پھلوں کا بادشاہ اور جنگل کا بادشاہ

124

گرمیوں کی دوپہر تھی۔ جنگل کا بادشاہ شکار کو نکلا لیکن کافی دیر تلاش کے بعد بھی اس کو شکار نہیں ملا۔ گرمی سے جنگل کے بادشاہ کا حال بے حال تھا۔ وہ تھک کر لوٹنے ہی والا تھا کہ اچانک اس کی نظر آم کے درخت پر پڑی۔ ”آج تو تمہاری قسمت چمکنے والی ہے۔“ جنگل کے بادشاہ نے آم سےکہا۔

”وہ کیسے بھلا؟“ آم نے پوچھا۔

” کیونکہ آج تمہیں جنگل کا بادشاہ کھانے والا ہے۔“ جنگل کےبادشاہ نے جواب دیا۔

”بے شک تم جنگل کے بادشاہ ہو لیکن میں بھی پھلوں کا بادشاہ ہوں۔“ پھلوں کا بادشاہ بولا۔

تو شیر نے زور سے قہقہہ لگایا۔”ہاہاہا۔۔۔ اس پورے جنگل میں کسی کی ہمت نہیں ہو سکتی کہ میرا شکار کرسکے لیکن تمہیں تو ہر کوئی ٸ توڑ کر کھا لیتا ہے اور آج تم میرا شکار بننے والے ہو۔“ شیر نے کہا۔

”چلو ٹھیک ہے، پھر آج ذرا مجھے کھا کر تو دکھانا۔“ پھلوں کے بادشاہ نے کہا تو شیر نے زور سے آم کی طرف چھلانگ لگا ٸئی لیکن وہ آم تک نہ پہنچ سکا۔ آم نے زور سے قہقہہ لگایا:

”ہاہاہا۔۔ کیوں شیر میاں، مزہ آیا؟“ آم کی بات پر شیر غصے سے لال ہوگیا۔ اس نے اپنی پوری قوت سے چھلانگ لگا ٸ اور آم تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن اس بار بھی شیر ناکام رہا۔ آم ہنسنے لگا۔

”تیار ہو جائو شیر میاں اب شکاری خود شکار ہونے والا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے آم نے زور سے چھلانگ لگائی اور شیر کے سر پر گر پڑا شیر کے سر پر چوٹ لگی اور وہ بے ہوش ہو گیا۔

جب شیر کی آنکھ کھلی تو اسے یوں لگا جیسے اس کے سر پر تارے گول گول گھوم رہے ہوں وہ جلدی سے اٹھا اور وہاں سے بھاگ نکلا۔

یوں پھلوں کا بادشاہ جنگل کے بادشاہ سے جیت گیا۔
پیارے ساتھیو! اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں کبھی بھی کسی کو خود سے کمتر نہیں سمجھنا چاہیے۔

حصہ