شعروشاعری

174

علامہ اقبال
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
منصور کو ہوا لبِ گویا پیامِ موت
اب کيا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
میں انتہائے عشق ہوں ، تو انتہائے حسن
دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
عذر آفرین جرمِ محبت ہے حسنِ دوست
محشر میں عذرِ تازہ نہ پیدا کرے کوئی
چھپتی نہیں ہے یہ نگہ شوق ہم نشیں!
پھر اور کس طرح انھیں دیکھا کر ے کوئی
اڑ بیٹھے کيا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی
نظارے کو يہ جنبشِ مژگاں بھی بار ہے
نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی

داغؔ دہلوی
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں
الٹی شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا
ڈرتا ہوں دیکھ کر دلِ بے آرزو کو میں
سنسان گھر یہ کیوں نہ ہو مہمان تو گیا
کیا آئے راحت آئی جو کنجِ مزار میں
وہ ولولہ وہ شوق وہ ارمان تو گیا
دیکھا ہے بت کدے میں جو اے شیخ کچھ نہ پوچھ
ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا
افشائے راز عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اسے جتا تو دیا جان تو گیا
گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا پر ہزار شکر
مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا
بزم عدو میں صورت پروانہ دل مرا
گو رشک سے جلا ترے قربان تو گیا
ہوش و حواس و تاب و تواں داغؔ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا

ظفر اقبال
نہیں کہ تیرے اشارے نہیں سمجھتا ہوں
سمجھ تو لیتا ہوں سارے نہیں سمجھتا ہوں
ترا چڑھا ہوا دریا سمجھ میں آتا ہے
ترے خموش کنارے نہیں سمجھتا ہوں
کدھر سے نکلا ہے یہ چاند کچھ نہیں معلوم
کہاں کے ہیں یہ ستارے نہیں سمجھتا ہوں
کہیں کہیں مجھے اپنی خبر نہیں ملتی
کہیں کہیں ترے بارے نہیں سمجھتا ہوں
جو دائیں بائیں بھی ہیں اور آگے پیچھے بھی
انہیں میں اب بھی تمہارے نہیں سمجھتا ہوں
خود اپنے دل سے یہی اختلاف ہے میرا
کہ میں غموں کو غبارے نہیں سمجھتا ہوں
کبھی تو ہوتا ہے میری سمجھ سے باہر ہی
کبھی میں شرم کے مارے نہیں سمجھتا ہوں
کہیں تو ہیں جو مرے خواب دیکھتے ہیں ظفرؔ
کوئی تو ہیں جنہیں پیارے نہیں سمجھتا ہوں

مظفر وارثی
ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے
سانس لیتے ہوئے انساں بھی ہیں لاشوں کی طرح
اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے
جس کی گردن میں ہے پھندا وہی انسان بڑا
سولیوں سے یہاں پیمائش قد ہوتی ہے
شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس
بولتا جہل ہے بد نام خرد ہوتی ہے
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجازِ سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے

اقبال عظیم
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے
خواب ہو جاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے
اب تو چہروں کے خد و خال بھی پہلے سے نہیں
کس کو معلوم تھا تم اتنے بدل جاؤ گے
اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھلا مت دینا
سرخ شعلوں سے جو کھیلو گے تو جل جاؤ گے
دے رہے ہیں تمہیں تو لوگ رفاقت کا فریب
ان کی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاؤ گے
اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے
خواب گاہوں سے نکلتے ہوئے ڈرتے کیوں ہو
دھوپ اتنی تو نہیں ہے کہ پگھل جاؤ گے
تیز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو
بھیڑ میں سست چلو گے تو کچل جاؤ گے
ہم سفر ڈھونڈو نہ رہبر کا سہارا چاہو
ٹھوکریں کھاؤ گے تو خود ہی سنبھل جاؤ گے

غوث محمد غوثی
وہ یقیں پیکر ہے کس کا نور دیدہ کون ہے
ظلمتِ شب میں چراغ آسا دمیدہ کون ہے
گردِ جادہ کون ہے منزل رسیدہ کون ہے
وقت کیا کہتا ہے سنئے برگزیدہ کون ہے
زہر غم پی جز و جاں کر پھر بھی موت آئے تو کیا
یوں بھی امرت کا یہاں لذت چشیدہ کون ہے
فرش سے تا عرش یکساں ہے صدائے مرحبا
دیکھنا یہ سر بکف یہ سر بریدہ کون ہے
بات کرتے ہیں تو منہ سے دودھ کی آتی ہے بو
ان میں اپنی محفلوں کا رنگ دیدہ کون ہے
خاک سے پا کر مفر کس کو نہ خوش آیا سفر
دل گرفتہ کون ہے خاطر کبیدہ کون ہے
اپنے سائے پر ہی جب مرکوز تھے ذہن‌ و نظر
کوئی کیوں کر دیکھتا قامت کشیدہ کون ہے
جب درِ کردار پر آنچ آ گئی کیا رہ گیا
اب یہ صرف ماتمِ رنگ پریدہ کون ہے
کس قدر شائستگی سے کہہ گیا وہ اپنا غم
دوستوں کی خیر ہو دشمن گزیدہ کون ہے
غم نہ کر غوثیؔ اگر مردہ نہیں تیرا ضمیر
تجھ سے بڑھ کر خود ترا دیدہ شنیدہ کون ہے

حبیب جالب
دستور
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

حصہ