کانچ پر چلنا ہے

127

آج تو صبح ہی سے بادلوں نے آسمان پر ڈیرے ڈالے ہوئے تھے، موسم خوش گوار ہونے کے باعث کام کرنا آسان تھا۔ بچوں کی گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہونے میں چند ہی دن رہ گئے تھے۔ وانیہ نے سوچا کہ اچھے موسم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام جمع شدہ کام آج ہی نمٹا لیے جائیں۔

میکے گئے ہوئے ایک ماہ سے زیادہ ہی ہوگیا تھا، اصل میں اس کی چاروں نندیں شادی شدہ اپنے گھروں کی تھیں اور میاں کے اکلوتے ہونے کی وجہ سے ساری ذمہ داری اس پر اور اس کے میاں کے سر پر تھی۔ وہ مہینہ پورا ہونے سے پہلے والدین سے مل آتی تھی، مگر اِس بار بچوں کی بیماری کی وجہ سے جا ہی نہ سکی۔

’’امی! میں کپڑے دھونے کے لیے مشین لگا لیتی ہوں، آپ اپنے اور ابو کے کپڑے بھی دے دیں۔‘‘ وانیہ نے ڈرتے ڈرتے ساس کے کمرے میں جھانک کر ان سے اجازت چاہی، جہاں وہ دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ کررہی تھیں…کیوں کہ اسے اندازہ تھا کہ ان کی اجازت کے بنا کوئی بھی کام کرنے کا مطلب گھر کا سکون خراب کرنا ہے۔

’’نہیں، مشین اتوار کو لگانا تاکہ ہفتے بھر کے تمام کپڑے ایک ساتھ ہی دھل جائیں۔‘‘

’’مگر امی اتوار کو تو میری چھوٹی بہن کی بات پکی ہورہی ہے، مجھے میکے گئے ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا تو میں نے سوچا کہ بچوں کی چھٹیاں بھی ہیں، میں ساجد کے ساتھ جاؤں گی تو کچھ دن امی کے گھر رہ کر آجاؤں گی، دن میں کپڑے دھوکر میں بہت تھک جاؤں گی۔‘‘ وانیہ کی اتنی لمبی بات شائستہ بیگم کو آگ ہی تو لگا گئی۔

’’ٹھیک ہے بھئی! جو تمہیں ٹھیک لگتا ہے وہ کرو، جب بات ماننی نہیں ہوتی تو پوچھتی کیوں ہو!‘‘

شائستہ بیگم صرف نام ہی کی شائستہ تھیں۔ وانیہ نے دکھی دل سے کچھ سوچتے ہوئے کپڑے دھونے کا ارادہ ترک کردیا۔

اتوار کو وہ خوشی خوشی میکے جانے کے لیے تیار ہورہی تھی۔ آج اس کی دونوں شادی شدہ بہنیں بھی امی کے گھر آنے والی تھیں۔ وہ خوش تھی کہ اتنے عرصے بعد وہ ہر فکر سے آزاد ہوکر ان سب کے ساتھ خوب گپ شپ کرے گی۔ دونوں بیٹوں کو بھی اس نے تیار کردیا تھا، اب وہ بے صبری سے میاں جی کی منتظر تھی۔

’’ساجد تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے اور تمہارے ابا نے شکرانے کا روزہ رکھا ہوا ہے، اگر تم وانیہ کو ابھی سے لے جاؤ گے تو ہمارے لیے افطاری کون بنائے گا؟‘‘

شائستہ بیگم پانچ بجے سے وانیہ کے میکے جانے کے حق میں نہیں تھیں حالانکہ کل ہی ان کی چاروں بیٹیاں دوپہر کی دعوت میں صبح سے ہی آ گئی تھیں اور مغرب کے بعد ان کی واپسی ہوئی تھی۔ ساجد کی بھی اپنی ماں کے سامنے کچھ بولنے کی جرات نہ تھی۔ وہ ڈھیلے قدموں اپنے کمرے میں آیا جہاں وانیہ چہرے پر خوشی لیے اس کا انتظار کررہی تھی… وہ ساس، سسر کے لیے کھانا تو بنا ہی چکی تھی، افطاری کے لیے پھل کاٹ کر اور لسی بناکر رکھ دی تھی۔ سوچا تھا کہ سموسے پکوڑے کھانے کی خواہش ہوئی تو ابو بازار سے لے آئیں گے۔ دو تین ہانڈیاں بھی بناکر رکھ دی تھیں۔ اس لیے اُس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ابھی اسے مزید دو تین گھنٹے رکنا پڑے گا۔

ساجد اور ابو ہر طرح سے وانیہ کے ساتھ تھے مگر کسی بھی موقع پر اس کے حق میں بولنے کی ہمت نہ رکھتے تھے۔

’’کیا ہوا ساجد! چلیں نا! بچے بھی اپنے کزنز سے ملنے کے لیے بے قرار ہورہے ہیں۔‘‘ وانیہ نے اسکارف باندھتے ہوئے کہا۔

اور جب ساجد نے اسے تمام بات بتائی تو وہ کچھ بھی بولے بنا عبایا اتار کر بیٹھ گئی، بولنے کی تو اسے اجازت ہی نہ تھی۔ یکدم اس کے کانوں میں اپنے باپ کے الفاظ گونجنے لگے ’’بیٹا! تمہیں یہ رشتہ ہر حال میں نبھانا ہوگا۔ شادی گڈے گڑیا کا کھیل نہیں، سسرال میں جو بھی مسئلے مسائل ہوں اُنہیں اپنے میاں کے ساتھ مل کر خود حل کرنا۔ ہمیں بتانا بھی نہیں، کیوں کہ ہم صرف دکھی ہوں گے، تمہارے گھریلو معاملات میں مداخلت کرکے انہیں بگاڑیں گے نہیں۔ بیٹا! نکاح کا رشتہ جتنا مضبوط نظر آتا ہے اتنا ہی نازک بھی ہوتا ہے۔ حوصلے، ہمت اور صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑنا… تم دیکھو گی کہ اِن شاء اللہ انھی ہتھیاروں کی مدد سے تم سب کے دل تسخیر کرلو گی۔‘‘

وہ ایک نئے عزم سے اٹھی، باورچی خانے میں جاکر ایپرن باندھا اور دہی پھلکیوں کے لیے دہی اور پکوڑوں کا بیسن پھینٹنے لگی… امی کے فون پر وہ مہمان آجانے کا میسج ڈال کر فون سائلنٹ کرچکی تھی۔

’’ارے بھئی آخر وانیہ باجی آ ہی گئیں، آپ تو لگتا ہے کہ سسرال کو ہی پیاری ہوگئی ہیں۔ میکے آنے اور ہمارے ساتھ وقت گزارنے کی آپ کو کوئی خواہش ہی نہیں ہوتی۔‘‘ چھوٹی دونوں بہنیں اس کا انتظار کرتے کرتے تھک چکی تھیں۔
’’ہاں تو جب سسرال والے اتنی محبت اور قدر کرتے ہیں تو میرے لیے بھی احساس کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔‘‘ وانیہ نے ہنستے ہوئے خوش گوار لہجے میں جواب دیا تو ساجد نے چونک کر اپنی بیوی کی طرف دیکھا، جہاں چہرے پر جان دار مسکراہٹ کے سوا کچھ نظر نہیں آیا… اور اس کے دل میں وانیہ کی قدر اور بڑھ گئی۔

حصہ