جمعیت الفلاح کے زیر اہتمام مشاعرہ

138

جمعیت الفلاح کراچی نے رفیع الدین راز کی صدارت میں مشاعرہ ترتیب دیا جس میں سعید الظفر صدیقی مہمان خصوصی اور ڈاکٹر محمود غزنوی مہمان اعزازی تھے۔ تلاوت کلامِ مجید کی سعادت نورالدین نور نے حاصل کی۔ نظر فاطمی اور اکرم راضی نے نعتیہ کلام پیش کیا۔ قمر محمد خان نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ جمعیت الفلاح ایک رفاہی اور سماجی ادارہ ہے لیکن ہم اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں بھی حصہ دار ہیں‘ ہم ادبی و علمی پروگرام کے ساتھ ساتھ مشاعرے بھی کراتے ہیں کہ مشاعرہ ہماری روایات کا آئینہ دار ہے۔ شعرائے کرام ہمارے معاشرے کے نباض ہیں اور ہمیں زندہ رکھتے ہیں‘ ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہیں‘ ہمارے معاشرے کے سلگتے ہوئے مسائل پر قلم اٹھاتے ہیں۔

قیصر خان نے کہا کہ وہ تمام شعرائے کرام اور سامعین کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہماری دعوت پر اس مشاعرے میں شرکت کی‘ ہمارے مشاعرے میں سامعین کی کثیر تعداد ہوتی ہے جو کہ اس بات کی علامت ہے کہ ابھی تک لوگ شعر و سخن سے جڑے ہوئے ہیں۔ جو تنظیمیں ادب کی خدمت کر رہی ہیں ہم ان کے ساتھ ہیں‘ ہمارے دروازے ان کے لیے کھلے ہوئے ہیں وہ ہمارے ادارے جمعیت الفلاح میں اپنا پروگرام منعقد کر سکتے ہیں‘ ہم ان کے لیے بھرپور تعاون کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت دی جائے جس کا اعلان ہماری عدالت نے بھی کیا ہے لیکن بیورو کریسی نے مشکلات پیدا کی ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اردو زبان اس وقت عالمی زبانوں میں شامل ہے‘ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہورہا ہے لیکن ہم اردو کو رومن انگریزی میں لکھ کر اردو کا قتل کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر محمود غزنوی نے کہا کہ وہ اپنی مصروفیات کے سبب بہت کم مشاعروں میں جاتے ہیں لیکن شاعری تو میرے خون میں شامل ہے‘ آج کی محفل میں بہت عمدہ کلام پیش کیا گیا۔ میں جمعیت الفلاح کراچی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں‘ مجھے امید ہے کہ مشاعروں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ سعید الظفر صدیقی نے کہا کہ اردو ادوب کی ترقی میں مشاعروں کا بھی حصہ ہے‘ یہ ادارہ ہر زمانے میںفعال رہتا ہے اس وقت کراچی کی ادبی فضا بہت سازگار ہے اس وقت یہ صورت حال ہے کہ ایک ہی دن میں کئی کئی مشاعرے ہو رہے ہیں۔ آج کل ادبی گروہ بندیوں میں اضافہ ہو رہا ہے‘ کچھ تنظیمیں اپنے من پسند لوگوں کو پروموٹ کر رہی ہیں۔ جینوئن شعرائے کرام کی حق تلفی کا سلسلہ جاری ہے‘ وہ حکومتی ادارے کہ جن کا کام ادب کی ترقی ہے‘وہاں بھی کچھ معاملات سو فیصد طریقے سے درست سمت میں نہیں جا رہے۔

رفیع الدین راز نے اپنا کلام سنانے سے پہلے کہا کہ آج کے مشاعرے میں سامعین نے بہت اہم کردار ادا کیا‘ انہوں نے ہر عمدہ شعر پر دل کھول کر داد دی۔ اس محفل میں کراچی کے بہت سے اہم شعرا موجود ہیں۔ جمعیت الفلاح کے زیر اہتمام ہونے والی تمام تقریبات کامیاب ہوتی ہیں یہ لوگ بڑی محبت سے دعوت دیتے ہیں‘ بلاشبہ یہ ادارہ بہت کام کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری کا غیر تحریر شدہ منشور یہ ہے کہ ہم ظلم کے خلاف آواز بلند کریں‘ معاشرے کی بہتری کے لیے اشعار لکھیں‘ لوگوں کی رہنمائی کریں‘ انہیں گمراہ نہ کریں‘ معاشرے میں امن وامان بحال کرنے میں اپنا حصہ شامل کریں۔ جو شعرا سچائیاں رقم کر رہے ہیں ان کی شاعری زندہ رہے گی۔

