دل بیدار فاروقی؄

90

وہ قوی تھے‘ بہادر اور جنگ جو تھے‘ علم والے تھے کہ اُس وقت پڑھے لکھوں میں شمار تھا جب قبیلہ قریش کے صرف 17 لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ وہ حضور اکرمؐ کے قتل پر تلے بیٹھے تھے مگر قرآنِ حکیم کی اثر آفرینی تھی کہ بارگاہ نبوت میں قبولِ اسلام کے لیے گردن جھکائے آئے تھے۔ ان کا قبولِ اسلام تھا کہ مسلمانوں کے لیے مژدہ مسرت و شادمانی تھا۔ وہ خوف ناک دشمن سے شدید حامی بن کر ابھر آئے تھے۔ وہ ابو حفص کی کنیت رکھنے والے، فاروق کا لقب پانے والے، دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمرؓ تھے۔

ان کا دور خلافت بھی خود انہی کی طرح اپنی مثال آپ تھا۔ بائیس لاکھ اکاون ہزار تیس مربع میل کے فاتح‘ مفلس بڑھیا کی داستانِ غم پر اشکِ ندامت بہاتے‘ اَناج کی بوری خود اٹھا لائے تھے۔ بھرے مجمع میں لمبی قمیض ایک سوالیہ نشان بن گئی تھی مگر وہ کڑے احتساب سے گزرتے سرخرو ٹھہرے تھے۔

وہ جہاں مجسم عجز و انکسار تھے وہاں صاحب تدبر و تدبیر بھی تھے۔ ان کے قائم کردہ قواعدِ حکومت آج بھی عالم میں قابل تقلید ہیں۔ وہ کوفہ، بصرہ، شام، مصر اور موصل جیسے خوب صورت اور کشادہ شہر بسانے والے تھے۔ سن‘ ہجری اور سکوں کا اجرا، مجلس شوریٰ کا قیام اور شوریٰ نظام کا آغاز انہوں نے ہی کیا۔ باقاعدہ فوجی نظام، فوجی قوانین، فوجی دفاتر، فوج کی بیرکیں اور چھاونیوں کا قیام، پولیس کا محکمہ، جیل خانہ جات اور قید خانوں کا قیام، محکمہ قضا اور شہر میں قاضیوں کے تقرر کا عمل، سرکاری دفاتر، خزانے اور بیت المال کی بنیاد، مساجد میں امام اور موذن کا تقرر، نہروں کی کھدائی اور زرعی نظام کی بنیاد و اصلاحات، دارالامان، دیوان خانوں، مہمان خانوں، چوکیوں اور سرائے کا قیام انہی کے دم قدم سے عمل میں آیا۔ شہروں میں کشادہ سڑکوں کا جال، مکہ و مدینہ میں بہترین سفری سہولتیں، مردم شماری اور پیمائش کے نظام کا اجرا انہی کی فہم و فراست کا نتیجہ تھا۔ مسجد نبویؐ اور مسجد الحرام کی توسیع و تعمیر، تروایح کی سنت، مقامِ ابراہیم کی موجودہ جگہ، مساجد میں چراغ جلانے کی روایت، نماز جنازہ میں چار تکبیریں، شراب پینے پر 80 درے، غیر مسلموں کا عرب سے اخراج، گھوڑوں پر زکوٰۃ، غریبوں اور بیوائوں کے لیے وظائف، عدلیہ کا بہترین فوری اورشفاف نظام دنیائے عالم کو تحفۂ عہد فاروقی ہیں۔

اسلامی سلطنت کو وسعت دینے والے اور بہت سی اصلاحات کرنے والے فاروق اعظمؓ کو مخاطب کر کے میرے آقا خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ’’قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے، شیطان جب تجھے کسی راستے پر چلتا ہوا ملتا ہے تو شیطان وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے کہ جس راستے پر تو چلتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1686)

شیطان کو راستہ بدلنے پر مجبور کرنے والے امیر المومنین کی آرزو بھی انہی کی طرح بے مثال تھی۔ وہ بارگاہ الٰہی میں درخواست پیش کیا کرتے کہ ’’اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت عطا فرما اور اپنے رسولؐ کے شہر مدینہ میں موت دے۔‘‘ (بخاری)۔ ان کی درخواست قبول ہوئی اور 27 ذی الحجہ کو نماز فجر کی امامت کے دوران ایک پارسی غلام ابو لولو نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا۔ زخمی حالت میں آپ نے اپنے فرزند عبداللہ کو بلا کر کہا کہ عائشہؓ کے پاس جائو اور کہو عمر آپ سے اجازت طلب کرتا ہے کہ رسول اللہ کے پہلو میں دفن کیا جائے۔

عبداللہ حضرت عائشہؓ کے پاس آئے وہ رو رہی تھیں۔ حضرت عمرؓ کا سلام کہا اور پیغام پہنچایا۔ حضرت عائشہؓ نے کہا اس جگہ کو میں اپنے لیے محفوظ رکھنا چاہتی تھی لیکن آج میں اپنے آپ کو عمرؓ پر ترجیح دوں گی۔ عبداللہ واپس آئے‘ لوگوں نے حضرت عمرؓ کو خبر کی۔ بیٹے کی طرف مخاطب ہوئے اور کہا کہ کیا خبر لائے؟ انہوں نے کہا جو آپ چاہتے تھے۔ فرمایا یہی سب سے بڑی آرزو تھی۔

یکم محرم کو زخموں کی تاب نہ لا کر وہ رحلت فرما گئے۔ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔

آج صدیوں بعد بھی ان کا پڑھایا ہوا، عمل کر کے دکھایا ہوا صداقت،شجاعت اور دیانت کا سبق ایک باز گشت کی مانند فضائوں میں گونج رہا ہے۔

حصہ