مہنگائی اور غربت کا طوفان

222

ایک وقت تھا کہ مہنگائی اور غربت ایک ’’واقعہ‘‘ تھیں۔ 20 ویں صدی کے وسط تک آتے آتے مہنگائی اور غربت ’’حادثہ‘‘ بن گی اور اب 21 ویں صدی میں مہنگائی اور غربت ’’سانحہ‘‘ بن کر سامنے آرہی ہیں۔ جس دور میں مہنگائی اور غربت ’’واقع‘‘ تھیں اس زمانے میں غربت کو ایک ’’تقدیری امر‘‘ سمجھا جاتا تھا اور انسانوں کی عظیم اکثریت تقدیر کو بہ رضا و رغبت قبول کرتی تھی۔ مگر بیسویں صدی میں غربت کے تقدیری امر ہونے کا خیال پس منظر میں چلا گیا اور انسانی کاوش کو اساسی اہمیت حاصل ہو گئی۔ 21 ویں صدی کا تجربہ یہ ہے کہ 21 ویں صدی میں چین نے 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے اور بھارت نے 40 سال میں 35 کروڑ کی مڈل کلاس پیدا کر کے دکھائی ہے۔ چنانچہ ہمارے عہد میں غربت جس طرح ناقابل قبول ہوئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ اب غربت جہاں ہو ایک سانحہ نظر آتی ہے۔ اس منظرنامے میں مہنگائی اور غربت کا پھیلائو،ایک طوفان بن کر اٹھا ہے اور اس نے امریکہ، جرمنی اور برطانیہ جیسے ملکوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر مہنگائی اور غربت کے طوفان سے امریکہ جرمنی اور برطانیہ لرزہ براندام ہوں گے تو پاکستان اور اس جیسے درجنوں ملکوں کا کیا حال ہو گا۔

پاکستان میں 1970ء کی دہائی ذوالفقار علی بھٹو کی دہائی تھی۔ ان کا نعرہ روٹی کپڑا اور مکان فضا میں گونج رہا تھا۔ اس نعرے کا اثر صرف پاکستان پر نہیں تھا۔ اس نعرے نے ہندوستان کے ذہن کو بھی متاثر کیا تھا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ بھارت کے ممتاز اداکار اور پرڈیوسر منوج کمار نے بھٹو کے مذکورہ نعرے سے متاثر ہو کر روٹی، کپڑا اور مکان کے عنوان سے ایک کمرشل فلم بنا ڈالی تھی جو باکس آفس پر ہٹ ہوئی تھی۔ 1970ء کی دہائی غربت کی دہائی تو تھی مگر آج کے تناظر میں مہنگائی کی دہائی نہیں تھی۔ اس زمانے میں اشیائے صرف کے نرخ برسوں تک ایک سطح پر منجمد رہتے تھے۔ البتہ کبھی کبھار کچھ چیزوں کی قیمتیں بڑھ بھی جاتی تھیں چنانچہ ہر طرف ہنگامہ آجاتا تھا۔ روٹی، کپڑا اور مکان میں منوج کمار نے نہ صرف یہ کہ غربت اور مہنگائی کو موضوع بنایا بلکہ ایک طویل گیت بھی فلم میں شامل کیا۔گیت کیا ہے مہنگائی کا نوحہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کبھی مہنگائی اور غربت کوفلم کا موضوع ہی نہیں بنایا گیا۔ منوج کمار کی فلم روٹی، کپڑا اور مکان میں مہنگائی کے حوالے سے موجود گیت یہ تھا:

اس نے کہا تُو کون ہے
میں نے کہا الفت تری
اس نے کہا تکتا ہے کیا
میں نے کہا صورت تری
اس نے کہا چاہتا ہے کیا
میں نے کہا چاہت تری
اس نے کہا سمجھانہیں
میں نے کہا قسمت مری
ایک ہمیں آنکھ کی لڑائی مار گئی
دوسری یہ یار کی جدائی مار گئی
تیسری ہمیشہ کی تنہائی مار گئی
چوتھی یہ خود کی خواہش مار گئی
باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی
مہنگائی مار گئی

