نیم کا درخت:تاریخی ،طبی،زرعی اور ماحولیاتی اہمیت کی بنا پر ایک انمول نعمت ہے

190

جدید ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک نئی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ مواصلات، طب اور صنعت میں انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون نے دنیا کو آپس میں جوڑ دیا ہے، لیکن اس ترقی کے ساتھ آلودگی کا مسئلہ بھی بڑھتا گیا ہے۔ صنعتی کارخانوں، گاڑیوں، اور فضلہ کے نامناسب انتظام نے ہوا، پانی اور مٹی کو آلودہ کردیا ہے۔

اس طرح آج کی دنیا میں جہاں ٹیکنالوجی، مصنوعی اشیا اور کیمیائی مرکبات نے انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو بہتر یا آسان بنایا ہے، وہیں فطری عناصر کی اہمیت بھی کم نہیں ہوئی ہے۔

جدید زندگی کے ہر شعبے میں مصنوعی اشیاء کے وسیع استعمال نے انسان کو تباہ کردیا ہے۔ لباس سے زراعت تک ہر چیز مصنوعی ہوکر رہ گئی ہے، اور انسان وقتاً فوقتاً فطرت کی طرف لوٹنے کی کوشش کرتا ہے لیکن بسا اوقات لگتاہے دوری اور فاصلہ مزید بڑھ گیا ہے۔

بیسویں صدی کے اوائل اور وسط کے مصنوعی کیمیکلز پر انحصار کے دور نے تمام بیماریوں، اور بیماریوں کے علاج کے طور پر نئے کیمیکلز کو فروغ دیا جس کے مضر صحت اثرات بھی سامنے آئے۔ دنیا نے فطرت سے بھاگنا چاہا اور آج بھی بھاگ رہی ہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ احساس ہورہا ہے کے انسان فطرت سے دور نہیں رہ سکتا، اُسے پلٹنا ہوگا ور لوٹنا ہوگا اپنی اصل کی طرف… اور درخت، جنگل یہ سب اس کی فطرت کا حصہ ہیں۔ درخت زندگی ہیں اور ان ہی درختوں میں نیم کے درخت کو ایک انفرادیت حاصل ہے۔

نیم کا درخت (Azadirachta indica) اپنے بیش بہا فوائد اور تاریخی اہمیت کے ساتھ اونچا، مضبوط، گھنیرا، خوب صورت اور مشہور درخت ہے۔ یہ درخت بڑ کی مانند چاروں طرف پھیلتا ہے۔ ایک ہرا بھرا، گھنا، سایہ دار اور ماحول دوست اور آلودگی دور کرنے والا درخت، جس کی گہری جڑیں مضبوطی سے زمین میں پیوست ہوتی ہیں، اس کا تنا سڈول اور بھاری بھرکم ہوتا ہے، اور قد بھی بہت بلند نہیں ہوتا۔

درخت کی شاخیں پھیلی ہوئی اور صحت مند ہوتی ہیں، ان پر سرسبز کونپلیں اور پھل جس کو ’نمکولی‘ کہتے ہیں، بہت بھلے اور خوبصورت لگتے ہیں۔ نمکولی جب پکنے پر آتی ہے تو اس میں قدرے مٹھاس سی آجاتی ہے۔ پرندے اسے بہت پسند کرتے ہیں۔ یہ درخت 20 سے23 میٹر بلند اور 4 سے5 فٹ موٹے تنے کے ساتھ تیزی سے بڑھنے والا درخت ہے۔

نیم کا درخت ایشیا اور خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں پایا جاتا ہے۔ یہ قدیم زمانے سے طبی، ماحولیاتی اور زرعی فوائد کے لیے استعمال ہوتا آیا ہے۔ اس کا نہ صرف عربی و فارسی لٹریچر میں ذکر ملتا ہے بلکہ قدیم ہندو دھرم کی کتابوں، آیورویدک نصوص آیوروید میں نیم کو ’’دوا کی دکان‘‘ کہا جاتا ہے، کیونکہ اس کے پتّے، چھال، پھل اور بیج… ہر ایک میں مختلف بیماریوں کے علاج کی خصوصیات موجود ہیں۔

بنیادی طور پر ایشیا، افریقہ، امریکا، آسٹریلیا اور جنوبی بحرالکاہل کے جزائر کے خشک علاقوں اور ہندوستان میں یہ بہت سی ریاستوں میں وسیع پیمانے میں موجود ہے۔ انیسویں صدی میں جب انگریزوں نے بھارت کے دارالحکومت دلی کو ازسرنو بسانا شروع کیا تو معتدل موسم کے لیے انہوں نے جگہ جگہ نیم کے پیڑ لگوا دیے تھے۔

