراہی سے نجات پاتا ہے تو دوسری گمراہی میں پڑ جاتا ہے۔ اس طرح خود ہمارے یہاں بھی پچھلے ڈیڑھ سو سال کے عرصے میں عام لوگوں کا اور خصوصاً جدید تعلیم پانے والوں کا ذہن آہستہ آہستہ مسخ ہوتا چلا گیا ہے۔

-4پرانی گمراہیاں اسلامی اصطلاحات اور اسلامی تصورات ہی کو غلط طریقے سے استعمال کرتی تھیں، اس لیے انہیں دور کرنا نہایت آسان تھا، مگر نئی گمراہیاں ایک نئی زبان اور نئی اصطلاحات لے کر آئی ہیں۔ چنانچہ مہمل سے مہمل نظریہ بھاری بھر کم اصطلاحات کے پردے میں اس طرح چھپ جاتا ہے کہ آدمی خواہ مخواہ مرعوب ہو جاتا ہے۔ چوں کہ ہمارے علماء کو اس نئی زبان اور ان نئی اصطلاحات کی نوعیت اور ان کی طویل اور پیچیدہ تاریخ کا پورا علم نہیں، اس لیے بعض دفعہ ان کے جوابات نشانے پر نہیں بیٹھتے۔

یہ نئی اصطلاحات تین قسم کی ہیں:

(الف) بعض ایسی اصطلاحات جو خالص عیسوی نوعیت کی ہیں اور بعض ایسی اصطلاحات جو تمام ادیان میں مشترک ہیں، نہایت فراخ دلی سے استعمال کی گئی ہیں، مگر انہیں بالکل ہی نئے معنی دیئے گئے ہیں۔ یورپ میں گمراہی کا آغاز دراصل اسی طرح ہوا ہے۔

(ب) ایسی اصطلاحات کے غلط معنی بھی ایک جگہ قائم نہیں رہے، بلکہ ہر بیس پچیس سال بعد بدلتے رہے ہیں۔ بیسویں صدی میں تو یہ معنی ہر پانچ سال کے بعد بدل رہے ہیں۔ بلکہ مغرب میں تو یہ حال رہا ہے کہ ایک ہی زمانے کے دس لکھنے والے ایک لفظ کو دس مختلف معنوں میں استعمال کرتے ہیں ایسے کلیدی الفاظ کی ایک بین مثال لفظ ’’فطرت‘‘ ہے۔ خود لفظ’’مذہب‘‘ اتنے معنوں میں استعمال ہوا ہے کہ اس کے کوئی معنی باقی نہیں رہے۔

(ج) مغربی مصنفین کو نئی اصطلاحات اختراع کرنے کا اتنا شوق ہے کہ چاہے کوئی نئی بات کسی ہو یا نہ کی ہو ، مگر نئی اصطلاحات ضرور ہوں ، یہ نئی اصطلاحات بھی دو قسم کی ہیں۔ ایک تو بھاری بھر کم اور پیچیدہ الفاظ ہیں جن کا بعض وقعہ کوئی مطلب نہیں ہوتا، مگر علمیت ضرور چکتی ہے۔ لکھنے والوں کی تحریر میں ایسی اصطلاحات کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ پڑھنے والا کوئی مطلب اخذ نہیں کر سکتا اور اس کا ذہن معطل ہو جاتا ہے۔ دوسرے وہ اصطلاحات ہیں جو بظاہر خوش نما ہوتی ہیں اور براہ راست جذبات کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دونوں قسم کی اصطلاحات کا مقصد اصل میں یہ ہوتا ہے کہ پڑھنے والا اپنے ذہن سے کام نہ لے سکے۔

ہمارے علماء کی تبلیغ اس وقت تک کارگر نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ موجودہ مغربی ذہن کی ساخت اور اس کے طریقہ کار سے آگاہ نہ ہوں۔ اس لیے ضروری ہے کہ یورپ کی ذہنی تاریخ‘ بلکہ یورپ کے ذہنی انحطاط کا مختصر خاکہ پیش کر دیا جائے۔

یورپ کے ذہنی انحطاط کی تاریخ
صرف اسلام ہی نہیں بلکہ مشرق کے سارے ادیان کا انحصار زیادہ تر زبانی روایت پر ہے، لکھی ہوئی کتابوں پر نہیں۔ ہمارے نزدیک کسی دین کے زندہ ہونے کا معیار یہ ہے کہ روایت شروع سے لے کر آج تک کلی حیثیت سے سلسلہ بہ سلسلہ اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی چلی آرہی ہو۔ پچھلے چھ سو یا کم سے کم چار سو سال سے یورپ اس تصور کو بھول چکا ہے۔ آج یورپ میں کسی قسم کی بھی کوئی روایت ایسی باقی نہیں جو سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہو۔ یو رپ اس قسم کی روایت کو قابل استناد بھی نہیں سمجھتا اور صرف ایسی شہادتوں کو قبول کرتا ہے جو تحریری مشکل میں موجود ہوں۔ اس ذہنیت کے مطابق یورپ کے لوگ عموماً اپنی تہذیب کی تاریخ یونان سے شروع کرتے ہیں۔ چنانچہ یورپ کی تاریخ کے ادوار کا خاکہ کچھ اس طرح بنتا ہے۔

-1 یونانی دور۔

-2رومی دور۔

عیسوی دور یا ازمنہ وسطی یہ زمانہ عموماً پانچویں صدی عیسوی اور پندرھویں صدی عیسوی کے درمیان سمجھا جاتا ہے۔

-4نشاۃ ثانیہ: اس تحریک کا آغاز 1453ء یعنی ترکوں کی فتح قسطنطنیہ سے سمجھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ اصلاح مذہب کی تحریک یعنی پروٹسٹنٹ مذہب بھی شروع ہوتا ہے۔ جدید دور کا نقطہ آغاز یہی زمانہ ہے۔

-5عقلیت کا دور۔ یہ دور سترھویں صدی کے وسط سے لے کر اٹھارہویں صدی کے وسط یا آخر تک چلتا ہے۔

-6 انیسویں صدی یہاں سے پیچیدگیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ بعض لوگ اسے صنعتی انقلاب کا دور کہتے ہیں، بعض لوگ اسے سائنس سے پیدا ہونے والے انقلاب کا زمانہ بتاتے ہیں۔ دین کے بارے میں زیادہ تر شکوک و شبہات اور دین سے بے نیازی اسی دور میں پیدا ہوئی ہے۔

-7بیسویں صدی یا عصر حاضر یہ دور دراصل پہلی جنگ عظیم یعنی 1919ء کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔ یورپ کے ایک مسلمان عالم رینے گینوں (عبد الواحد یحییٰ) نے کہا ہے کہ چودھویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی کے آخر یا پہلی جنگ عظیم تک تو دین کی مخالفت اور دین پر حملوں کا زمانہ ہے اور اس کے بعد ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اس نئے دور میں دین کی مخالفت سے زیادہ چھوٹے ادیان ایجاد ہو رہے ہیں۔ اب ہر دور کی ضروری خصوصیات پیش کی جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

حصہ