زرد صحافت اور پاکستان کی سلامتی

242

اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہر چیز کو مثبت اور منفی صفات اور خوبیوں کے ساتھ پیدا کیا ہے جس کی بنیاد پر وہ پسند کی جاتی ہے اور اس کی قدر و قیمت ہوتی ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے احسنِ تقویم کے ساتھ پیدا کیا مگر یہ اپنی حرکتوں سے نیچوں میں نیچ ہوجاتا ہے۔ (سورۃ التین)

میں یہاں تمام جان داروں کی زندگی کا لازمی عنصر پانی کی مثال دوں گا۔ پانی کی فطری اور طبعی خصوصیات یہ ہیں کہ یہ بے رنگ ہے، بے ذائقہ ہے اور اس کی کوئی خوشبو نہیں۔ مگر جب یہ پانی جم جاتا ہے تو اس کا نام بھی بدل جاتا ہے، اس کو برف کہتے ہیں۔ جب آسمان سے بارانِ رحمت برستی ہے تو کھیتیاں لہلہا اٹھتی ہیں، اور جب ژالہ باری ہوتی ہے تو کھیتیاں جل جاتی ہیں۔

انسان پیدا ہوکر جوان ہوتا ہے اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد مختلف پیشوں کو اپناتا ہے، اور ہر پیشے کی اپنی خوبیاں اور تقاضے ہوتے ہیں۔ علما شریعت کی حفاظت اور اصلاحِ معاشرہ کے فرائض انجام دیتے ہیں، اساتذہ نسلِ نو کی آبیاری کرتے ہیں، جج عدل و انصاف قائم کرتے ہیں، ارکانِ پارلیمنٹ قانون سازی کرتے اور ملک کا انتظام و انصرام چلاتے ہیں، فوج ملک کی سلامتی کی ضامن ہے، پولیس ملک میں امن و امان اور قانون کی پاسداری کی ذمہ دار ہے۔

صحافت معتبر اور قابلِ احترام پیشہ ہونے کے ساتھ ساتھ عوامی آگاہی، ابلاغ اور اطلاعات میں بنیادی کردار ادا کرنے والا ادارہ ہے۔ صحافی کے قلم اور زبان سے نکلی ہوئی ہر بات ملکی معیشت، سیاست اور زندگی کے تمام شعبوں میں نہ صرف اثر دکھاتی بلکہ عوام کو پل پل کی اطلاعات بلکہ رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے۔ صحافت کو ریاست کا پانچواں ستون کہا جاتا ہے۔ یہ ادارہ حکومتوں کو تہہ و بالا اور پارٹیوں اور افراد کو زیر و زبر کرنے کی مہارت حاصل کرچکا ہے۔

صحافت اب Digital دور میں داخل ہوکر تیز رفتار ترقی کررہی ہے اور پوری دنیا کو اپنے کیمرے اور موبائل اسکرین کے حصار میں لے چکی ہے، لہٰذا واقعات چند سیکنڈ میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے تمام عالم میں نشر ہوجاتے ہیں اور کروڑوں لوگ اس جانب متوجہ ہوجاتے ہیں۔ صحافی حضرات مختلف شعبوں میں کام انجام دیتے ہیں، کوئی TV پر خبریں پڑھتا ہے جو اُس ادارے کی جانب سے اسے دی جاتی ہیں، کچھ اینکرز ہوتے ہیں جو خبروں اور واقعات پر تبصرے کرتے ہیں اور اپنے مخفی رابطوں کے ذریعے دُور کی کوڑی لاتے ہیں، وہ مختلف سیاست دانوں کے انٹرویو لیتے ہیں اور مخالف سیاست دانوں کو اپنے ٹاک شو میں بٹھاکر مرغوں کی طرح لڑانے کا اہتمام کرتے ہیں جس سے ان کی صلاحیتوں کا بھانڈا پھوٹتا رہتا ہے۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ عوام ان سے متنفر ہوتے ہیں، بلکہ اپنے پسندیدہ لیڈر کی گفتگو سے مستفید ہوتے ہیں اور عوامی سطح پر ایک خاص طریقے سے ذہن سازی ہوتی ہے۔ اس طرح ملک کا امیج دن بہ دن بگڑ رہا ہے اور زرد صحافت جو دشمن ممالک کا ایجنڈا ہے، کامیابی سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔

ہر ملک کی اپنی تہذیب، ثقافت اور علاقائی رسوم و رواج کے ساتھ ساتھ ایک مستقل بیانیہ ہوتا ہے۔ پاکستان نظریاتی ملک ہے، اس کی اپنی علاقائی ثقافت اور رسوم و رواج ہیں۔ پاکستان میں بسنے والا ہر مسلمان اپنے مذہب، قرآن وسنت اور حُبِّ رسولؐ کے حوالے سے شدت پسندانہ جذبات رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے آج کے الیکٹرانک میڈیا اور سیکڑوں کی تعداد میں چینل مالکان کا کاروبار ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پروڈکٹس کی ایڈورٹائزنگ کے ذریعے چلتا ہے، اور ان میں سے بیشتر ملٹی نیشنل کمپنیاں یہود ونصاریٰ کی ملکیت ہیں جن کا ایجنڈا شروع دن سے ہی اسلام مخالف ہے۔ نائن الیون کے بعد بش نے جس صلیبی جنگ کا احیاکیا تھا وہ مسلم ممالک بالخصوص شام، عراق، افغانستان، لیبیا اور فلسطین میں ہلاکت خیز تباہی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سلامتی کے خلاف ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ کے نام سے الیکٹرانک و سوشل میڈیا کے توسط سے زور شور سے جاری ہے۔ آئے دن پاکستان کی منفی صورتِ حال کو اینکرز، وی لاگرز اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ خدانخواستہ پاکستان اب دولخت ہوا کہ تب ہوا۔

یاد آرہا ہے کہ 2000ء کے آغاز سے ہی الیکٹرانک میڈیا کے زیادہ تر پروگرام میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ 2012ء میں پاکستان چار حصوں میں تقسیم ہوجائے گا، اور اس کا خیالی نقشہ بھی امریکی ذرائع ابلاغ کے توسط سے اسکرینوں پر دکھایا جارہا تھا، اور ہمارا ازلی دشمن بھارت تو افغانستان میں موجود اپنے اڈوں اور ایجنٹوں کے ذریعے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی بھرپور مدد کررہا تھا اور خیبرپختون خوا میں تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذریعے فوج اور پیرا ملٹری فورسز پر مسلسل حملے کروا رہا تھا جو آج تک جاری ہیں۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں بم دھماکوں کا سلسلہ جاری تھا، مگر افسوس کہ میڈیا اور ان کے نمک خواروں کی جانب سے اداروں کی حمایت، اور بھارت ، سی آئی اے اور دیگر ملک دشمن بین الاقوامی قوتوں کی مذمت کرنے کے بجائے ریاستی اداروں کی نااہلی اور اس کی وجوہات میں دُور کی کوڑیاں لاکر عوام میں مایوسی اور عدم تحفظ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی، اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اب تو امریکا، یورپ اور بھارت تک پاکستان دشمن سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ مسلسل فوج اور ریاستی اداروں کے خلاف مہم میں مصروف ہیں۔

اسلامی اقدار، روایات اور اصولوں کے برخلاف اخبارات، رسائل، ٹی وی پروگراموں اور ڈراموں میں مغربی اور ہندوانہ تہذیب و اقدار کو اس طرح فروغ دیا جارہا ہے کہ ہمارے سماجی ڈھانچے کی چولیں ہل چکی ہیں۔ اس کا مظاہرہ ہمارے ہاں شادی کی رسومات میں ہورہا ہے۔ ’’حقوقِ نسواں‘‘ کے نام پر ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ اور ویلنٹائن ڈے کی بھرپور میڈیا کوریج نہ صرف زرد صحافت کی دلیل ہے بلکہ یہ مسلم معاشرے کی بنیادی تعلیمات اور شناخت کے خلاف ایک منظم بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے۔ نائن الیون کے بعد یہود، نصاریٰ اور ہنود کے اتحادِ خبیثہ کے ذریعے اسلامو فوبیا کا جو طوفان برپا کیا گیا، اس کو ثابت کرنے کے لیے پورے یورپ، امریکا اور بھارت میں توہینِ رسالت، قرآن جلانے اور مسلمانوں کی مذہبی اقدار کی پامالی کے پے در پے واقعات اس لیے کروائے جاتے ہیں تاکہ کوئی مسلمان نوجوان طیش میں آکر ردعمل ظاہر کرے اور پھر اسلام کے خلاف ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کی جانب سے ایک طوفان برپا کیا جائے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ اسلام ایک متشدد دین ہے اور مسلمان دہشت گرد ہیں۔