میانمر کے وسطی حصوں میں نیم کا درخت بہت عام ہے۔ جنوبی بحرالکاہل اور جزائر فجی میں بھی پایا جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں اسے پہلی بار تقریباً 60-70 سال پہلے متعارف کرایا گیا تھا۔ نیم کا درخت انڈونیشیا میں جاوا کے نشیبی شمالی اور مشرقی حصوں اور مشرق میں فرئیر جزائر (بالی، لومبوک، سمباوا) میں موجود ہے۔ فلپائن میں اسے پچھلی صدی کی ستّر اور اسّی کی دہائی کے دوران متعارف کرایا گیا تھا۔ چین میں A. indica کوہینان اور جنوبی چین کے ذیلی ٹراپیکل جزیرے پر لگایا گیا تھا۔ نیپال میں نیم کے درخت جنوبی نشیبی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ سری لنکا میں یہ جزیرے کے خشک شمالی حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ایران میں، جزیرہ نما عرب میں عراق میں شط العرب کے ساحل کے ساتھ نیم کے درخت اگتے ہیں۔ قطر اور ابوظہبی میں نیم کو آب پاشی کے تحت سڑکوں اور پارکوں کے ساتھ صاف شدہ سمندری پانی کا استعمال کرتے ہوئے لگایا گیا تھا۔ مکہ مکرمہ کے قریب میدانِ عرفات میں حجاج کرام کو سایہ فراہم کرنے کے لیے ایک بڑی شجرکاری کی گئی تھی۔

گرمیوں کے مہینوں میں برصغیر پاک و ہند کے شمالی حصوں میں نیم کے درخت کے نیچے کا درجہ حرارت اردگرد کے ماحول سے تقریباً 10 ڈگری سینٹی گریڈ کم ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نیم کا درخت قدرتی ایئرکنڈیشنر کے طور پر کام کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک مکمل نیم کے درخت کی موثر ٹھنڈک فراہم کرنے کی صلاحیت 10 ایئرکنڈیشنر کے برابر ہے۔ نیم کا درخت نہ صرف ہوا کو صاف کرتا ہے بلکہ انحطاط شدہ مٹی کی صحت کو بحال کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ نیم کے درخت کے ذریعے بنجر زمینوں کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانا ماحولیاتی علاج کے طور پر اس کی قدر کی ایک اور شاندار مثال ہے۔

تقریباً دودہائی قبل میدانِ عرفات میں تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر 50,000 نیم کے درخت لگائے گئے تھے تاکہ حج کے دوران مسلمانوں کو سایہ فراہم کیا جاسکے۔ نیم کے ان باغات نے علاقے کے مائیکرو کلائمیٹ، مائیکرو فلورا، مائیکرو فائونا، اور ریت کی مٹی کی خصوصیات پر نمایاں اثر ڈالا ہے۔ جب یہ درخت مکمل طور پر اگ جائیں گے، تو یہ باغات 20 لاکھ حاجیوں کو سایہ فراہم کرنے کے قابل ہوں گے۔

پاکستان میں بھی نیم کے درخت کا استعمال مختلف بیماریوں کے علاج میں کیا جاتا ہے۔ اس کے پتّوں، چھال اور بیجوں کے عرق کو مختلف طبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ نیم کے پتّے اینٹی بیکٹیریل، اینٹی فنگل، اور اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات رکھتے ہیں جو جلد کی بیماریوں، دانتوں کے مسائل اور مختلف انفیکشنز کے علاج میں مؤثر ہیں۔

ماہرین کے مطابق نیم کا درخت زمینی مٹی کی صلاحیت بڑھاتا ہے اور پانی کے ضیاع و مٹی کے کٹائو کوبھی روکتا ہے۔ نیز نیم کے درخت کا ہر حصہ یعنی بیج، پھل، تیل، چھال، جڑ بطور دافع عفونت اور دافع جراثیم کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔

کراچی میں نیم کے درخت کا استعمال صدیوں پرانا ہے۔ اس شہر کی گرم اور خشک آب و ہوا نیم کے درخت کی نشوونما کے لیے سازگار ہے، جس کی وجہ سے یہ درخت یہاں بڑے پیمانے پر پایا جاتا ہے۔ نیم کی طبی خصوصیات اور ماحولیاتی فوائد نے اسے کراچی میں مقبول بنایا ہے۔

امکانات: نیم کے درخت کراچی کے ماحولیاتی حالات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہ درخت ہوا کو صاف کرتے ہیں، مٹی کے کٹائو کو روکتے ہیں، اور شہری علاقے میں سایہ فراہم کرتے ہیں۔ نیم کے درخت کے مختلف حصے جیسے پتے، پھول اور بیج، طبی اور صنعتی مقاصد کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اس کی اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی فنگل خصوصیات کی بدولت نیم کی مصنوعات صحت کے مسائل کے حل میں مؤثر ثابت ہوسکتی ہیں۔

نیم کا درخت اپنی تاریخی، طبی، زرعی اور ماحولیاتی اہمیت کی بنا پر ایک انمول نعمت ہے۔ اس کے فوائد کو سمجھنے اور اس کے استعمال کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم قدرت کے اس تحفے سے مکمل فائدہ اٹھا سکیں۔ نیم کے درخت کی حفاظت اور افزائش ماحول کی بہتری اور انسانی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے۔

کراچی میں نیم کے درخت کی کاشت اور حفاظت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف ماحولیاتی فوائد حاصل ہوں گے بلکہ طبی استعمال کے لیے نیم کی فراہمی بھی یقینی ہوگی۔ نیم کے درخت کی دیکھ بھال اور اس کے استعمال کو بڑھانے کے لیے مقامی حکومت اور کمیونٹی کی مشترکہ کوششیں ضروری ہیں۔

حصہ