امریکی الیکشن مہم:
امریکا میں صدارتی امیدوار ہی نہیں، سابق صدر پر جان لیوا اصلی حملے کے بعد انتخابی مہم نے ڈرامائی موڑ لیا ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ یہ سارا جمہوری ڈرامہ ہے اس لیے بطور انٹرٹینمنٹ ہی دیکھ رہے ہیں۔ دو پارٹیاں ہیں، وہی اقتدار میں آتی ہیں، معمولی فرق کے ساتھ یکساں طور پر عالمی لبرل ورلڈ آرڈر کے نفاذ کا ہی کام کرتی ہیں، چاہے سیٹ جو بھی سنبھالے، بس چہرے کا ہی فرق ہوتا ہے۔ اِس مرتبہ ٹرمپ اور دیگر ممالک میں دائیں بازو والے بطور ردعمل سامنے آئے ہیں۔ ان کی فکر سے لبرل ورلڈ آرڈر کو نقصان پہنچنے کا خدشہ محسوس ہوتا ہے کیونکہ نسل پرستی، قوم پرستی یا کسی قسم کی مذہب پرستی کی لبرل فریم ورک میں گنجائش نہیں ہوتی۔
تاہم یہ بات درست ہے کہ امریکی صدر کے طور پر وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں بیٹھے شخص کا اندرون اور بیرون ملک لوگوں کی زندگیوں پر بڑا اثر ہوتا ہے۔ فلسطین، افغانستان، عراق سمیت کئی ممالک میں اس کے اشارے پر لاکھوں انسان ختم کردیے جاتے ہیں۔ اس لیے اِس الیکشن کا نتیجہ سب کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ امریکی صدر کے لیے کم از کم 14 سال تک امریکی شہری ہونا لازمی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکی سیاسی نظام پر صرف دو پارٹیوں کا غلبہ ہے، اس لیے جدید دور میں ہر صدر کا تعلق ان میں سے کسی ایک سے رہا ہے۔ ڈیموکریٹک کہنے کو ایک لبرل سیاسی جماعت ہے، جس کا ایجنڈا بڑی حد تک شہری حقوق، سماجی تحفظ کا وسیع نیٹ ورک اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے اقدامات بیان کیا گیا ہے۔
ریپبلکن امریکا میں قدامت پسند سیاسی جماعت کہلاتے ہیں (اصطلاح کے دھوکے میں مت آئیے گا)۔ یہ GOP، یا گرینڈ اولڈ پارٹی کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ یہ کم ٹیکسوں، حکومت کے سائز کو کم کرنے، امیگریشن اور اسقاطِ حمل پر سخت پابندیوں کی بات کرتے ہیں۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ریس میں رہ جانے والے آخری ریپبلکن ہیں اور انہیں ریپبلکن امیدوار نامزد کرنے کے لیے خاصی حمایت حاصل ہوچکی ہے۔
انتخابی عمل 2024ء:
اس سال ریاست ہائے متحدہ امریکا کے 60 ویں صدارتی انتخابات ہوں گے، جو منگل 5 نومبر 2024ء کو منعقد ہوں گے۔ ووٹرز چار سال کی مدت کے لیے صدر اور نائب صدر کا انتخاب کریں گے۔ اٹھارہ سال یا اس سے زیادہ عمر کا ہر امریکی شہری ووٹ ڈالنے کا اہل ہوگا۔
ملک کی آزادی کے ابتدائی سالوں میں 21 سال یا اس سے زیادہ عمر کے، جائداد کے مالک سفید فام ہی ووٹ کے اہل تھے۔ اس کے بعد بدترین خانہ جنگی امریکا کے نصیب میں رہی۔ یہ خونیں داستان پھر کبھی سنائیں گے۔ 20ویں صدی کے وسط میں 18 سال یا اس سے زیادہ عمر کے تمام شہریوں کے لیے ووٹنگ کے حقوق کی بتدریج توسیع کی گئی۔
اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق 26 کروڑ ووٹر امریکی انتخابات میں حصہ لیں گے۔
امریکی قوانین کے مطابق ٹرمپ پر اس کی بداعمالیوں کے 30 کے قریب الزامات ہیں جن میں سے کئی ثابت ہوچکے۔ اس سب کے باوجود اُس کی مقبولیت پاکستان میں عمران خان جیسی ہی ہے جو کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
تمام سروے ٹرمپ کی کامیابی کا عندیہ دے رہے ہیں۔ ٹرمپ بھی وہ صدر ہے جسے دوسری مدت نہیں مل سکی ورنہ دو ٹرم عمومی مانی جاتی ہیں۔
سوشل میڈیا دھما چوکڑی:
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے بارے میں تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سازشی نظریات کے بارے میں تیز ردعمل رہا۔
یہ آنے والے انتخابات یا اس کے بعد کے نتائج کے لیے اچھا اشارہ نہیں ہے۔ تین سال پہلے میٹا، ٹویٹر اور یوٹیوب سمیت بڑے آن لائن پلیٹ فارمز نے 6 جنوری کو امریکا کی جمہوریت پر حملے کو آن لائن پھیلنے سے روکنے کے لیے فوری ایکشن لیا۔ ایسے ہزاروں اکاؤنٹس کو معطل کردیا گیا جنہوں نے اس بارے میں اُن معلومات کو فروغ دیا جن سے حملہ ممکن ہوا۔ سیاسی اشتہارات پر وقفہ بڑھایا اور ایسی پوسٹس کو ہٹا دیا گیا۔ دیگر اقدامات کے علاوہ امریکی کیپٹل حملے کی تعریف کو بھی سخت سنسر سے گزارا گیا۔اس لیے سوشل میڈیا اس پورے جمہوری ڈرامے میں کلیدی مقام رکھتا ہے۔
گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ٹرمپ پر حملے کی کوشش کے بارے میں جھوٹے دعووں سے بھرے ہوئے نظر آئے، جس میں بائیں بازو کی بے بنیاد قیاس آرائیاں شامل ہیں کہ یہ واقعہ ٹرمپ کے اپنے سیاسی فائدے کے لیے ’’منظم‘‘ کیا گیا تھا۔ ونگ سازشی نظریات غلط طور پر تجویز کرتے ہیں کہ ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ کے سرکاری ایجنٹوں یا شاید صدر جوبائیڈن نے خود کسی نہ کسی طرح اس حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔ جبکہ یو ایس سیکرٹ سروس نے اسے ایک قاتلانہ اقدام قرار دیا ہے اور محکمہ ہوم لینڈ سیکورٹی نے اسے سیکورٹی کی ناکامی کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے کوشش کی کہ اس حملے کی خبروں کو کوئی بڑا ردعمل بننے سے روکیں، کیونکہ امریکہ ان حالات میں خانہ جنگی یا پاکستانی 9مئی کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔
ٹرمپ کا حملے کے بعد خطاب:
’’جیسا کہ آپ پہلے ہی جانتے ہیں، قاتل کی گولی میری جان لینے کے ایک چوتھائی انچ کے اندر اندر آئی، بہت سے لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ ’کیا ہوا؟ براہ کرم ہمیں بتائیں کہ کیا ہوا‘۔ اس لیے میں آپ کو بالکل بتاؤں گا کہ کیا ہوا، اور آپ اسے دوسری بار مجھ سے کبھی نہیں سنیں گے، کیونکہ یہ بتانا درحقیقت بہت تکلیف دہ ہے۔‘‘
یہ الفاظ ٹرمپ نے حملے کے چار دن بعد اپنے پہلے خطاب میں کہہ کر مزید حمایت سمیٹ لی۔