طبیعت ٹھیک تھی اور دل بھی بے قرار نہ تھا
یہ جب کی بات ہے جب کسی سے پیار نہ تھا
جب سے پریت سینوں میں سمائی مار گئی
من کے میٹھے درد کی گہرائی مار گئی
نینوں سے یہ نینوں کی سگائی مار گئی
سوچ سوچ میں جو سوچ آئی مار گئی
باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی
مہنگائی مار گئی

کیسے وقت میں آکے دل کو دل کی لگی بیماری
مہنگائی کے دور میں ہو گئی مہنگی یار کی یاری
دل کی لگی دل کو جب لگائی مار گئی
دل نے دی جو پیار کی دہائی مار گئی
دل کی بات دنیا کو بتائی مار گئی
دل کی بات دل میں جو چھپائی مار گئی
باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی
مہنگائی مار گئی

پہلے مٹھی میں پیسے لے کر
تھیلا بھر شکر آتی تھی
اب تھیلے میں پیسے جاتے ہیں
مٹھی میں شکّر آتی ہے
ہائے مہنگائی، مہنگائی، مہنگائی
دہائی ہے دہائی ہے دہائی ہے دہائی
تو کہاں سے آئی
تجھے کیوں موت نہ آئی
ہائے مہنگائی، مہنگائی، مہنگائی
شکّر میں یہ آٹے کی ملائی مار گئی
پاوڈر والے دودھ کی ملائی مار گئی
راشن والی لین کی لمبائی مار گئی
جنتا جو چیخی، چلائی مار گئی
باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی

غریب کو تو بچے کی پڑھائی مار گئی
بیٹی کی شادی اور سگائی مار گئی
کسی کو تو روٹی کی کمائی مار گئی
کپڑے کی کسی کو سلائی مار گئی
کسی کو مکان کی بنوائی مار گئی

جیون کے بس تین نشان
روٹی، کپڑا اور مکان
ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہر انسان
کھو بیٹھا ہے اپنی جان
جو سچ، سچ بولا تو سچائی مار گئی
باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی

پاکستان میں 1990ء کی دہائی معاشی استحکام کی دہائی تھی لیکن اس وقت بھی زیریں متوسط اور غریب طبقے کی حالت دگرگوں تھی۔ ایک روز ہم صبح گیارہ بجے گھر سے نکلے اور رات ساڑھے دس بجے دفتر سے گھر پہنچے۔ ہماری بیوی نے کہا کہ آپ تھکے ہوئے ہیں۔ آپ ٹھہریں میں فلیٹ کے سامنے موجود تنور سے روٹی لے آتی ہوں۔ اب ہم بچوں کے ساتھ دسترخوان پر بیگم صاحبہ کی واپسی کا انتظار کرنے لگے مگر وہ آکر ہی نہیں دے رہیں۔ کافی انتظار کے بعد وہ واپس آئیں تو بتانے لگیں کہ ہمارے فلیٹ کے پاس آغا خان کی ڈسپنسری کے سامنے ایک عورت چھوٹے سے بچے کو لیے کھڑی تھی۔ وہ نہ ڈسپنسری میں جارہی تھی نہ وہاں سے ہٹ رہی تھی۔ ہماری بیگم صاحبہ نے اس سے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے۔ عورت نے کہا میرا بچہ بیمار ہے۔ اسے ڈاکٹر کو دکھانا ہے۔ ہماری بیگم صاحبہ نے کہا کہ ڈسپنسری میں ڈاکٹر کو دکھا دو۔ عورت کہنے لگی کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس وقت ڈسپنسری کے ڈاکٹر کی فیس صرف 15 روپے تھی اور ایسی عورت کے پاس 15 روپے نہیں تھے۔ ہماری بیگم نے اسے 15 روپے دیے اور اسے ڈاکٹر پاس لے کر گئیں۔ تقریباً اسی زمانے میں ہم ایک روز رات کو نارتھ ناظم آباد کے ایک پرائیوٹ کلینک میں ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ان کا کلینک خالی پڑا ہے۔ ہم نے ازراہِ تفنن کہا کہ کیا لوگوں نے بیمار ہونا چھوڑ دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ہماری بات سن کر مسکرائے کہنے لگے نہیں لوگوں نے بیمار ہونا بند نہیں کیا۔ آج پاکستان اور بھارت کا میچ آرہا ہے لوگ میچ دیکھ کر کلینک آئیں گے۔ ہم نے ڈاکٹرصاحب کو فارغ دیکھ کر پوچھا کہ یہ تو سناہے کہ آپ کے پاس جو مریض آتے ہیں ان میں سے کچھ لوگ آپ سے ڈسکائونٹ مانگتے ہیں یا نہیں؟ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ جب سردیوں میں نزلہ زکام پھیل جاتا ہے تو بعض گھروں میں ایک بچے سے نزلہ زکام تمام بچوں کو لگ جاتا ہے اور پھر لوگ تین تین چار چار بچوں کی دوا لینے آتے ہیں، ایسے لوگ مجھ سے فیس میں رعایت کرنے کو کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد کا ایک کلینک تھا اور ڈاکٹر صاحب کی فیس صرف 40 روپے تھی۔