اس پروگرام کی نظامت نورالدین نور اور نظر فاطمی نے کی۔ جن شعرائے کرام نے اپنا کلام پیش کیا ان میں رفیع الدین راز‘ سعیدالظفر صدیقی‘ ڈاکٹر محمود غزنوی‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ زاہد حسین جوہر‘ حنیف عابد‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ نورالدین نور‘ مقبول زیدی‘ خالد میر‘ اختر ہاشمی‘ عطا محمد تبسم‘ کشور عدیل جعفری‘ احمد سعید خان‘ محمد ابراہیم خلیل‘ صاحبزادہ عتیق الرحمن‘ ڈاکٹر اورنگ زیب‘ ڈاکٹر رانا خالد محمود‘ ضیا حیدر زیدی‘ نظر فاطمی‘ یاسر سعید صدیقی‘ فخراللہ شاد‘ ذوالفقار حیدر پرواز‘ مظہر اظہار مہدی اور نعیم الدین نعیم شامل ہیں۔

حضرت امام حسینؓ نے لازوال قربانی
پیش کی‘ رافعہ جاوید ملاح
معروف ادیب‘ شاعر اور ممتاز ماہر تعلیم رافعہ جاوید ملاح نے بزمِ یارانِ سخن کراچی کے زیر اہتمام ہونے والے آن لائن مجلسِ مسالمہ میں کہا ہے کہ حضرت امام حسینؓ نے اسلام کی بقا کے لیے میدانِ کربلا میں اپنی اور اپنے 72 ساتھیوں کی قربانیاں پیش کیں۔ انہوں نے یزید کی بیعت نہیں کی بلکہ اپنی جانیں قربان کیں۔یہ واقعۂ تاریخِ اسلام میں وہ اہم واقعہ ہے جس نے ملوکیت کی جڑیں ہلا دیں اور بہت جلد ہی یزیدی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ ہمارے رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں حسینؓ سے ہوں۔ حضرت امام حسینؓ ایک فاسق و جابر حکمران یزید کی بیعت کرتے۔ یزید نے اپنی تمام تر طاقت و اختیارات استعمال کرتے ہوئے حصرت امام حسینؓ کی بیعت حاصل کرنا چاہی مگر وہ ناکام ہوا۔ واقعۂ کربلا ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھی اور اردو زبان و ادب میں رثائی ادب نے شان دار اضافہ کیا ہے۔ مرثیے‘ سلام‘ نوحے سن کر ہمارا ایمان تازہ ہوتا ہے۔ ہر زمانے کے شعرائے کرام حضرت امام حسینؓ کو منظوم خراج عقیدت پیش کرتے ہیں‘ وہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔

بزمِ یارانِ سخن کراچی کے صدر سلمان صدیقی نے کہا کہ محرم الحرام اسلامی کیلنڈر کا وہ مہینہ ہے جس میں تمام عالمِ اسلام خاص طور پر حضرت امام حسینؓ کی یاد میں مجالس ترتیب دیتے ہیں۔ کربلا نے اسلامی تاریخ میں اہم اضافہ کیا ہے‘ اس نے ہمیں زندہ رہنے کے سنہرے اصول بتائے۔ حضرت امام حسینؓ نے ظالم و جابر حکمران کی بیعت کرنے کے بجائے اپنی جان قربان کرکے لازوال مثال قائم کی۔ اس واقعۂ نے اسلامی تاریخ کا رُخ تبدیل کیا۔ دس محرم الحرام ایک تاریخ ساز دن ہے‘ تمام شعرائے کرام تاریخ ِ کربلا رقم کرتے ہیں‘ وہ اپنے اشعار کے ذریعے ہمیں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم حضرت امام حسینؓ کے نقش قدم پر چلیں۔ آج کی مجلسِ مسالمہ میں تمام شعرا نے اچھا کلام پیش کیا۔ اس آن لائم مشاعرے نے ہماری معلومات میں گراں قدر اضافہ کیا۔

ڈاکٹر رانا خالد نے کہا کہ رثائی ادب سے ہمیں ذہنی آسودگی حاصل ہوتی ہے‘ ہماری ایمانی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ 72 لوگوں نے جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ ایک یادگار تحریک ہے جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ کسی بھی یزید کی اطاعت سے بہتر ہے کہ ہم حق کی خاطر اپنی جان قربان کر دیں۔ ساری دنیا میں دس محرم کو ہر طبقۂ فکر کے علمائے کرام کربلا کی اہمیت و افادیت بیان کرتے ہیں‘ ہمیں چاہیے کہ ہم حسینی راستے پر گامزن ہو جائیں‘ یہ ہمارے لیے باعثِ نجات ہے۔

سرور چوہان نے کہا کہ بزم یارانَِ سخن کراچی اردو ادب کی خدمت میں مصروف ہے‘ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم رثائی ادب کو بھی پروموٹ کریں اس سلسلے میں ہم آج آن لائن مشاعرہ کر رہے ہیں جس کا مقصد کر بلا کی افادیت اجاگر کرنا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کے اقدامات اسلامی تاریخ کا اہم حصہ ہے‘ انہوں نے ہمیں جو درس دیا ہے وہ ہمارے ایمان میں شامل ہے۔ اس مجلس مسالمہ میں سلمان صدیقی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ ڈاکٹر رانا خالد محمود‘ سرور چوہان‘ سلمیٰ رضا سلمیٰ‘ زبیدہ خانم‘ کامران عشرت‘ معراج چشتی‘ بلند اقبال‘ زبیر صدیقی‘ کشور عروج اور نادیہ خان نے اپنا کلام پیش کیا۔

حصہ