صدر جو بائیڈن نے اوول آفس سے اپنے خطاب میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قتل کی کوشش کی مذمت کی اور امریکیوں سے مطالبہ کیا کہ ’’ہماری سیاست میں درجہ حرارت کم کریں۔‘‘ بائیڈن نے اس سے قبل ریلی میں حفاظتی اقدامات کا آزادانہ جائزہ لینے کا حکم دیا تھا جہاں ٹرمپ جان لیوا حملے میں بچ گئے تھے۔ ٹرمپ کہتے ہیں کہ انہیں کان میں گولی ماری گئی تھی، ان کے چہرے پر خون نمایاں تھا، ان کو حفاظت کے ساتھ اسٹیج سے باہر لے جایا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق بندوق بردار اور سامعین کا ایک رکن ہلاک ہوا، جب کہ زخمی ہونے والے دو شرکاء اب بہتر ہیں۔
حملہ ہوگیا:
الیکشن مہم دھواں دھار انداز سے جاری تھی، 13 جولائی کو پنسلوانیا میں ایک ریلی میں صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر جان لیوا حملہ فائرنگ کی صورت ہوا۔ گولی اُن کے گال و کان کو چھوتی ہوئی گزر گئی۔ چہرے پر خون کی ایک دھاری سب نے دیکھی۔
ایف بی آئی نے فائرنگ کرنے والے کی شناخت 20 سالہ تھامس میتھیو کروکس کے طور پر کی ہے جو پنسلوانیا کے بیتھل پارک کا رہائشی ہے۔ ایجنسی نے کہا کہ کروکس نے اکیلے یہ کام کیا اور اس کے پس منظر و محرکات کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔
بس اس کو بھی ڈپریشن اور اسٹریس کا شکار اور تنہائی پسند ظاہر کیا جارہا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے حملہ آور کے نظریات کی انتہائی کم جھلک ظاہر ہوتی۔ تھامس میتھیو کروکس تنہا رہنے والا فرد تھا، اسکول میں اس کا بہت زیادہ مذاق اڑایا جاتا تھا۔ تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ تھامس میتھیو کروکس کی گاڑی اور گھر سے بم بنانے کا سامان بھی ملا ہے۔ حملہ آور نے جو رائفل فائرنگ کے لیے استعمال کی تھی وہ اس کے والد نے قانونی طور پر خریدی تھی۔
گیمرز میں مشہور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ڈسکورڈ‘ نے بتایا ہے کہ انہیں ایک اکاؤنٹ ملا جو کہ ممکنہ طور پر تھامس میتھیو کروکس کا ہے جس میں اُس نے کہا تھا کہ وہ کچھ بڑا کرنے جارہا ہے۔ امریکا میں ایسے واقعات بلکہ اس سے زیادہ سنگین اجتماعی قتل کی وارداتیں معمول کی بات ہیں، بس اِس بار مقبول شخص نشانہ بن گیا۔
بیوی پر تشدد:
عائشہ جہاں زیب کا کیس اِس ہفتے سوشل میڈیا پر ایک نمایاں پوزیشن پر زیر بحث رہا۔
یہ ہم بھی نہیں چاہتے کہ کسی خاتون کے نجی اور گھریلو معاملات زیر بحث ہوں، مگر سوشل میڈیا ڈسکورس پر وہ خود ہی جب تصاویر ڈال کر لوگوں کو موقع دیں تو پھر ہم کیا کر سکتے ہیں! ہم تو صرف رپورٹ ہی کرتے ہیں۔