یہ غالباً 1995-96ء کی بات ہے۔ ایک دن ہم نے اپنے ایک کم عمر بھتیجے سے پوچھا کہ آج کل تم اپنی خالہ کے یہاں نہیں جارہے۔ خیریت تو ہے؟ کہیں اپنی خالہ زاد بہنوں سے تمہارا جھگڑا تو نہیں ہو گیا۔ کہنے لگا ایسی بات نہیں ہے۔ ہم نے کہا پھر تم نے اپنی خالہ کے یہاں جانا کیوں چھوڑا ہوا ہے۔ کہنے لگا کہ میں ان کے گھر جاتا ہوں تو وہ کھانے کے وقت مجھ سے کھانا کھانے کو کہتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ بھئی خالہ کے گھر کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ کہنے لگا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ان کے گھر پر روز دال پکتی ہے اور میں روز دال نہیں کھا سکتا۔ ہم نے کہا ہر روز دال پکتی ہے کہنے لگا کہ ہاں ہر روز دال پکتی ہے۔ یہ اس گھر کا احوال تھا جہاں شوہر اور بیوی دونوں کماتے تھے۔

اسی زمانے میں ہمارے کچھ دوستوں نے کہاکہ شاہنواز بھائی آپ کے شائع شدہ کالموں کا کیا حال ہے۔ آپ ان کو محفوظ کر رہے ہیں یا وہ یونہی پڑے ہوئے ہیں۔ ہم نے کہا وہ یونہی پڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے پاس دو لڑکے بھیج دیتے ہیں۔ وہ صبح نو بجے آپ کے گھر آجایا کریں گے اور شام پانچ بجے تک آپ کے کالموں کو رجسٹروں میں چپکا دیں گے۔ اس طرح آپ کے کالم دیر تک محفوظ رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آپ ان لڑکوں کو دوپہر کا کھانا کھلا دیا کیجیے گا باقی معاملات ہم دیکھ لیں گے۔ چنانچہ ہمارے یہاں دو لڑکے صبح نو بجے آنے لگے۔ ہمارے گھر میں جو کچھ پکتا انہیں کھلا دیتے۔ لیکن چار پانچ دنوں بعد انہوں نے ہمارے دوستوں سے ہماری شکایت کر ڈالی۔ کہنے لگے کہ وہ ہمارے لیے اہتمام سے کھانا پکواتے ہیں۔ ہمارے دوستوں نے ہم سے کہا کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ ہم کوئی خصوصی اہتمام نہیں کر رہے جو کچھ پکتا ہے ان کے آگے رکھ دیتے ہیں۔ بہرحال ہم نے ان لڑکوں سے اگلے دن کہا کہ آپ نے تو ہماری شکایت کر دی حالانکہ ہم آپ کو کوئی فائیو اسٹار کھانا نہیں کھلا رہے۔ ہمارے گھر دال پکتی ہے تو آپ کو دال کھلا دیتے ہیں۔ مرغی پکتی ہے تو مرغی کھلا دیتے ہیں۔ ہماری بات سن کر ان میں سے ایک لڑکا جذباتی ہو گیا۔ کہنے لگا سر مسئلہ یہ ہے میرے گھر میں ڈیڑھ مہینوں سے فاقوں کا راج ہے۔ ہم دن میں صرف ایک وقت کھانا کھا پاتے ہیں۔ اب ایک ماہ پہلے میری دو بہنوں کو ایک فیکٹری میں ملازمت ملی ہے چنانچہ ایک ماہ سے ہم دن میں تین وقت کچھ کھا رہے ہیں۔ چنانچہ آپ کے گھر کا کھانا ہمیں واقعتاً پرتعیش محسوس ہوا۔ ہم سمجھے آپ ہمیں شعوری طور پر اچھا کھانا کھلانے کا اہتمام کر رہے ہیں۔ آج سے اٹھارہ بیس سال پہلے روزنامہ جنگ کراچی میں اتوار کے روز ایک کالم شائع ہوتا تھا۔ کالم نویس غریبوں کی کسی بستی میں چلا جاتا تھا اور کسی بھی غریب گھر کے سربراہ سے پوچھتا تھا کہ آپ کی آمدنی اور اخراجات کا کیا معاملہ ہے۔ اس کالم میں ملک کے سب سے بڑے اور سب سے امیر شہر کے شہریوں کی دلدوز کہانیاں شائع ہوتی تھیں۔ اس کالم میں ایک بوڑھی عورت نے بتایا کہ اس کے پوتے پوتیاں کئی ماہ سے چڑیا گھر جانے کی ضد کر رہے ہیں مگر میں ان کو لے کر نہیں جا سکتی کیونکہ میرے پاس بسوں کے کرائے کے پیسے نہیں ہیں۔ ایک صاحب نے بتایا کہ ان کے یہاں سال میں صرف ایک بار گوشت پکتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب عیدالاضحٰی پر کسی کے یہاں سے گوشت آجاتا ہے۔ ایک خاتون نے بتایا کہ وہ سبزیاں شام کے وقت خریدتی ہیں کیونکہ اس وقت ٹھیلے والوں کے پاس سبزیوں کی تلچھٹ باقی رہ جاتی ہے جو سستی ہوتی ہے۔ اس خاتون نے بتایا کہ اس کی بیٹی کی شادی محلے والوں نے پیسے جمع کر کے کی ہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ گھر میں کسی کو بخار ہو جاتا ہے تو ہم لوگ ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے۔ بخار اتارنے والی گولیاں میڈیکل اسٹور سے خرید کر کام چلا لیتے ہیں۔

یہ بہتر ’’معاشی زمانے‘‘ کا منظرنامہ تھا مگر آج تو یہ صورت حال ہے کہ امریکہ، جرمنی اور برطانیہ جیسے امیر ملکوں میں مہنگائی اور غربت نے کروڑوں لوگوں کاجینا حرام کر دیا ہے۔ روزنامہ جنگ کراچی کی ایک خبر کے مطابق امریکہ میں مہنگائی کا 30 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ امریکہ کے سرکاری اعدادوشمار میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح30 سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔ اس صورت حال کے بعد امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ مہنگائی کے مسئلے سے خود براہ راست نمٹیں گے۔ صدر جوبائیڈن نے تسلیم کیا کہ امریکی شہری روز اشیائے ضرورت کے لیے بہت زیادہ ادائیگی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کی معاشی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیروزگاری میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن اشیاء کی خریداری کے لیے قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔‘‘

(روزنامہ جنگ کراچی۔ 12 نومبر 2021ء)

روزنامہ امت کراچی کی ایک خبر کے مطابق برطانیہ میں مہنگائی کے سبب فوڈ بینکس (خیراتی اداروں) پر عوام کا رش بڑھ گیا ہے۔ ملک میں توانائی کے ذرائع کی قیمتیں بڑھنے سے عوام بلوں کی ادائیگی یا پھر راشن کی خریداری میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور ہیں۔ مہنگائی سے تنگ شہریوں کا کہنا ہے کہ سردی کے سبب گھروں کو گرم رکھنا ضروری ہے۔ تاہم بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے وہ فوڈ بینکس کا رخ کر رہے ہیں۔ ایک فوڈ بینک کے ذمہ دار نے بتایا کہ اس کے بینک سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد میں 400 افراد کا اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس وہ لوگ بھی آرہے ہیں جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ بھی خیراتی ادارے سے رجوع کر سکتے ہیں۔ ایک فوڈ بینک کے ذریعے نے بتایا کہ ان کے فوڈ بینک سے استفادہ کرنے والوں میں اساتذہ، ٹینس کے کھلاڑی اور دیگر ملازمت پیشہ افراد شامل ہیں۔