پاکستان میں عیسائیوں کے ذریعے پے در پے واقعات کروائے جاتے ہیں اور ملک میں موجود انسدادِ توہینِ مذہب اور توہین رسالت کے قانون کو بروئے کار لانے کے بجائے ہجوم کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے اور ٹی وی چینلز پر موجود بین الاقوامی پے رول پر کام کرنے والے صحافیوں کا ہجوم اُمڈ آتا ہے اور اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی شروع ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس یورپ، امریکا اور بھارت میں کوئی عیسائی یا ہندو مسجدوں پر حملہ کرتا ہے اور درجنوں مسلمانوں کو شہید کردیتا ہے تو یہی زرد صحافت کے عَلم بردار صحافی نہ عیسائیت اور نہ ہندو مذہب کی مذمت کرتے ہیں بلکہ صرف فرد کو قصوروار ٹھیرا کر چپ سادھ لیتے ہیں۔ گزشتہ 40 سال میں بوسنیا تا چیچنیا، فلسطین تا عراق، افغانستان تا کشمیر، برما تا فلپائن ایک کروڑ مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو وحشیانہ طریقے سے قتل کیا گیا مگر آج تک پاکستان کے کسی چینل پر اس کے خلاف کوئی مذمتی پروگرام پیش نہیں کیا گیا، بلکہ الٹا اس کا ملبہ شدت پسند مسلمانوں پر ڈالا جاتا ہے۔ گزشتہ 76 سال میں کشمیر میں لاکھوں مسلمان مارے گئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، اس کے خلاف نہ اینکرز کی زبان کھلتی ہے اور نہ حکمرانوں کی۔ زندہ مثال غزہ میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کُشی ہے، لیکن شاید ہی کسی صحافی نے براہِ راست اسرائیل کو دہشت گرد ریاست کہا ہو۔ اہلِ غزہ کے حق میں ہونے والے جلسے جلوسوں کی لائیو کوریج بھی نہیں دکھائی جاتی۔ پارلیمنٹ میں جنگ بندی کے لیے پھسپھسی سی ایک قرارداد منظور کرکے مجرمانہ خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔ اس کے برعکس بھارت کے صحافی اور چینلز مسلسل پاکستان اور اسلام کے خلاف محاذ کھول کر بیٹھے ہیں اور پاکستان کے کچھ نامور صحافی تو بھارتی حکومت اور صحافتی دنیا کے منظورِ نظر ہیں۔

قلم ازل سے آدمیت کی آبرو ٹھہرا
صاحبِ قلم ہی زمانے میں سرخرو ٹھہرا
قلم شمشیر وسناں سے ڈرا نہیں
قلم ہی ظالم کے رو برو ٹھہرا
قلم بحر و بر کی جستجو بھی ہے
قلم خوشنودیِ رب کی آرزو بھی ہے
مگر…
قلم بکتا ہے جب بازاروں میں
صاحب ِ قلم جھکتا ہے درباروں میں
( محمد امین اللہ امین)

اسی منڈی میں جہاں صاف کفن بکتا ہے
جسم بکتا ہے ادب بکتا ہے فن بکتا ہے
(مصطفی زیدی)

زرد صحافت دراصل قوم کے لیے ذیابیطس کی بیماری کی طرح ہے۔ آج اس ملک میں منفی پہلوؤں کی اس طرح تشہیر کی گئی ہے کہ موجودہ نسل اپنے ملک سے مایوس ہوکر ملک سے باہر یورپ و امریکا جانے کے لیے ہر جائز اور ناجائز راستہ اپناکر اپنی جانیں گنوا رہی ہے۔ حالانکہ 1971ء کے بعد ملک شدید ترین بحران سے دوچار تھا اور 1974ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد ملک کی سلامتی کے حوالے سے ہر کوئی فکرمند تھا، مگر ان تمام تر نامساعد حالات کے باوجود یہ ملک ایٹمی صلاحیتوں کا حامل بنا، اس نے روس کے گرم پانیوں تک پہنچنے کے خواب کو چکناچور بھی کیا اور امریکا، بھارت اور اسرائیل کی مشترکہ سازشوں کا اب تک مقابلہ بھی کررہا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک نوجوان ملک کے کسی علاقے سے کراچی روزگار کی تلاش میں آتا ہے اور محنت کرکے چند سال میں کیا سے کیا بن جاتا ہے۔ 1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد آنے والے بہاری اورنگی کے اجاڑ اور بیابان علاقے میں آباد ہوئے اور آج یہ بستی اپنے پیروں پر نہ صرف کھڑی ہے بلکہ شہر کے تمام تر اداروں میں اس کے پڑھے لکھے باصلاحیت اور ہنرمند نوجوان اپنا ایک منفرد اور خاص مقام رکھتے ہیں۔ کراچی میں ہزاروں بھکاری بھی تینوں وقت بکرے کے سالن اور بریانی سے شکم سیر ہورہے ہیں جس کا دنیا کے کسی ملک میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جھوٹی اور غیر تصدیق شدہ خبروں کو بریکنگ نیوز بناکر پیش کرنے اور تبصروں کی بھرمار نے قوم کو غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار کررکھا ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ ریاست کا یہ پانچواں ستون دیمک زدہ ہوکر اب قوم اور ملک کی سلامتی کے درپے ہے۔ سیکولر لابی اور نام نہاد ترقی پسند طبقے سے تعلق رکھنے والے آزادیِ اظہارِ رائے کے نام پر شتر بے مہار بن چکے ہیں اور ریاست کے خلاف اپنی زبان اور قلم استعمال کرکے ملکی سلامتی کے درپے ہیں۔

اللہ اس ملک کو تاقیامت قائم رکھے گا کیوں کہ اس کی بنیاد میں برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں کا مقدس لہو شامل ہے۔

حصہ