تین ہفتے قبل وہ سما ٹی وی کے ٹاک شو میں ہونے والے خواتین کے اس موضوع پر مباحثے کو کنڈکٹ کررہی تھیں جس میں خواتین کے دینی علم سے نابلد ہونے اور طاغوت نہ جاننے کا معاملہ سامنے آیا۔ اب سوشل میڈیا پر اُن کی چہرے پر تشدد والی تصاویر وائرل رہیں۔وہ بتا رہی تھیں کہ ان کے شوہر نے ان پر تشدد کیا۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر ایک اور کہانی جاری ہوئی جس میں یہ بتایا گیا کہ انہوں نے پہلے شوہر کی موت کے بعد دوسرے شوہر کے تعاون سے اپنے بچوں کو پالا، اور ان کے ساتھ بہت اچھی نبھ رہی تھی۔ اس طرح کی کچھ کہانیاں سوشل میڈیا پر ڈالی جا رہی تھیں جن کی تصدیق بہرحال وہ خود ہی کریں گی۔
اس منظرنامے میں جب شوہر کو ظالم بناکر پیش کیا گیا تو ہماری لاہور کی خواتین پولیس حرکت میں آئی، ایف آئی آر بھی کٹی، اور وہ شوہر آخری اطلاعات تک گرفتار بھی ہوگیا۔ اور پھر وہی بات ہے کہ ایک شوہر اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھا سکتا ہے یا نہیں اٹھا سکتا، اس کا دین نے، شرع نے اُسے جو اختیار دیا ہے کیا ریاست کے بنے ہوئے قوانین اُسے اس حق سے محروم کر سکتے ہیں؟ کیونکہ یہ کہنا ابھی بہرحال قبل از وقت ہوگا کہ خاتون نے کیا غلطی کی تھی۔ آیا کہ اس غلطی پہ مارنا چاہیے تھا یا نہیں مارنا چاہیے تھا؟ تاہم یہ پوزیشن بنتی جا رہی ہے کہ خواتین کو مضبوط کرنے کے نام پر اور وومن امپاورمنٹ کے عنوان سے خواتین کو ایسے اختیارات اور ایسے حالات سے گزارا جائے جس کے بعد ازخود مرد مظلوم بن جائے، اور مرد پھر اپنے حقوق کے لیے ایک الگ تحریک کی جانب جاتانظر آئے۔یہ لبرلزم کا پورا ڈسکورس ہے جو حقوق کے عنوان سے وہ ڈیل کرتا ہے اور سب کو موقع دیتا ہے کہ آپ اپنے اپنے حقوق کے لیے بات کریں، اور اپنا جو بھی حق آپ کو لگتا ہے کہ ریاست آپ کو دے گی اس سے وہ مانگیں، اور وہ کسی نہ کسی شکل میں اِدھر اُدھر بیلنس کر کے آپ کو دے دے گی۔ عائشہ کے شوہر نے بیان دیا ہے کہ عائشہ نے بھی اس پر ہاتھ اٹھایا ہے جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے۔ حارث نے پرچے میں جھوٹی معلومات ڈالنے کا دعویٰ کیا ہے۔ حارث نے سوشل میڈیا پر جاری تصاویر کو بھی جعلی قرار دیا ہے کیونکہ میڈیکل رپورٹ سے وہ چوٹیں ثابت نہیں ہورہیں۔ بہرحال کیس چل رہا ہے، لوگ مزے لے لے کر ایک گھر کی اس کہانی سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے، سامنے آجائے گا۔ بس ایسے میں مولانا سید مودودیؒ نے سورہ نسا کی آیت کی تفسیر میں خواتین کی سرکشی کو قابو کرنے کے لیے ترتیب بتاتے ہوئے جو لکھا ہے، پڑھ لیجیے:
’’بہرحال اس میں قصور اور سزا کے درمیان تناسب ہونا چاہیے، اور جہاں ہلکی تدبیر سے اصلاح ہوسکتی ہو وہاں سخت تدبیر سے کام نہ لینا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کو مارنے کی جب کبھی اجازت دی ہے بادلِ ناخواستہ دی ہے اور پھر بھی اسے ناپسند ہی فرمایا ہے۔ تاہم بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو پٹے بغیر درست ہی نہیں ہوتیں۔ ایسی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ منہ پر نہ مارا جائے، بے رحمی سے نہ مارا جائے اور ایسی چیز سے نہ مارا جائے جو جسم پر نشان چھوڑ جائے۔‘‘ (تفہیم القرآن)