روزنامہ امت کی ایک خبر کے مطابق جرمنی میں مہنگائی کا 30 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق گیس اور پیٹرولیم کے نرخوں میں اضافے سے افراطِ زر بڑھ گیا ہے۔ مہنگائی میں اضافے سے عوام پریشان ہیں۔ (روزنامہ امت۔ یکم دسمبر 2021ء)

اندازہ کیا جا سکتا ے کہ امریکہ، جرمنی اور برطانیہ میں اگر مہنگائی قہر ڈھا رہی ہے تو پاکستانی معاشرے کا کیا حال ہو گا۔ پاکستان کی آبادی اس وقت 22 کروڑ ہے اور ملک میں 10 کروڑ افراد خط غربت سے نیچے کھڑے ہیں۔ وہ لوگ ہیں جن کی یومیہ آمدنی ایک ڈالر اور دو ڈالر کے درمیان ہے۔ ایک وقت تھا کہ کہا جاتا تھا کہ 20 ہزار روپے میں گھر نہیں چلایا جا سکتا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جس گھر میں ماہانہ 50 ہزار روپے آرہے ہیں وہاں بھی ماہانہ بجٹ بنانا مشکل ہو گیا ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں۔ اس لیے کے اب گھروں کے کرائے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ آج سے دس بارہ سال پہلے ہمارے فلیٹ میں بجلی کا ماہانہ بل پانچ سو روپے ہوتا تھا آج ساڑھے آٹھ ہزار روپے ہوتا ہے۔ حالانکہ ہمارے گھر میں اے سی بھی موجود نہیں۔ جب 1991ء میں ہم نے جامعہ کراچی سے ایم اے کیا تھا تو ہمارے آخری سمسٹر کی فیس ساڑھے چار سو روپے تھی۔ اب ہمارا بیٹا جامعہ کراچی میں ایم اے کا طالب علم ہے اور اس کے ایک سمسٹر کی فیس 12 ہزار روپے ہے۔ جب ہم جامعہ کراچی میں تھے تو جامعہ کراچی کی اپنی شٹل سروس تھی اور اس کا ایک طرف کا کرایہ ایک روپیہ تھا۔ آج جامعہ کراچی کی شٹل سروس تقریبا غیر موجود ہے اور اب بسوں کے ذریعہ جامعہ کراچی جانے کے لیے طالب علم کو بسوں کے کرائے کے لیے ساٹھ ستر روپے درکار ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہم مہنگائی اور غربت کے حوالے سے معاشی قتل عام کے عہد میں سانس لے رہے ہیں۔ غربت اتنی ہولناک چیز ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث شریف میں ایسی غربت سے اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرنے کو کہا جو انسان کو کفر تک لے جاتی ہے۔ اس حدیث مبارک سے ثابت ہوتا ہے ابتدا میں غربت صرف معاشی ہوتی ہے مگر وہ دیکھتے ہی دیکھتے روحانی غربت، نفسیاتی غربت، ذہنی غربت، اخلاقی غربت اور جذباتی غربت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایسی غربت انسان سے اس کی انسانیت چھین لیتی ہے۔ ایسی غربت انسان کے وقار پر ڈاکہ ڈال دیتی ہے۔ اس سلسلے میں منشی پریم چند کا افسانہ کفن، کلاسیک کا درجہ رکھتا ہے۔ اس افسانے کے دو مرکزی کردار غربت کی وجہ سے ایسے حیوان بن جاتے ہیں کہ اپنے گھر کی عورت کا کفن تک بیچ کھاتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مہنگائی اور غربت کامقامی اور عالمی طوفان کروڑوں لوگوں کی روحانیت، اخلاقیات، نفسیات اور ذہنی صحت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔

حصہ